انتخابات میں تاخیری حربے!
اتحادی حکومت نے قومی اسمبلی قبل از وقت تحلیل کر نے کا فیصلہ تو کر لیا ہے ،لیکن نگران سیٹ اپ کے قیام اور انتخابات بارے ابھی تک اتفاق نہیں ہو پارہا ہے ،حکومتی اتحاد جب بھی قبل قبول نگران وزیر اعظم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انتخابات میں نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں پر اختلافات سامنے آنے لگ جاتے ہیں ،اس اختلاف رائے سے تو ایسا لگنے لگا ہے
کہ جیسے اتحادی مردم شماری کی آڑ میںالیکشن سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں ،اگر الیکشن چھ ماہ کیلئے ملتوی ہو بھی جائیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا ،کیاانہیں کوئی گارنٹی دیے دی گئی ہے ؟اگر ایسا کوئی راز ہے توآج نہیں تو کل عیاں ہو ہی جائے گا۔اس ملک میں کو نسی باتیں زیادہ دیر تک ڈھکی چھپی رہتی ہیں ،راز دار وقت آنے پر سارے راز خود ہی افشاں کر دیتے ہیں ،اس بار بھی پرانی رویت دہرائی جارہی ہے ، ایک دوسرے کے راز افشاں کیے جارہے ہیں ، عوام سب کچھ پہلے ہی جانتے ہیں ،لیکن اب مزید آگہی ہورہی ہے
کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کیسے شاہ کی وفاداریاں نبھائی جارہی ہیں ،یہ سب کچھ خود کو بچانے اور اقتدار دوبارہ حاصل کر نے کیلئے کیا جارہا ہے ،یہ سب کچھ پہلے بھی ہو تارہا ہے ا ور اب بھی ویسے ہی ہورہا ہے، لیکن یہاں گزرتے وقت کے ساتھ سب کچھ ہی بدل جاتا ہے ، ایک پیچ رہتا ہے نہ ہی ایک پیج پر سداکوئی رہتا ہے ،یہاں پر پیج کے ساتھ لوگ بھی بدلتے رہتے ہیں۔یہ بات اہل سیاست اچھی طرح جانتے ہیں
،اس کے باوجود اپنی روش بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، یہ عوام کے بجائے طاقتور حلقوں سے ہی ساری اُمید یں لگائے بیٹھے ہیں اور انہیں کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ اشارہ ملے توآگے قدم بڑھائیں ورنہ پیچھے رہنے میںہی عافیت ہے ، یہ معاملہ اب چند دن کا ہی رہ گیا ہے،ساری سیاسی جماعتیں ہی بین بجا رہی ہیں، آخر پٹاری کا ڈھکنا کھلے گا اور سانپ پھن پھیلا کر باہر آ ہی جائے گا،سانپ یوں بھی زہریلا ہوتا ہے
، لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ اسے حکومت نے قانون سازی کے ذریعے مزید زہریلا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور کہا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے خاتمے کے بعد جو نگراں سیٹ اپ آئے گا، وہ وسیع اختیارات کا حامل ہوگا اور عارضی کے بجائے مستقل بنیادوں پر اپنا کام کرے گا۔
نگران سیٹ اپ کا کام بروقت انتخابات کروانا ہے ،لیکن جس طرح نگران سیٹ اپ لایا جارہا ہے ، اس میںدور دور تک انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ،ایک کے بعد ایک نیا شوشا چھوڑا جارہا ہے ، لیکن کوئی انتخابات کے وقت کا تعین کر نے کیلئے تیار نہیں ہے ، آئین میں صاف لکھا ہے کہ انتخابات تین ماہ میں ہو نے چاہئے ، لیکن یہاں آئین کو ہوا میں اُڑایا جارہا ہے ،اس لیے انتخابات تین ماہ کے اندر ہوسکتے ہیں
اور اسے تین سال بھی لگ سکتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ انتخابات اسی وقت ہوں گے کہ جب ان سے مثبت نتائج کا یقین ہوجائے گا اور اپنے سارے مخالفین کو دبا دیا جائے گا، لیکن یہ سب کچھ بزور طاقت ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، یہ جتنا دبارہے ہیں،وہ اتنا ہی اُبھرر ہے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران ٹولا کوئی ادنیٰ سی بھی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہے اور عوام میں بے چینی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
عوام میں بڑھتی بے چینی سے حکمران اتحاد کو کوئی غرض ہے نہ اس بات کی کوئی فکر ہے کہ آج نہیں تو کل عوام کی عدالت میں جانا ہے ،یہ اپنی کار کر دگی کے طور پر عوام کے سامنے کیا پیش کریں گے ؟شاید اُن کے ذہنوں میں ہے کہ پہلے حکومت سازی میں عوام کے ووٹوں کا کو نسا کر دار رہا ہے ،جو کہ آئند ہ بھی ہو گا ،یہ بات درست ہے کہ یہاں حکومتیں بنانے اور گرانے کے فیصلے کہیں اور ہی ہوتے ہیں
،اس لیے عوام کیلئے فکر مند ہو نے کے بجائے فیصلہ سازوں کی ہی خوشامد کی جاتی ہے اور اُن کی ہی رضا کا خیال کیا جاتا ہے ،عوام بھی اب ان باتوں کو سمجھنے لگے ہیں ،اس لیے ہی عوام کا اعتماد اس قدر متزلزل ہو چکا ہے کہ وہ اب آزمائے حکمرانوں کی کسی بات پر یقین کرتے ہیں نہ ہی ان سے کوئی اُمید یں وابستہ کر رہے ہیں۔
عوام آزمائے سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ، عوام چاہتے ہیں کہ بند کمروں میں فیصلہ سازی کے بجائے فیصلہ سازی کا اختیار انہیں دیا جائے ،تاکہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر کر سکیں،اس کیلئے انتخابات اپنے وقت پر منصفانہ ہو نے چاہئے، لیکن تاخیری ھربے آزمائے جارہے ہیں، انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے تمام اقدامات سے موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کی جہاں سیاسی ساکھ مزیدید خراب ہوگی،
وہیں نگران حکومت کے خلاف بھی آوازیں بلند ہوں گی ،اس لیے نومبر میں انتخابات ہو جانے چاہئے اور تاخیری حربوں سے گریز کر نا چاہئے ،یہ ہی سیاسی طور پر آگے بڑھنے کا واضح راستہ ہے،اگر ایک بار پھر انتخابات سے گریز یا التوا کی پا لیسی اپنائی گئی تو اس کے برے نتائج سب کو ہی بھگتنا پڑیں گے