حقیقی جمہوریت کی تلاش !
ملک جمہوریت کے انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہو گیا، ایک منتخب حکومت کے وزیر اعظم سبکدوش ہو گئے اور نامزد نگران وزیر اعظم نے منصفانہ آزادانہ اور شفاف عام انتخابات کرانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے منصب کا حلف اٹھا لیاہے ، نامزد نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ وزیر اعظم کے طور پر کیسے کام کریں گے یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا، تاہم ان کی نامزدگی پاکستانی سیاست میں ایک اہم پیش رفت ہے اور آنے والے عام انتخابات پر ان کے بڑے اثرات مرتب ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں۔
اس ملک میں جب بھی کوئی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں ،نامزد نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑسے بھی اُمید باندھی جارہی ہے کہ بروقت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائیں گے ،نگران وزیر اعظم نے بھی آتے ہی اپنے بیان میں کہا ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا جہاںمیری ذمہ داری ہے ،وہیںدر پیش بحرانوں سے نمبر آزما ہونا بھی فرائض میں شامل ہے،ہم اپنی مختصر کا بینہ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی کا پورا خیال رکھیں گے،یہ دوسربات ہے کہ اس کا بینہ کے وزراء میں زیادہ تر بیوروکریٹس اور ٹیکنو کریٹس ہی شامل ہوں گے،اس سے اُن خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ نگراں سیٹ اپ قیل مدتی نہیں ،طویل مدت کیلئے لایا گیا ہے ۔
یہ نگران سیٹ اپ کتنے عرصے کیلئے لایا گیا ہے ،اس سے قطع نظر نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے سامنے ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج ہے،ایک طرف آنے والے عام انتخابات جب بھی ہوں ، شفاف اور غیر جانبدار کرانے ہیں تو دوسری جانب ملک میں بڑھتی سیاسی پولرائزیشن کا خاتمہ کرنا ہے،اس وقت پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی انتہائی گہری تقسیم کا شکار ہے ،اُوپر سے طاقتور حلقے بھی مائنس ،پلس کے سکرپٹ پر عمل پیراں ہیں ، پی ٹی آئی، پی پی پی اور مسلم لیگ( ن) گزشتہ دو انتخابات میں ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام عائد کر چکے ہیں اور امکان ہے کہ اگر صورتحال بدستورایسی ہی رہی تو آئندہ انتخابات میں بھی دھاندلی کا ہی الزام لگایا جائے گا، سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو ایک غیر جانبدار شخصیت کے طور پر سامنے آنا پڑے گا ۔
ملک ابھی بھی نومئی کے تشدد سے جھلس رہا ہے، یہ ملک جب تک نومئی سانحہ کے اثرات سے نہیں نکلے گا ،اس وقت تک سیاسی ومعاشی استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا ،نو مئی واقعات میں کوئی ایک نہیں سارے ہی ملوث ہیں اور سزا بھی سب کو ہی ملنی چاہئے ،لیکن اس واقعہ کی آڑ میںکسی ایک کو انتقام کا نشانہ نا انصافی ہے ،اس اُ لجھے معاملے کو نگراں وزیر اعظم بڑے اچھے طر یقے سے درمیانی راستہ نکال کر سلجھا سکتے ہیں،یہ بکھرے پیج کو ایک پیج پر لا سکتے ہیں ، اس میں ذاتیات کے بجائے قومی مفاد کو پیش نظر رکھنا ہو گا ، اپنی انا و ضد کی روش ترک کرتے ہوئے رواداری کو فروغ دینا ہو گا ، ہر ایک کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی ضرورت کے ساتھ امن و امان کو یقینی بنانے کی ضرورت میں توازن پیدا کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا ۔
اس نگران حکومت کے پاس بہت چیلنجوں کے باوجود پاکستان میں حقیقی تبدیلی لانے کا بہترین موقع ہے،لیکن اس کیلئے غیر جانبداری کے ساتھ اہل سیاست اور مقتدر حلقوں کے درمیان غلط فہمیاں دور کر نا ہو ں گی، اگر نگران وزیر اعظم اہل سیاست اور مقتدار حلقوں کے در میان اختلافات دور کر نے میں کا میاب ہو گئے تو آئندہ انتخابات شفاف اور غیر جانبدارہونے کو یقینی بنانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے، بصورت دیگر انتخابات بر وقت ہوں گے نہ ہی عام انتخابات میں شفافیت اور غیر جانبداری کی توقع کی جاسکتی ہے ،کیو نکہ اس جانبدارانہ صورتحال میں انتخابات کے نتائج کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا ۔
اس وقت ملک انتہائی مشکل حالات کا شکار ہے ،ہمیں مشکل حالات سے نکالنے کے لیے حقیقی جمہوریت کی طرف جانا ہو گا اور اس میں پہلا قدم بروقت، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا ہوں گے، اگر آئندہ عام انتخابی عمل اور نتائج پر سوال اٹھے تو اس کی افادیت ختم ہو جائے گی ،اس لیے فیئر پلے ہونا چاہیے، ساری سیاسی قیادت کو انتخابی عمل میں حصہ لینے اور عوام کو ووٹ دینے کی آزادی ملنی چاہئے،عوام جسے چاہیں اقتدار سو نپیںاور جسے چاہیں مسترد کر دیں،یہ بند کمروں میں فیصلہ سازی کرنے کے بجائے
عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار دینا چاہئے ، حکومت اور عسکری قیادت جب مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کام کر رہی ہے تو ایسے حالات میں سیاسی قیادت کو بھی عام انتخابات کی طرف جانا چاہیے، تاکہ ملک میں سیاسی استحکام لا کر معاملات کو مزید بہتر کیا جا سکے ،اہل سیاست کو ایک دوسرے کو مود الزام ٹہرانے کے بجائے اپنی بے راہ روی ترک کرنا ہو گی، ورنہ پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات کبھی درست ہو پائیں گے نہ ہی ملک حقیقی جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو سکے گا!