نئی بہاریں لانے والا شاعر''ڈاکٹر ارشد معراج'' ڈاکٹر ارشد معراج جیسی شخصیت پر کچھ لکھنے سے پہلے میں مجید امجد کی ایک نظم ''ایسے بھی دن'' سے کچھ سطریں منتخب کروں گا۔ پھلواڑی میں پھول کھلے، مرجھائے کون اب ان کی مٹتی راکھ سے اپنی مانگ سجائے آتے زمانے نئے پھول اور نئی بہاریں لائے اردو نظم کی روایت وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ڈاکٹر ارشد معراج جیسے نظم گو، غزل گو شعراء شعری میدان میں نئی بہاریں لانے والے ہیں۔اگر موجودہ نظم گو شعراء کی فہرست ترتیب دی جائے تو کئی نام ذہن میں ابھرتے ہیں۔جلیل عالی، نصیر احمد ناصر، اختر عثمان، ڈاکٹر روش ندیم، علی اکبر ناطق، الیاس بابر اعوان، پروین طاہرخلیق الرحمان، نوید ملک، ڈاکٹر فاخرہ نورین، سرمد سروش یہ وہ نام ہیں جو نظم کے حوالے سے ادبی حلقوں میں زیادہ سنائی دے رہے ہیں۔ڈاکڑ ارشد معراج کا نام بھی موجودہ عہد کے اہم ترین نظم گو شعراء میں شمار ہوتا ہے۔میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے علمی حوالے سے آپ کے تجربات سے استفادہ بھی کیا ہے۔میں آپ کی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت سے بھی آگاہ ہوں۔آپ اپنوں اور غیروں دونوں کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔محبت آپ کے وجود کا حصہ ہے اور یہی محبت آپ کی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نظم پر مشتمل کتاب''دوستوں کے درمیان'' قارئین کے ذوق کی آبیاری کے لیے لے کر آئے ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ کی بہت ساری کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی حاصل کر چکی ہیں۔آپ محقق بھی ہیں۔آپ کی ایک نظم''تیشہء کرب'' سے انتخاب آپ کی نذر کرتا ہوں۔ تیش? کرب کندھوں پہ رکھے ہوئے کوہ کن بے اماں پھر رہے ہیں یہاں خواہشوں کے دیے سب دھواں ہو گئے وہ جو ماضی کے چمکیلے اوراق تھے ان پہ لکھے ہوئے گیت گم ہو گئے آپ کے فن کے بارے میں عہد ساز ادبی شخصیت جناب اقبال شمیم نے لکھا: '' ارشد معراج کی (نظمیں) تاریخی شعور اور انسانوں سے گہری درد مندی کے رویئے کی نشاندہی کرتی ہیں یہ رویہ ترقی پسندی اور روشن خیالی سے عبارت ہے، جبکہ اپنی ہیت میں یہ نظمیں تجزیئے کے بجائے خارج و داخل اور شعور و جذبہ کو ایک مرکب میں یکجا کرنے کی جدید تر ہنروری کی حامل ہیں۔ ان تمام نظموں کا مشترک عنصر وہ شعریت ہے جو اچھوتے اور غیر مانوس لفظوں کو بھی قابل قبول بنا دیتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ شعریت ہی شاعری کی شرط اول ہے '' (حوالہ۔ فلیپ۔ کتھا نیلے پانی کی۔ اشرف بک ایجنسی۔ راولپنڈی۔2006 ئ) ارشد معراج ان گیتوں کو کامیابی کے ساتھ تلاش کرتے ہیں جو وقت کے دریا اور شور میں گم ہو گئے ہیں۔''دوستوں کے درمیان'' کی نظمیں صرف نظمیں نہیں بلکہ محبت کی ایسی تاریخ ہے جو ادبی دنیا میں ہمیشہ جاوداں رہے گی۔آپ کا اپنا اسلوب ہے اور جذبات کی عکاسی بالکل منفرد انداز میں کرتے ہیں۔ادب کے طلباء کے لیے یہ نظمیں ایک ایسا خزانہ ہے جس سے ہر کوئی استفادہ کر سکتا ہے۔تنہائی میں بیٹھ کر بزم سجائی جا سکتی ہے، ہجر کے کرب میں امید کے دیپ روشن کیے جا سکتے ہیں، مایوسی میں امید کے پھول کھلائے جا سکتے ہیں، غم کے اندھیروں میں خوشی کے اجالے بانٹے جا سکتے ہیں۔الغرض یہ نظمیں فراموش نہیں کی جا سکتیں۔یہ مجموعہ ایک ایسی عمارت ہے جس پر ہر طرح کے جواہرات نظر آئیں گے۔می ں آپ کے لیے بس ایک شعر کہوں گا: آپ جیسا نہیں اک دوست ہمارا کوئی آپ کو ہم نے بھلانا نہیں ارشد معراج 51

نئی بہاریں لانے والا شاعر”ڈاکٹر ارشد معراج”

نئی بہاریں لانے والا شاعر”ڈاکٹر ارشد معراج”

نئی بہاریں لانے والا شاعر”ڈاکٹر ارشد معراج”

ڈاکٹر ارشد معراج جیسی شخصیت پر کچھ لکھنے سے پہلے میں مجید امجد کی ایک نظم ”ایسے بھی دن” سے کچھ سطریں منتخب کروں گا۔

پھلواڑی میں پھول کھلے، مرجھائے
کون اب ان کی مٹتی راکھ سے اپنی مانگ سجائے
آتے زمانے نئے پھول اور نئی بہاریں لائے

اردو نظم کی روایت وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ڈاکٹر ارشد معراج جیسے نظم گو، غزل گو شعراء شعری میدان میں نئی بہاریں لانے والے ہیں۔اگر موجودہ نظم گو شعراء کی فہرست ترتیب دی جائے تو کئی نام ذہن میں ابھرتے ہیں۔جلیل عالی، نصیر احمد ناصر، اختر عثمان، ڈاکٹر روش ندیم، علی اکبر ناطق، الیاس بابر اعوان، پروین طاہرخلیق الرحمان، نوید ملک، ڈاکٹر فاخرہ نورین، سرمد سروش یہ وہ نام ہیں

جو نظم کے حوالے سے ادبی حلقوں میں زیادہ سنائی دے رہے ہیں۔ڈاکڑ ارشد معراج کا نام بھی موجودہ عہد کے اہم ترین نظم گو شعراء میں شمار ہوتا ہے۔میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے علمی حوالے سے آپ کے تجربات سے استفادہ بھی کیا ہے۔میں آپ کی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت سے بھی آگاہ ہوں۔آپ اپنوں اور غیروں دونوں کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔محبت آپ کے وجود کا حصہ ہے

اور یہی محبت آپ کی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نظم پر مشتمل کتاب”دوستوں کے درمیان” قارئین کے ذوق کی آبیاری کے لیے لے کر آئے ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ کی بہت ساری کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی حاصل کر چکی ہیں۔آپ محقق بھی ہیں۔آپ کی ایک نظم”تیشہء کرب” سے انتخاب آپ کی نذر کرتا ہوں۔
تیش? کرب کندھوں پہ رکھے ہوئے
کوہ کن بے اماں پھر رہے ہیں یہاں
خواہشوں کے دیے
سب دھواں ہو گئے
وہ جو ماضی کے چمکیلے اوراق تھے
ان پہ لکھے ہوئے گیت گم ہو گئے
آپ کے فن کے بارے میں عہد ساز ادبی شخصیت جناب اقبال شمیم نے لکھا:
” ارشد معراج کی (نظمیں) تاریخی شعور اور انسانوں سے گہری درد مندی کے رویئے کی نشاندہی کرتی ہیں یہ رویہ ترقی پسندی اور روشن خیالی سے عبارت ہے، جبکہ اپنی ہیت میں یہ نظمیں تجزیئے کے بجائے خارج و داخل اور شعور و جذبہ کو ایک مرکب میں یکجا کرنے کی جدید تر ہنروری کی حامل ہیں۔

ان تمام نظموں کا مشترک عنصر وہ شعریت ہے جو اچھوتے اور غیر مانوس لفظوں کو بھی قابل قبول بنا دیتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ شعریت ہی شاعری کی شرط اول ہے ”
(حوالہ۔ فلیپ۔ کتھا نیلے پانی کی۔ اشرف بک ایجنسی۔ راولپنڈی۔2006 ئ)
ارشد معراج ان گیتوں کو کامیابی کے ساتھ تلاش کرتے ہیں جو وقت کے دریا اور شور میں گم ہو گئے ہیں۔”دوستوں کے درمیان” کی نظمیں صرف نظمیں نہیں بلکہ محبت کی ایسی تاریخ ہے جو ادبی دنیا میں ہمیشہ جاوداں رہے گی۔

آپ کا اپنا اسلوب ہے اور جذبات کی عکاسی بالکل منفرد انداز میں کرتے ہیں۔ادب کے طلباء کے لیے یہ نظمیں ایک ایسا خزانہ ہے جس سے ہر کوئی استفادہ کر سکتا ہے۔تنہائی میں بیٹھ کر بزم سجائی جا سکتی ہے، ہجر کے کرب میں امید کے دیپ روشن کیے جا سکتے ہیں، مایوسی میں امید کے پھول کھلائے جا سکتے ہیں، غم کے اندھیروں میں خوشی کے اجالے بانٹے جا سکتے ہیں۔الغرض یہ نظمیں فراموش نہیں کی جا سکتیں۔یہ مجموعہ ایک ایسی عمارت ہے جس پر ہر طرح کے جواہرات نظر آئیں گے۔می
ں آپ کے لیے بس ایک شعر کہوں گا:
آپ جیسا نہیں اک دوست ہمارا کوئی
آپ کو ہم نے بھلانا نہیں ارشد معراج

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں