مہنگائی کے مارے نیم پاگل عوام ! 52

نگران کی نگرانیاں !

نگران کی نگرانیاں !

کافی غیر یقینی صورت حال اور قیاس آرائیوں کے بعد نگران کابینہ نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے، تاکہ ملک کو نوے دن کی مقررہ مدت میں عام انتخابات کے انعقاد کی طرف لے جایا جا سکے ،کیا ایسا ہونے کا امکان ہے، یا انتخابات ملتوی کرنے کی تدابیر کرتے رہنے کا ارادہ ہے ،تاہم ملک انتخابات میں تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے نگران کو ساری توجہ اپنی نگرانیاں کرنے والوں کی خشنودی کے بجائے اپنے فرائض کی جانب دینی چاہیے، تاکہ بروقت انتخابات کا انعقادکرکے ملک کو سیاسی انتشار سے نکالا جاسکے، کیونکہ ایک منتخب عوامی حکومت ہی ملک کو بحران سے نکال کر عوام کو ریلیف مہیا کرسکتی ہے۔
آئین کی رو سے نگران حکومت کا اہم ترین کام ہی ملک میں منصفانہ وغیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنا اور انتخابی عمل کی تکمیل تک ملک کے روز مرہ امور چلانا ہے، لیکن موجودہ صورت حال میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عام انتخابات نگران حکومت کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور ان کی اولین ذمے داری بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ایجنڈے کی تکمیل بنی ہوئی ہے،

اس لیے ہی پی ڈی ایم جاتے جاتے نگران حکومت کے اختیارات میں باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اضافہ کر کے گئی ہے، نگران حکومت نے بھی آتے ہی تندہی سے آئی ایم ایف کی ہدایات پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے،اس کی نمایاں مثال پہلے سے ناقابل برداشت قیمتوں پر دستیاب بجلی ،گیس، پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میںبے تحاشہ اضافہ ہے کہ جس نے پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پستے عام آدمی کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔
ملک بھر میں آئے روز بڑھتی مہنگائی کے باعث عوام کی چیخیں دور دور تک سنائی دے رہی ہیں، لیکن نگران حکومت کوعوام آہو بکا کی قطعی کوئی پروا ہی نہیں ہے ، وہ اپنے لائے گئے ایجنڈے پر ہی تندہی سے کام کر نے میں مگن دکھائی دیتے ہیں ،نگران حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کرنا، الیکشن کمیشن کا کام ہے، جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری 2023ء کے گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق پہلے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی ،اس میں کم و بیش چار ماہ سے زائد کا بھی عرصہ لگ سکتا ہے،

اس لیے آئین میں دی گئی نوے دن کی مدت میں عام انتخابات کا انعقاد ناممکن قرار دے دیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نگران حکومتیں اپنی آئینی مدت نوے روز کے لیے نہیں، بلکہ غیر معینہ مدت تک کام کرتی رہیں گی، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پہلے ہی نگران حکومتوں کو اختیارات سنبھالے سات ماہ سے زائد گزر چکے ہیں ،یہ مزید کب تک کسی آئینی تائید و توثیق کے بغیر اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں گی، کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں ہے ،اس بارے نگران حکومتیں لانے اور بنانے والے ہی جانتے ہیں کہ یہ کب انتخابات کراکے جائیں گی ؟
اہل سیاست ایک طرف بر وقت انتخابات کا واویلا مچا رہے ہیں تو دوسری جانب انتخابات ملتوئی کرانے میں معاونت بھی کررہے ہیں ،یہ پی ٹی آئی قیادت مخالف جماعتیں جب تک مائنس عمران اور پھر انتخاب کی حسرت کا شکار رہیں گی، یہ عام انتخابات کی جانب نہیں جائیں گی ، اس لیے ماحول ساز گار بنانے کیلئے ساری آئینی و قانونی حدود پار کی جارہی ہیں ،اس میں انہیں لانے والے بھی برابر کے شریک کار ہیں،

لیکن یہاں سب سے اہم سوال ہے کہ آخر طاقتور حلقے اقتدار کاکتنا حصہ چاہتے ہیں؟ کیا اتنا کافی نہیں ہے، جتناکہ انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش کردیاگیا ہے، اگر یہ قومی سلامتی اور معاشی سلامتی کی فراہمی کے نام پر کافی ہے تو پھر باقی حصے کیلئے اہل سیاست کو کھل کر کھیلنے کا موقع دینا چاہئے، اگر اس حصے پر بھی اپنا ہی کوئی بٹھانا ہے ،جیسا کہ نگران کے نام پر بیٹھا یا گیا ہے تو اُن کی اپنی مرضی ہے،انہیں بھلا کون روک سکتا ہے، اس میں رہی بات جمہوریت کی توجمہوریت کا قتل، نام نہاد جمہوریت پسند اپنے ہی ہاتھوں کب کا کر چکے ہیں۔
اس ملک میں اب بے نام جمہوریت میں ہی آمریت دکھائی دیتی ہے ، جمہور کے فیصلے ایون پارلیمان کے بجائے کہیں اور ہی ہو نے لگے ہیں ، ان بند کمروں کے فیصلوں پر عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جارہاہے ، لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے ، فیصلہ سازوں کو عوام کے بدلتے رویوں اور تیز ہوتی نبض پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے ، عوام ان سب باتوں سے تنگ آچکے ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے ، اس دبی چنگاری کو آگ میں بدلنے سے قبل ہی ضروری ہے کہ عوام کو فیصلہ سازی کا حق دیے دیا جائے ،یہ ہلے بہانے ، زور زبر دستی زیادہ دیر تک عوام کی حق تلفی کی جاسکتی ہے

نہ ہی سیاسی ماحول اپنے لیے ساز گاربنایا جاسکے گا ، انتخابات آج نہیں تو کل کرانے ہی پڑیں گے ،انتخابات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ، اگر انتخابات طویل عرصے کیلئے ملتوی ہوئے تو بہت سارے سوالات اُٹھیں گے ،نگران حکومت کیلئے ان کے جوابات دینا انتہائی مشکل ہو جائے گا ،اس لیے آئینی تقاضے پورے کر نے میں ہی بہتری ہے ،بصورت دیگر سارا ملبہ نگران کے ساتھ نگرانیاں کرنے والوں کے گلے پڑجائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں