مہنگائی کے مارے نیم پاگل عوام ! 84

یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں !

یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں !

اس ملک خداد میں امیری اور پسماندگی ایک ساتھ چل رہی ہے ، بڑے شہروں اور پاسماندہ علاقوکو دیکھیں تو دونوں ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف دکھائی دیتے ہیں ،ایک طرف سہولیات کی بھر مار ہے تو دوسری جانب سفر کی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں ،اس پسماندگی کے عالم میں مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی کوئی نہ کوئی جوگاڑ لگاتے رہتے ہیں

،یہ ان جو گاڑوں کے نتیجہ میں ہی گزشتہ روز کئی گھنٹے تک معصوم جانیں ہوا میں معلق رہی ہیں ،پاک فوج کے جوانوں نے ایک بار پھر کا میاب آپریشن کر کے معصوم جانوں کو بچا لیا ،لیکن اس واقعہ نے علاقیائی نمائندوں سے لے کر انتظامیہ تک کے سارے پول کھول کر رکھ دیئے ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو بٹگرام چیئر لفٹ میں پھنسے بچے سیر و تفریح کیلئے نہیں بیٹھے تھے ، بلکہ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک پہنچنے کیلئے اُن کے پاس یہی ایک ذریعہ ہے کہ جس کا استعمال کر نا ،اُن کی مجبوری ہے ،یہ کیسی مجبوری ہے

کہ ایک جانب امارات کی بلند چوٹیاں ماپی نہ جاسکیں تو دوسری جانب پسماندگی کی اتنی گہرائی کہ آگ کا دریا یاد آجاتا ہے ،یہ بٹگرام اور مانسرہ کے علاقے جتنے قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہیں ،انہیں اتناہی پسماندہ رکھا گیا ہے ، یہاں سے عوامی نمائندے منتخب ہو کر پا رلیمان جاتے ہیں ، ترقیاتی فنڈ بھی لیتے ہیں ،لیکن یہ تر قیاتی فنڈ کہیں لگے نظر ہی نہیں آتے ہیں ۔یہ مانے والی بات نہیں ہے کہ نہیں کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے ہیں

، ہم کر نے پر آئیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں ، لیکن ہماری تر جیحات ہی کچھ اور ہوتی جارہی ہیں ،یہاں عوام کے نام نہاد نمائندئو ں سے لے کر ادارتی عہدیداروں تک سب ایسے کاموں میں لگے ہیں ،جو کہ اُن کے کر نے کے کام نہیں ہیں ،لیکن انہیں کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی کو ئی روک رہا ہے ،کیو نکہ اس حمام میں سب ہی ایک دوسرے کے کانیں ہیں ، یہاںکوئی ایک دوسرے سے کوئی آنکھ ملا سکتا ہے نہ ہی ایک دوسرے پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کر سکتا ہے ،اس لیے ہی آئے روز جڑانوالہ اور بٹگرام جیسے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔
یہ واقعات کب رکیں گے ، یہ قول و فعل میں تذاد کی کہا نیاں کب ختم ہو گی ،اس دھرتی پر کب کسی نئی روشنی کا ظہور ہو گا ،عوام تو مایویسی کی انتہائی گہر کھائی میں گرتے ہی چلے جارہے ہیں ،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے نوجوان اپنا فیصلہ سنارہے ہیں کہ جس کو بھی کوئی موقع ملتا ہے ، باہر جانے کی کوشش کررہا ہے ، مزور سے لے کر پڑھے لکھے تک سب ہی باہر جانے میں نہ صرف سر گرداں ہیں ،بلکہ ایک بار جانے کے بعد واپس نہ آنے کا تہیہ بھی کررہے ہیں ،کیو نکہ وہ جان چکے ہیں کہ ایک مخصوص طبقے کیلئے تو ساری مرعات میسر ہیں ،جبکہ باقی سب کیلئے خباثت و بچارگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
اس ملک میں کوئی ایک نہیں ،آئوئے کا آوا ہی بگڑا ہو ا ہے ،یہاں اہل سیاست اور عوام میں مقابلہ چل رہا ہے کہ کون ڈھٹائی میں آگے ہے ، سیاستدان ٹھیک ہورہے ہیں نہ ہی عوام اپنے رویئے میں کوئی تبدیلی لارہے ہیں ،ایک دوسرے کو مود الزام ٹہرانے کی ایسی ریت چلی ہے کہ کوئی اپنی غلطی ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،یہاں سب کوہی اپنی اپنی پڑی ہے کہ ایک کو باہر نکلنے کی پڑی ہے تو دوسرے کو اپنے اثاثے بڑھانے اور انہیںباہر شفٹ کرنے کی پڑی ہے،اس ذاتی مفاد کے چکروں میں ملک کا یہی حال ہو گا جوکہ دکھائی دیے رہا ہے،یہاں بٹگرام میں معصوم بچوں کی زندگیاں دائو پر لگتی رہیں گی اور جڑانوالہ میں اقلیتوں کی بستیاں بھی جلتی رہیں گی۔
اہل سیاست ملک و عوام کو بچانے کیلئے اپنی سیاست قر بان کرنے کے دعوئے تو بہت کرتے ہیں ،لیکن عملی طور پر اپنی سیاست اور خود کو بچانے کیلئے ہی سب کچھ دائو پر لگارہے ہیں ، ایک بار پھر وہی پرانی روایت دھرائی جارہی ہے،ایک بار پھر ایک وزیر اعظم پابند سلاسل کر دیا گیاہے ،ایک بار پھر انتقامی سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے

، ایک بار پھرایک مقبول پارٹی کو تقسیم کرنے اور اس میں سے ایک نئی پارٹی تخلیق کرنے کا کام کیا جارہا ہے،اس پر اقتدار کا تھوڑا سا مزا چکھنے والی قیادت خوش ہے کہ ان کے مخالف کو راستے سے ہٹایا جارہا ہے ، سیاست دان کو اپنی لڑائی میں باہر والوں کی مدد نہیں لینی چاہیے، لیکن یہ اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے بار بار وہی پرانی غلطیاں دہرائے جارہے ہیں ،اہل سیاست کو اب بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے،

اپنی محاذ آرائی میں جمہوریت کو دائو پر لگانا چاہئے نہ ہی جمہور کو فیصلہ سازی کے حق سے محروم رکھنا چاہئے ،اہل سیاست کو متفقہ طور پر ملک آئین کے مطابق مقررہ نوے دن میں انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہیے، ورنہ آپس کی کھنچا تانی میں ایک بار پھر کوئی تیسرا فائدہ اُٹھا جائے گا اور باقی سب خالی ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں