ہائے وے حادثہ اموات کے اسباب پر غور
نقاش نائطی
۔ +966562677707
جس طرح سے، ابتدائی ایمرجینسی تدابیرعلم و آگہی فقدان باعث، یورپی ملکوں کے مقابلے،ہم ایشیائی ملکوں میں ہارٹ اٹیک اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح ترقی یافتہ ممالک سے تقابل کی ہوڑ میں، فی زمانہ ھند و پاک میں تعمیر ہونے والے، تیز تر رفتار گاڑیاں دوڑنے لائق بنائے گئے، جدت پسند 4لائن ہائی ویز پر، گاڑیاں دوڑانے والے ہم لوگوں میں، بعض سائینسی اصول علم و آگہی فقدان کے باعث ان تیز رفتار ہائی ویز پر اکثر و بیشتر حادثات ہوتے روزانہ کی بنیاد سینکڑوں کی تعداد میں جوان جانوں کا ضیاع ہورہا ہے
۔آخر یہ حادثات کیوں کر ہورہے ہیں ۔ اور بیرونی مقامی جانوروں کی مداخلت سےآمان ہی کے تعمیر کئے جانے والے یہ 4 لائن ہائی ویز، نوجوانوں کے لئے، جائے مقتل کیوں بن رہے ہیں؟ اس پر تدبر و تفکر کی ضرورت ہے۔ اس سمت نثار یوسفی کا مضمون نظروں سے گزرا ۔ واقعی اس شخص نے ان نئے تعمیر شد 4لائن ہائی ویز پر، روز بروز بڑھتے حادثات پر اچھی تحقیق و آگاہی نکات تحریر کئے ہیں اسی لئے ہم اپنے اضافی نوٹ کے ساتھ، عام افادیت کے لئے ترسیل کررہے ہیں۔ امید ہے نوجوان نسل اسے پڑھتے ہوئے 4لائین ہائی ویزہ پر تیز رفتار گاڑی دوڑانے سے پہلے،احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں گے۔ احقر کے ذہن کے کچھ نکات بھی سامنے رکھتے ہیں۔
نمبر ایک عالمی معیار کے تیز رفتار دوڑنے لائق ہائی پر گاڑی دوڑاتے وقت،اپنی گاڑی کے انجن اور ٹائروں کو بھی کم و بیش عالمی معیار مطابق رکھیں۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں ہم ھندو و پاک بنگلہ دیش میں، دوڑ دوڑ کر گھسے فلیٹ ہوئے ٹایروں کو بھی کم قیمت پر ری کنڈیشن کرتے ہوئے، چلانے کارواج عام ہے
۔ ثانیا” کئی مرتبہ پنکچر ہوئے ٹائر بھی عام طور پر چلائے جاتے ہیں ثالثا” کم علمی باعث ٹائر میں زیادہ سے زیادہ ہوا بھرنےکوہم اچھا سمجھتے ہیں۔ لیکن سائینسی اصول، زیادہ تیز رفتار دوڑ رگڑ سے گرمی سے ٹائر میں پہلے سے زائد مقدار موجود ہوا، گرم ہوتے ہوئے، پھیلاؤ کے باعث ٹائر پھٹنے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں ۔ اور پہلے سے کئی پنکچر لگے ٹائر اس زیادہ پریشر کا دباؤ برداشت کرنے کے لائق نہیں رہتے ہیں۔ اس لئے عموما پھٹ جاتے ہیں۔ خصوصا نوجوانوں میں کرایہ پر لی ہوئی گاڑیوں 6 کو، اپنے قلبی سکون کے لئے زیادہ تیز رفتار دوڑانے کا جنون بھی سوار رہتا ہے اور ہوسکتا ہے
کرایہ پر لی ہوئی گاڑیوں کے ٹائر معیاری نہ ہونے کے سبب، بھی وہ حادثہ کا شکار ہوتے ہوں۔ ایسے کم معیاری ٹائر مقامی سڑکوں پر کام چلاؤ چلانے کے لائق تو رہتے ہیں لیکن عالمی معیار کے ہائی ویز پر، تیز رفتار دوڑانے کے لائق نہیں رہتے ۔ اس لئے تیز رفتار ہائی ویز پر،کافی لمبی مسافت، لمبے وقفہ تک انتہائی تیز رفتار کار چلانے سے حادثات ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ہم نوجوانوں سے درخواست و التماس کرتے ہیں کہ اپنے دلی تسکین کے لئے، ایسے عالمی معیار ہائی ویز پر لمبے وقفہ تک گاڑیاں تیز رفتار دوڑانے سے پہلے، اپنے گاڑی کے انجن و ٹائر ہوا کو بھی عالمی معیار مطابق رکھیں جس سے حادثات میں اپنی جان کھونے کے کم از کم چانسز رہیں گے۔ آخر میں !ایک اور نکتہ، پیدائش سے لیکر جوانی تک ہمیں پال پوس تعلیم و تربیت دینے والے والدین کے حقوق ہم پر واجب الادا،قرض کی طرح رہتے ہیں
اور بوڑھے والدین کے روشن مستقبل کے ہم امید ہوتے ہیں۔ موت برحق ہے اس ایمان و یقین کے ساتھ جان جوکھم میں ڈال تیز تر رفتار کار چلاتے حادثات کے شکار ہونے کے ہمارے عمل کو بعض علماء حضرات، خود کشی کے مترادف حرام موت بھی قرار دیتے ہیں۔ پوری احتیاطی تدابیر باوجود ، اپنے اور اپنے زیر کفالت آل اولاد و والدین کے لئے رزق حلال کی جستجو دوران آئی موت کو یقیناً شہادت والی موت کہا گیا ہے
۔ لیکن اپنی ذہنی و جسمانی تعیش پسندی کے لئے، احتیاطی تدابیر سے ماورا جاتے ہوئے، ہوئی حادثاتی موت کو شہادت والی موت کوئی بھی عالم قرار نہیں دے سکتا ہے۔ موت برحق ہے ایمان کامل باوجود، کوئی بھی عقل و فہم والا انسان حضرت عمر رض کے عمل مصداق زہر کا پیالہ منھ کو نہیں لگاتا ہے، پھر کیسے احتیاطی تدابیر سے ماورا، کرائے پر لی ہوئی انجان کار کو،موت برحق مانتے ہوئے، یوں بے تحاشہ دوڑاتے ہوئے، کیسے موت کو گلے لگانے کا کھیل کھیلتے ہوئے،ہم اپنے بوڑھے والدین کو صدا کے لئے داغ مفارقت دے سکتے ہیں؟ اللہ ہی ہمیں اپنے جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے، دین اسلام کے لئے، اسے قربان کرنے والوں میں سے بنائے۔ آمین فثم آمین واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ
کل اورنگ آباد کے سات نوجوانوں کی سڑک حادثہ میں موت ہوگئی۔ وجہ گاڑی کا ٹائر پھٹنا تھا۔ اہم MSG نئے بننے والے ایکسپریس وے پر ان دنوں گاڑیوں کے ٹائر پھٹنے کے واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں۔ جس میں روزانہ کئی لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ ایک دن میرے ذہن میں سوال آیا کہ ملک کی جدید ترین سڑکوں پر سب سے زیادہ حادثات کیوں ہو رہے ہیں؟ اور حادثے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ بھی صرف ٹائر پھٹنے سے۔ ہائی وے بنانے والوں نے سڑک پر ایسی کون سی اسپائکس ڈال دی ہیں کہ سب کے ٹائر پھٹ گئے۔ دماغ طوفانی ہو گیا ہے تو میں نے سوچا کہ آج اس چیز کا پتہ لگا لینا چاہیے۔
اس لیے ٹیم کو تلاش کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ اب سنو ہم نے تجربے کے لیے ایک دوست کو بلایا اور ہم Scorpio SUV میں سوار ہو گئے (نوٹ کریں کہ اصل مسئلہ فلیٹ ٹائر کا ہے) پہلے ہم نے کولڈ ٹائر کا پریشر چیک کیا اور اسے بین الاقوامی معیارات کے مطابق ایڈجسٹ کیا جو 25 psi ہے۔ (تمام ترقی یافتہ ممالک کی گاڑیوں میں ہوا کا ایک ہی دباؤ رکھا جاتا ہے۔ جب ہمارے ملک میں لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوتا یا وہ ایندھن بچانے کے لیے ٹائروں میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھر لیتے ہیں۔ جو عموماً 35 سے 45 پی ایس آئی ہوتا ہے۔ اچھی آئیے اب آگے بڑھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم فور لین پر چڑھ گئے
اور کار دوڑا دی۔ گاڑی کی رفتار 120 – 140 کلومیٹر فی گھنٹہ رکھی گئی تھی۔ دو گھنٹے تک اتنی تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کے بعد ہم ادے پور کے قریب پہنچ گئے۔ جب ہم نے رک کر دوبارہ ٹائر کا پریشر چیک کیا تو یہ چونکا دینے والا تھا۔ اب ٹائر کا پریشر 52 psi تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹائر کا پریشر اتنا کیسے بڑھ گیا؟ چنانچہ جب اس کے لیے ٹائر پر تھرمامیٹر لگایا گیا تو ٹائر کا درجہ حرارت 92.5 ڈگری سیلسیس تھا۔ یہ سارا معمہ اب کھل گیا ہے کہ سڑک پر ٹائروں کی رگڑ اور بریک رگڑنے سے پیدا ہونے والی گرمی کی وجہ سے ٹائروں کے اندر کی ہوا پھیل رہی ہے۔ B2B ٹائر کے اندر ہوا کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔
چونکہ ہمارے ٹائروں میں ہوا پہلے سے ہی بین الاقوامی معیار کے مطابق تھی، اس لیے وہ پھٹنے سے بچ گئے۔ لیکن ٹائر جن میں ہوا کا دباؤ پہلے سے زیادہ ہے (35-45 PSI) یا ایک ٹائر جس میں کٹ ہے اس کے پھٹنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے ٹائر پریشر کو ٹھیک کریں اور فور لین کی طرف جانے سے پہلے محفوظ سواری کا لطف اٹھائیں۔ میں ایکسپریس وے اتھارٹی سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ ڈرائیوروں کو آگاہ کریں۔ تاکہ شاہراہ کا سفر آخری سفر نہ بن جائے۔ آپ تمام فیس بک اور واٹس ایپ دوستوں سے گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔ ایسا کرنے سے اگر آپ ایک جان بھی بچائیں گے تو آپ کی انسانی پیدائش مبارک ہو گی۔ ضروری ہے کہ ایک اہم پیغام سب تک پہنچ جائے۔