دوپہر ڈهل چکی، عید قربان کا گوشت کب آئیگا؟
نقاش نائطی
۔ +966562677707
عید قربان پر بچوں سے لدے پهدے مساکین و غرباء کے گھر، کس قدر کرب میں گزرتے ہیں اس پر اپنا تفکر حاضر خدمت ہےہلکی ہلکی پهوار ، معتدل موسم، باد نسیم کے ہلکے ہلکے جھونکے، ویسے تو یہ موسم بہت ہی رومانٹک ہوا کرتا ہے لیکن اس کی زندگی سے تو رومانس لفظ, ایک انمنٹ نشان کی طرح مٹ چکا ہے. بچوں کے ابا کے انتقال کے بعد ویسے تو یہ دوسری عید ہے، لیکن عید قربان پہلی، قربانی کرنے کی تو پہلے بهی ان کی استطاعت نہ تهی،لیکن چونکہ وہ، بانکے جوان تهے، محنت مزدوری کیا کرتے تهے،
اس لئے سال گذشتہ ڈهیر سارا قربانی کا گوشت عید کے چاروں روز لایا کرتے تهے. گوشت اتنا ہوتا تھا کئی قسم کے گوشت کی پکوان کے علاوہ مستقبل کے برے دنوں کے لئے وہ ڈهیر سارا گوشت سکها کر بهی رکھ دیاکرتی تهی. الگ الگ اقسام کے پکے گوشت، کئی کئی روز تک کهائے جاتے تهے. لیکن اب وہ دن سنہری یادوں والے دن ہو کر ہی رہ گئے ہیں. گهر آنگن میں اچهل کود کرتے دو عدد بچیوں کے علاوہ آٹھ مہینہ کا ننها، گود میں رہنے کی وجہ ،کہیں مزدوری پر بهی وہ جا نہیں پارہی تهی.
اس لئے اب فاقوں تک نوبت آپہنچی تهی. رمضان اور بعد رمضان کا ایک ڈیڑه مہینہ زکاة و فطرہ و متمول طبقہ کی طرف سے دئے جانے والے رمضان راشن گفٹس پیک کی صورت آئے تحفہ جات اور جمع رقوم میں ایسے تیسے نکل گیا.اب کئی ہفتہ سے گوشت کهانا تو درکنار گوشت کی شکل تک اس نے نہ دیکهی تهی.
جب سے یہ کنول والی سرکارآئی ہے، بڑے کا گوشت نہ ملنے کے سبب بکرے اور مرغی کا گوشت حاصل کرنا، اس جیسی غریبوں کے لئے ، جوئے شیر لانے سے کم تھوڑی نا ہے؟ گذشتہ سال عرفات والے دن، صدقہ جانوروں کے گوشت کی کثرت، انہوں نے لائی تهی، جو عید کے دن تازہ گهر کی بنی بریانی کے مزہ لوٹے گئے تهے. لیکن اس سال کہیں سے بهی گوشت نہیں آیا تها. عید الفطر کو ملے بچوں کے نئے کپڑے سنبهال کر رکهنے کی وجہ، آج بچوں کو وہی کپڑے پہنا کر کام نکالا جا سکتا تها. لیکن عید کے دن کہیں نہ کہیں سے آئے گوشت سے بریانی پکا کر بچوں کو کهلانے کی فکر، جمع کیا ہوا
پیاز برشتہ بناکر تیار رکها ہوا تها. اب دوپہر ڈهل رہی تهی کہیں سے گوشت نہیں آیا تها. لگتا تها مغرب کی آذان سے پہلے کہیں سے گوشت نہیں آئیگا. اور آج عید قربان کے دن بهی، اپنے جذبات کی قربانی دے، دال چاول ہی بچوں کو کهلانا پڑیگا.
یقیناً آج گوشت آئیگا لیکن دن کے اجالوں پر شب کی تاریکی کے پهیلنے کے بعد ، اسکوٹر پر، رکشہ پر ، کوئی آکر متعفن گوشت دے جائیگا. مجبوری ہے، کیا کریں ذرا متعفن ہی صحیح، نمک ڈال کر دھوکر پکالیا جائیگا ,کل تو کها سکیں گے. ہم کوئی، ان مال دارؤں کے سگے رشتہ دار تھوڑی نا ہیں؟ کہ جلدی جلدی میں ہمیں قربانی کا گوشت دیجاتے؟ کہ ہم عید پر اس گوشت کی بریانی کے مزہ لے سکیں؟
ان کے یہان بچے کچے متعفن گوشت کو بیکارپهینکنے کے بجائے، ہم جیسے غرباء کے دروازے تک پہنچانے کی فکر ہی، ان امیروں کے لئے کیا کم ہے؟ کہ ہم کسی سے شکایت کریں؟ یہ تو ہماری قسمت، ہم کو تو ایسے ہی متعفن گوشت، شادی گهر میں گهر والوں کی بے توجہی سے ذرا مزہ بگڑے گوشت کی دیگیں، شام ڈهلے بهی ہم جیسے غریبوں کے دروازوں تک پہنچادی جاتی ہیں. شاید ان امیروں کو معلوم ہے،
ہم غربا اس نعمت غیر مترقبہ کا بهی احسن طریق استعمال کرنا جانتے ہیں. اسی پر اللہ کا شکر و احسان بجا لاتے ہیں. ہم کو تو، ایسا ویسا کهانے کو تو مل جاتا ہے ورنہ دنیا میں ایسے لاکهوں انسان ہیں جو ایک ایک لقمہ کے لئے ترس جاتے ہیں الحمد للہ علی کل حال،اللہ نے جس حال میں رکها ہے اس کے لئے اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے، یہی تو وہ نسخہ کیمیا ہے جو ہمیں، غربت و تنگدستی کے باوجود، تمام افکار سے آزاد، ہمیشہ شادمان و مسرور رکهتا ہے.
عید سعید عید قربان الف مبروک