عوام نے کچھ پایا نہیں ،کھویا ہے !
عوام اہل سیاست کو اپنا نجات دہندہ جان کر ووٹ اور سپورٹ فراہم کرتے ہیں اور ان سے اچھی توقعات وابستہ کرتے ہیں کہ یہ اقتدار میں آکر ان کی آواز ایون پارلیمان میں اٹھائیں گے، اس کے نتیجے میں عوام کے لئے قانون سازی ہوگی، مگر اس کے برعکس ساری قانون سازی اپنے لیے ہی ہوتی ہیں ،ساری مرعات بھی اپنے لیے ہی حاصل کی جاتی ہیں ،یہ اُس عوام کو با لکل بھول ہی جاتے ہیں، جو کہ اس مقام تک پہنچاتے ہیں، اتحادی حکومت نے بھی اپنے دور اقتدار میں اپنے حصول مفاد کے علاوہ عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ہے
،یہ جاتے جاتے عوام کو ہی ڈیفالٹ کرگئے ہیں ،اس کے باوجود دعوئیدار ہیں کہ اگر انہیں دوبارہ اقتدار دیا جائے تو عوام کی زندگی بدل دیں گے ،جبکہ یہ بار بار آزمائے عوام کی زندگی میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے ہیں۔
حکمران اتحاد عوام کی مشکلات کے تدارک کے دعوئوں کے ساتھ اقدار میں آئے تھے لیکن اپنے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں ماسوائے خود کو بچانے اور عوام پر سار بوجھ ڈالنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے ، انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی آڑ میں عوام کو ہی ڈیفالٹ کر دیا ہے ، اس باوجود وزیر اعظم اپنے الوداعی خطاب میں شر مندگی کا اظہار کر نے کے بجائے ایوان پا رلیمان کوچٹکلے سنارہے تھے
، اس موقع پر ان کے اپنے ہی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس اسمبلی میں جو کچھ میں ہوتا رہا ہے ،وہ ہم سب کیلئے باعث شرم ہے‘ ہم نے سبق نہیں سیکھا، جو کہ سیکھنا چاہیے تھا‘موجود اسمبلی تاریخ کی بدترین اسمبلی تھی، اس کا حصہ بننے پر عوام سے معافی مانگتا ہوں‘ عوام کو بدترین اسمبلی کی نجات سے خوشی ملے گی اور یہ دن خوشی کا دن ہے کہ جب عوام کو ایک بدترین ایوان سے نجات مل رہی ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا بالکل بجا ہے کہ اس ایوان پا رلیمان نے عوام کے بجائے خود کو مقدم رکھا ہے اور اپنے مفاد میں ایسی قانون سازیاں کی ہیں کہ جن کی ماضی میں کو ئی مثال ہی نہیں ملتی ہے ، انہوں نے ہر ایسی قانون سازی کی ہے کہ جس سے عوام کو دبایا جا سکے اور حکمران اشرافیہ کو سہولت دی جا سکے ، اس کے نتیجے میں ہی حکمران اشرافیہ سب کچھ کر کے بھی آزاد گھوم ر ہے ہیں
اور مخالفین سیاسی انتقام کا نشانہ بنتے ہوئے پابند سلاسل ہو رہے ہیں ، اس پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی بول پڑے ہیں ،انہوں نے اپنی اختتامی تقریر میں نہ صرف انتقامی سیاست کی مذمت کی ہے ،بلکہ اسمبلی کی کارکردگی کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیے دیا ہے،یہ کیسی منافقت ہے کہ ان سب نے مل کر اقتدار کے سارے مزے لوٹے ،ہر جائز و ناجائزز میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور اب جاتے جاتے سب کچھ ہی ایوان پارلیمان پر ڈال رہے ہیں ،جبکہ اس ایوا ن پارلیمان کی نمائندگی بھی خود ہی کرتے رہے ہیں ۔
ہر دور اقتدار میں اہل سیاست کا ایسا ہی وطیرہ رہا ہے کہ اقتدار میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر کھاتے ہیں اور اقتدار چھوڑتے وقت ایک دوسرے کو مود الزام ٹھرانے لگتے ہیں ،اس بار بھی پرانی رویت دہرائی جارہی ہے
، لیکن عوام ان سب سے انتہائی مایوس ہوئے ہیں،کیو نکہ حکمران اتحاد نے اپنے وعدے پورے کر نے کے بجائے عوام سے ایک وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے ، اتحادی قیادت کی نادانیاں ہی عوام کو باور کرارہی ہیںکہ یہ آزمائے عوام کی توقعات پر کبھی پورے اُتر سکتے ہیں نہ ہی ملک کو درپیش بحرانوں سے با ہر نکال سکتے ہیں ، اس لیے ہی ان کا مائنس عوام میں مزید پلس ہوتا جارہا ہے ، عوام کو اب ان آزمائی قیادت پر ذرا بھی اعتماد نہیں رہا ہے ، وہ اس ظالمانہ سلسلے کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
اس وقت ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزررہا ہے ،یہ وقت انتشار کا نہیں ،باہمی اتفاق رائے کا ہے ، اب بھی وقت ہے کہ اہل سیاست اور دیگر سٹیک ہو لڈر اپنی ذاتیات سے باہر نکل کر قومی مفاد میں مل بیٹھیں اور ایک عام آدمی کے مسائل کے تدارک کے ساتھ جلد از جلد عوام کو حق رائے دہی کا موقع بھی فراہم کر یں،
ورنہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ایک طرف بھارت در اندازی سے باز نہیں آرہا تو دوسری جانب افغان سرحد بھی غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے، ہمیں آپس میں لڑنے اوراپنے اندرونی اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے عوام کو فیصلہ سازی کا اختیار دیتے ہوئے اپنی بہادر افواج کی پشت پر کھڑا ہونا ہو نا چاہئے،بصورت دیگر جمہوریت رہے گی نہ ہی کسی کے ہاتھ کچھ آئے گا ، جبکہ عوام پہلے ہی خالی ہاتھ ہے ،اس نے کچھ پایا ہی نہیںصرف کھویا ہی کھویا ہے!