آنے والے منظر نامے کی جھلک !
اتحادی حکومت کے جانے کا بگل بجتے ہی سیاست کے موسم میں تبدیلی آنے لگی ہے ،یہ بدلتا سیاسی موسم نئی سیاسی فصلوں کا بھی ہے ،نئی جماعتیں، نئے گروپس بنتے نظر آنے لگے ہیں ،یہ سارا کام قومی مفاد میں ہورہا ہے، اس کے علاوہ کیا کچھ ہورہا ہے، نگراں وزیر اعظم کے ساتھ ان کی کابینہ اور صوبائی نگراں کے نام اور ان کا پروگرام سامنے آئے گا تو اندازہ ہو جائے گا کہ سرِ آئینہ اور پس آئینہ کیا کچھ طے ہو چکا ہے
،اس وقت کچھ کا خیال ہے کہ ماہر معاشیات کی ٹیم ہو گی،جبکہ کچھ کہہ رہے ہیں کہ سینئر سیاستدان یا بیوروکریٹ وزیر اعظم ہو گا ،بہرحال نگران سیٹ اپ کیلئے جس کا بھی انتخاب ہو گا ،وہ اہل سیاست سے زیادہ ریاست کا ہی پسندیدہ ہو گا۔پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے پر رضا مندی تھی نہ ہی جانے میں اسکی رضا شامل ہے ، انہیں لانے والوں نے ہی جانے کا بھی اشارہ دیا ہے تو جارہے ہیں ،ورنہ ان کا ابھی جانے کا کائی ارادہ نہیں تھا ، اتحادی حکومت جارہی ہے ،لیکن الیکشن کب ہوں گے ،یہ کوئی نہیں جانتا ہے
، ایک بار پھر نوے دن کی بات کی جارہی ہے ، وزیر اعظم الیکشن بارے نو مبر میں بتا رہے ہیں ،مگراس کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن ہی کرے گا،اب اللہ خیرکرے کہ یہ اعلان ویسا ہی نا کیا جائے، جیسا کہ پنجاب اور کے پی کے بارے میں کیا گیا تھا، اس حوالے سے اتحادیوں میں بھی پریشانی پائی جاتی ہے ، اس لیے کوشش کی جارہی ہے کہ نگراں سیٹ اپنی مرضی اور اپنے اعتماد کا لایا جائے ، لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔اتحادی حکومت کے جانے
اور نگران سیٹ اپ آنے کی یقین دھانی کے باوجود الیکشن بارے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں ، اتحادی قیادت بھی دبے لفظوں میں اظہار کررہے ہیں کہ الیکشن اگلے سال تک بھی جاسکتے ہیں ،اس کیلئے ایک پٹیشن ہی تو فائل کرنا ہو گی یا کسی پرانی درخواست کو ہی سماعت کیلئے مقرر کر وادیا جا سکتا ہے ، نئی مردم شماری اور پرانی مردم شمری پر پہلے ہی بحث چل رہی ہے ،اس کے علاوہ ابھی دیکھنا ہے
کہ پی ٹی آئی قیادت اور ان کی ٹیم کا کیا بنے گا ؟ حکمران اتحاد اپنی تمام تر کوششوں اور حربوں کے باوجود ابھی تک پی ٹی آئی قیادت کو جیل میں ڈال سکے نہ سزا دلوا سکے نہ ہی نااہل کروا سکے ہیں، کیا نگران حکومت ایسا کچھ کر پائیگی؟ اس کا دارو مدار نگراں حکومت پر نہیں، بلکہ ان سب کی نگرانی کرنیوالوں پر ہی ہے۔
پا کستان میں اپنے طرز کی جمہوریت اور اپنے الگ طرز کی ہی سیاست ہے ،اس طرز سیاست کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس جمہوریت میں طاقت کے اصل مراکز کونسے ہیں اور ہم نے ان مراکز کے ساتھ کس حدتک رابطے میں رہنا اور کس حدتک دور جانا ہے ،پی ٹی آئی قیادت نے ایک کے بعد ایک غلطی کرتے ہوئے خود اتنا دور کر لیا ہے کہ اس کا خمیازہ اب ساری جماعت بھگت رہی ہے
،پی ٹی آئی قیادت اپنی کوتاہیوئوں کا ازالہ کر نا چاہتے ہیں ، وہ بار بارطاقتور حلقوں کو مذاکرات کی دعوت بھی دیے رہے ہیں ،لیکن طاقتور حلقوں نے پی ٹی آئی قیادت سے ملنے سے گریزاں ہیں ، اس کا فائدہ اتحادی اُٹھاررہے ہیں اور اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہے ہیں ،اس انتقامی سیاست کے جمہور اورجمہوریت پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے ، اس کا اتحادیوں کو احساس ہے نہ ہی طاقتور حلقے خیال کررہے ہیں ،ایک ہی ضد ہے کہ انتخابات جب بھی ہوئے یک طرفہ ہی کرائے جائیں گے۔
اس وقت ملک انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا ہے ، اس صورتحال میں ایک مضبوط حکومت وقت کی اہم ضرورت
ہے ، کیا یکطرفہ انتخابات سے یہ مقصد حاصل ہو پائے گا ؟عوام کو جب پتا چلے گا کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم اور ملی بھگت کے تحت ہورہا ہے توسارے جذبات مرجاتے ہیں ، انتخابی عمل کا جوش وخروش جاتا رہتا ہے ، اس عدم دلچسپی کے ماحول میں انتخابات کیسے ہوں گے ، ایک ڈرامہ ہو گا ،اس انتخابی ڈرامے کو عوام قبول کریں گے نہ ہی دنیا ئے عالم مانے گی ، عوام نے جنہیں ایک بار نہیں کئی بار بھگتا ہے
،انہیںایک بار پھربھگتنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،فیصلہ سازوں کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے عوام کی رائے کا احترام کر نا ہو گا ، بصورت دیگرعوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو جائے گا ، اس کے بعد عوام کے ہاتھ اور حکمرانوں کے گریباں ہوں گے اور انہیں کوئی بچا نہیں پائے گا،یہ تو آنے والے منظر نامے کی ایک جھلک ہے ،اس سے بھی زیادہ حا لات خراب ہو سکتے ہیں