معجزہ قرآن مجید کی زندہ مثال
ترتیب و ترسیل ابن بھٹکلی
ذہنی طور معذور فالج زد
حافظہ عُدیسہ بنت جناب آصف صوبیدار کو اپنی تمام تر جسمانی ذہنی کمزوریوں کے باوجود حافظ قرآن بننے پر نقاش نائطی اور ابن بھٹکلی کی طرف بے بہا مبارک ہو۔۔۔ 💐💐💐
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
واقف کہاں زمانہ ہماری اُڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
آج وہ گھڑی ہے کہ جس گھڑی کی آس لئے خود وہ، اس کے گھر والے اور اسکول والے مہینوں سے انتظار کررہے تھے۔ یہ لڑکی عام لڑکیوں کی طرح حافظ ہوجاتی تو بھی خوشی ہوتی، اس کے گھر والوں کے لیے مسرت کا سامان ہوتا اور اسکول والے بھی ضرور خوش ہوتے۔ مگر آج اس کی تکمیل حفظ کے موقع پر جشن کا سماں ہے، حیرانی کا عالم ہے، ہر کوئی سینہ تانے فخر کررہا ہے۔ اور اس کی طرف اشارہ کرکے کہہ رہا ہے۔ یہ میری بیٹی ہے، یہ میری نواسی ہے، یہ میری شاگرد ہے، یہ میری بھانجی، بھتیجی ہے۔ آج عدیسہ نے ایسا کمال کردیا تھا کہ سب اس کے قریب ہونا چاہ رہے ہیں۔ اور رشتہ داری پہ فخر کررہے ہیں۔
ایک لڑکی جس کو کمزوریاں لاحق ہیں۔ جسم کے ایک حصہ میں فالج کا اثر ہے، ذہن پوری طرح تیار نہیں ہے۔ جس نے بڑی مشکل سے ساتویں تک پڑھائی مکمل کی، بیچاری پڑھ نہیں سکتی، حروف ملا کر الفاظ بنا نہیں سکتی، کتاب کو چوم کر گلے سے لگا تو سکتی ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتی۔
اچانک ساتویں کے بعد ایک بہت بڑا عزم لئے دوبارہ نونہال اسکول کا رخ کرتی ہے۔ ہر ایک متعجب تو ہر کوئی اپنی آنکھوں میں سوال لئے کہ :” عُدیسہ پھر اسکول کیوں آگئی؟ گھر میں آرام کر لیتی؟”
لیکن اس نیک بخت نے اپنے دل میں حوصلوں کا پہاڑ اٹھائے جواب دیا کہ ” میں قرآن مجید حفظ کروں گی” ۔
یہ سن کر سننے والوں نے مذاق بھی اڑایا ہوگا، پھبتیاں بھی کَسی ہوں گی، ٹھٹھا اور تمسخر بھی کیا ہوگا!
مگر آج اس کے عزائم میں طوفانوں کی جولانی تھی، اس کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی، اس کے مزاج میں عجیب سا سکون تھا۔
پھر اس نے جیسے ہی درجہ میں قدم رکھا تو اس کی امیدوں اور حسرتوں کا مینار یک لخت زمیں بوس ہوگیا۔اس کے حوصلے اور عزائم کی بنیادیں پاش پاش ہو کر رہ گئیں۔ کیونکہ اس نے اب تک قرآن مجید ناظرہ بھی مکمل نہیں کیا تھا اور دیکھ کر بھی صحیح نہیں پڑھ پاتی تھی۔
عُدیسہ روتی اور سسکتی اپنے گھر چلی گئی۔ اور اپنی قرآن حفظ کرنے کی تمنا کو دل کے نہاں خانے میں دفن کردیا۔
اب عُدیسہ تھی اور اس کے خیالات!
اب وہ تھی اور گھر کی چہار دیواری!
اب وہ تھی اور ایک قسم کی بے چینی!
اب وہ تھی اور ماضی کی یادیں!
ایک معصوم لڑکی، بھولی بھالی سی،
نٹ کھٹ نہیں، شرارتی نہیں، جھگڑا کرنا اس کی فطرت میں نہیں، اتنی رحم دل کہ کسی کو بھی روتا دیکھ کر رو پڑے، اتنی دل دار کہ کسی کو بھی ہنستا دیکھ کر مسکرا اٹھے۔ دنیا کی خواہشات کا اس کے خیالوں پر بھی گزر نہیں، مادیت کی آلائشوں کا اس کی تمناؤں سے بھی واسطہ نہیں، نازوں کی پلی، ماں باپ کی لاڈلی، اپنے خیالات میں مست۔۔۔۔
کچھ دن بھی گزرنے نہ پائے تھے، اس نے یونیفارم پہنا اور اسکول آگئی!!!
اسکول پہنچی اور دبک کر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ معلمہ نے اسے دلاسہ دیا اور کہا کہ کوئی بات نہیں، آج سے میں تمھیں ایک ایک لفظ درست کرکے پڑھاؤں گی۔
اب عُدیسہ تھی اور اس کی معلمہ حافظہ زینب پروین صاحبہ! جس نے اس کی تمناؤں اور خواہشات کا خیال کیا، جس نے اس کے عزائم کی دیوار کو سنبھالے رکھا۔
محترمہ معلمہ نے اس کے حفظ کی خاطر جو قربانیاں دی ہیں اس کیلئے اگر ان کی تعریفوں کے پُل باندھ دئیے جائیں، ان کے مقام و مرتبے کے گیت گائے جائیں، تب بھی کم ہے۔
عُدیسہ کے والدین بھی قابل صد مبارک باد ہیں کہ ان کی توجہ اور محنت کے بغیر تو یہ سفر ممکن ہی نہیں تھا۔
نونہال اسکول بھٹکل بھی بجا طور پر فخر کرسکتا ہے کہ اسی کے زیر سایہ عُدیسہ نے اپنی تعلیم اور حفظ کے تمام مراحل پورے کئے۔
جس لڑکی میں معذوریاں اور کمزوریاں موجود ہوں اور وہ اپنے ارادے اور عزم سے سمجھوتہ کئے بغیر کچھ مدت میں اپنا حفظ مکمل کرے، اس سے بڑھ کر اس لڑکی کی شان میں کیا کہا جائے۔ 👍🏻👍🏻👍🏻
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کو اللہ نے بہت آسان بنایا ہے. اس کا پڑھنا، یاد کرنا اور سمجھنا سب آسان ہے۔ جو محنت کرے گا اللہ اس کے لئے آسان کردے گا۔ یہ قرآن مجید کا معجزہ ہی ہے کہ جسے چار سال کا بچہ بھی حفظ کرلیتا ہے اور سو سال کا بوڑھا بھی، ذہین اور ہوشیار بھی اسے یاد کرسکتا ہے اور کمزور اور کُند ذہن بھی۔ حضور پر نورﷺ نے بھی قرآن مجید حفظ کرنے کے بے شمار فضائل بیان کئے ہیں۔
کاش ہم سمجھ جائیں!!!
یہ لڑکی ہمارے لئے ہمت اور بہادری اور محنت و جانفشانی کی ایک اعلیٰ اہلکار مثال ہے۔ اور ہم باوجود مکمل صحت کے کتنے آرام طلب اور عیش کوش ہیں!