اس دور میں جینا مشکل ہے ! 44

بلدیاتی انتخاب میںشکست جمہوریت !

بلدیاتی انتخاب میںشکست جمہوریت !

پیپلزپارٹی اپنے تمام تر حربوں کا استعمال کر تے ہوئے ا پنامیئر بنوانے میں کامیاب ہوگئی،کراچی کی تاریخ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کا میئر بنناخوشی کی بات ہے، مگر یہ جس طرح سب کچھ کیا گیا ، وہ نہایت افسوسناک اور قابل تنقید ہے، سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن کروانا ہی نہیں چاہتی تھی، یہ بڑی مشکل سے عدالتی فیصلوں کی وجہ سے ممکن ہو پایا،لیکن جب بلدیاتی الیکشن ہوئے تو اس میں خاصے تنازعات نے جنم لیا،

حلقہ بندیوں سے لے کر پری پول رگنگ تک کے الزمات لگے ،انتخابی نتائج سنانے میں غیر معمولی تاخیر کرتے ہوئے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا ،لیکن الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا سب کچھ ہوتا دیکھتا رہا ،اس مایوس کن کا کردار کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو الیکشن کمیشن کراچی شہر میں ڈھنگ سے بلدیاتی الیکشن نہیں کرا سکتا، وہ پورے ملک میں جنرل الیکشن کیسے کرائے گا؟
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ملک میںضمنی انتخابات سے لے کر بلدیاتی انتخابات تک الیکشن کمیشن کا کردار انتہائی امتیازانہ رہا ہے ، اپوزیشن بار ہا اعتراضات کے ساتھ الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج بھی کرتی رہی ہے ،لیکن الیکش کمیشن اپنے رویئے پر نظر ثانی کر نے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ، الیکشن کمیشن ایک آزاد خود مختار ادارہ ہے ،مگر اس نے اپنی آزادی اور ساری خود مختاری خود ہی موجودہ حکومت کے سامنے سلنڈر کردی ہے ، اس لیے ہی الیکشن کمیشن ہر انتخابات پر اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے

، اگر الیکشن کمیشن نے ایسے ہی نام نہاد شفاف انتخابات کرانے ہیں تو اس سے سیاسی استحکام کے بجائے مزید عدم استحکام ہی آئے گا ۔حکمران اتحاد نے انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کی ایسی رویت ڈالی ہے کہ اب کوئی حکومت بھی انتخابا ت میں کا میابی کی یقین دہانی کے بغیر جانا ہی نہیں چاہتی ہے ، پیپلزپارٹی سندھ میںپندرہ برس سے مستقل اقتدار میں ہے، اس کے باوجود بلدیاتی انتخابات سے گریز کرتی رہی ہے،

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کی مزاحمتی سیاسی جدوجہدکی وجہ سے پیپلزپارٹی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے پر مجبور ہوئی ،لیکن انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود کراچی پر قبضے کے لیے جو جائز ونا جائز ہتھکنڈے استعما کیے گئے ہیں، اس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوری روایت اور آزاد سیاسی جدوجہدانتہائی خطرے میں پڑ تی جارہی ہے۔
اگر دیکھا جائے

تو پاکستانی جمہوری قوتیں غیر جمہوری قوتوں کے مقابلے میں کمزور ہی رہی ہیں، لیکن بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی بدعنوانی نے اسے مزید کمزور کیا ہے ،کراچی بلدیاتی انتخابات سے لے کر میئر کے انتخاب تک پیپلزپارٹی نے جو طریقہ اختیار کیا ہے، اسے فسطائیت کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا، اس بارے میں جماعت اسلامی قیادت بار ہا پیپلزپارٹی قیادت کو خبردار کرتی رہی ہے کہ اگر کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیاتو اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے،

لیکن پیپلز پارٹی حکومت اپنی طاقت کے غرور میں کوئی بات ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی خوفزدہ ہے اور بجا خوف ہے کہ اگر کراچی کا اصل کردار بحال ہو گیا تو اس کے اثرات پھیلیں گے اور جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے ذریعے انہیں سندھ پر جو گرفت حاصل ہے، وہ کمزور پڑتی چلی جائے گی۔
کراچی کے بلدیاتی اور میئر کے انتخابات نے سندھ حکومت، پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن کے ساتھ اہل سر پرست کو بھی بے نقاب کر دیا ہے ،یہ سب کو اب صاف نظر آرہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے کراچی کے میئر کے منصب پر اپنے دعوے کے مطابق جیالا لانے میں کس طرح کامیابی حاصل کی ہے، کھلے عام حکومتی اور ریاستی طاقت استعمال کرتے ہوئے یوسی کے چیئرمین اور سٹی کونسل کے ارکان کو نہ صرف گرفتار کیا گیا، بلکہ کچھ افراد کو لاپتا بھی کیا گیا ہے، اس جبر و استبداد کے باوجود سیاسی کارکنوں نے غیر معمولی مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے ، جماعت اسلامی میئر انتخاب کو مسترد کرتے ہوئے بھر پور مزاحمت کے ساتھ قانونی راستہ ختیار کرنے کا بھی عندیہ دیاہے ،جبکہ پیپلزپارٹی اسے اپنی فتح سمجھتے ہوئے

جماعت اسلامی کو آگے بڑھنے کا مشورہ دیے رہی ہے،تاہم اس طرح دھاندلی زدہ انتخاب کے ساتھ کسی کاایسے ہی آگے بڑھنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے کو گرانے اور ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کے بجائے ایک دوسرے کو بر داشت کرنا سکھیں ، ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کر نا سکھیں ،ایک دھاندلی زدہ الیکشن سے کبھی حکومت چلے گی نہ ہی ملک میں سیاسی استحکام لایا جاسکے گا

،اس ملک میں سیاسی استحکام لانے کیلئے مذاکراتی عمل سے انتخابی عمل کو شفاف بنانا ہو گا ، اگر اب بھی اہل سیاست کے ساتھ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات شفاف بنانے میں اپنا حقیقی کردار ادا نہ کیا تو اس کا نقصان اہل سیاست کے ساتھ جمہوریت کابھی ہو گا ،اگر جمہوریت ہی نہ رہی تو پھراہل سیاست کے خالی ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں