عوام جائے تو جائے کہاں !
پاکستانی قوم کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے،اس اقتدار کی لالچ نے حکمرانوں کی عقل پر ایسے تالے ڈالے کہ اپنے ہاتھوں اپنوں کو ہی آئی ایم یف کی غلامی میں دیے دیا ہے ،اس غلامی میں حکمرانو ں کی تو عیش ہے ،لیکن آئی ایم ایف کی غلامی کے بوجھ تلے غریب عوام اتنے دب کررہ گئے ہیں کہ سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے ،ایک طرف بجلی ،گیس ،پٹرول کی قیمتوں میں بتد ریج اضافہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب مہنگائی بیروزگاری میں اضافہ ہوتاچلارہا ہے ، غریب کیلئے تو ایک وقت کی سوکھی روٹی کا حصول بھی مشکل بنا دیا گیا ہے،اس صورتحال میں غریب ایک ہی کام آسانی سے کرسکتا ہے، وہ خودکشی ہے ، جو کہ ملک بھر میں آئے روز ہو رہی ہیں ، لیکن بے حس حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
یہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا ہے کہ اپنی ہوس اقتدار میں مرے عوام کو مارنے پر تکے دکھائی دیتے ہیں ،
یہاں منتخب حکومت رہے یانگران حکومت آئے ،ان سب نے صرف ایک ہی راستہ دیکھ لیا ہے کہ پٹرولیم ،گیس ،بجلی کے نرخ بڑھانے ہیں اور سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالنا ہے، عوام بری طرح پس کر رہ گئے ہیں،لیکن یہ حکومت کا سر درد نہیں ، حکومت کاکام تو صرف آئی ایم ایف کے ایجنڈ ے کی تکمیل ہے ،عوام جیئے یا مرے حکومت یک بعد دیگرے قیمتیں بڑھائے جارہی ہے ،آئے روزبلوں میں اضافہ کیے جارہی ہے ،تیرہ قسم کے ٹیکسز لگا کر عوام کو بری طرح لوٹا جا رہا ہے ،ایک ایسے ملک میں جہاں فی کس آمدنی بہت کم ہے، بیروزگاری اور غربت عام ہے، عوام کو اتنے مہنگے داموں بجلی ،گیس ،پٹرولیم کی فراہمی اْن کی کمر توڑنے کے مترادف ہے،مگر فیصلہ سازوں کوعوام کی حالت زار نظر ہی نہیں آ رہی ہے ، انہوں نے عوام کی حالت زار پر اپنی آنکھیں اور کا ن بند کررکھے ہیں۔
یہ حکمران جان بوجھ کر اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں ، یہ عوام کی حالت زار بخوبی جانتے ہیں ، کیو نکہ اس حالت زار کے خود ہی ذمہ دار ہیں ، لیکن ماننے کیلئے تیار ہیں نہ ہی کوئی ذمہ داری لیتے ہیں ، یہ ایک دوسرے پر ڈال کر ڈنگ ٹپائو پروگرام پر عمل پیراں ہیں ، ایک طرف سیاسی محاز آرائی کا بازار گرام کررکھا ہے تو دوسری جانب مہنگائی میں اضافہ کرکے عوام کا جینا حرام کیا جارہا ہے ،روز مرہ اشیاء ضروریہ سے لے کر سبزی ،پھل تک سب کچھ ہی عوام کی دست رست سے دور ہوگئے ہیں ،عوام سے سوکھی روٹی کا نوالہ بھی چھنا جارہا ہے ،آٹے کا ریٹ کہاں سے کہاں پہنچ چکاہے، پٹرول تین سو کاعدد چھونے کے لئے بے قرار ہے ،،ڈالر بے قابو ہو تا جارہاہے،ان پندرہ دِنوں میں اتنی تیزی سے اوپر گیا ہے کہ جیسے اْسے اوپر لے جانے والا مافیا نگران حکومت کے ہی انتظار میں تھا،نگران حکومت کے آتے ہی ہر چیز کا بھائوآسمان سے باتیں کرنے لگا ہے۔
اس نگراں حکومت سے عوام نے کوئی اُمیدیں وابستہ نہیں کررکھی تھیں ، لیکن نگران حکومت کو چاہئے تھا کہ اپنی ساکھ بنانے کیلئے ہی کچھ نہ کچھ کرتے ، نگران وزیراعظم نے تو عوام کوتسلی دینے کے لئے بھی کوئی ایسا بیان نہیں دیا کہ مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش ہی کریں گے،یہ اْن کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے
،اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ نگران حکومت کا دور عوام پر بہت ہی بھاری ثابت ہو گا،ایک ایسی حکومت جو عوام کے ووٹوں سے معرضِ وجود میں ہی نہیں آئی ہے، اُسے اس بات کی کونسی پرواہ ہو گی کہ عوام اْس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں،اْس کا تادیر اقتدار میں رہنا اور آئینی مدت میں انتخابات کرا کے واپس نہ جانا، ملکی معیشت اور استحکام کے لئے نقصان دہ ہی ثابت ہو سکتا ہے،اس وقت صرف بلوں میں اضافے کے حوالے سے آوازیں اْٹھ رہی ہیں،اگر ان آوازوں دھان نہ دیا گیااور یہ نگران حکومت اپنی ڈگر پر ہی چلتے ہوئے ایسے ہی نرخ بڑھاتی چلی گئی تو پھر انہیں عوام کی بے چینی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
اس وقت مہنگائی کا جن بے قابو ہے اور نگران حکومت بے قابو جن کو قابو کرتی دکھائی بھی نہیں دیے رہی ہے ،نگران وزیر اعظم جب اپنی حکومت کو سابق حکومت کی پالیسیوں کی محافظ قرار دیتے ہیں تو اس سے تاثر ملتا ہے کہ عوام کے لئے آسانی کا کوئی نظام زیر غور ہی نہیں ہے، اس نگران حکومت کی ترجیحات میں عام انتخابات سے پہلے کچھ اہم سیاسی و انتظامی فیصلے ہیں اور شائد ان فیصلوں کا اختیار دینے کے لئے ہی تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی نے نگرانوں کے اختیارات میں اضافہ بھی کیاگیا،
تاہم اس نگران حکومت کے ایجنڈے کی تکمیل سے قطع نظر عوام بروقت شفاف انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں،وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے یکسو ہونے اور عوام کی توقعات کے عین مطابق اپنی ترجیحات متعین کرنے کی ضرورت ہے،موجودہ حالات میں ملک کی سب سے بڑی خدمت یہی ہو گی کہ نگران حکومت بروقت شفاف و آزادانہ ماحول میں انتخابات کرنے کے لئے اپنی پوری صلاحیت بروئے کار لائے ،بصورت دیگرعوام جائے تو جائے کہاں ،اپنے حق کیلئے سڑکوں پر ہی آئیںگے، اگر ایک بارعوام باہر نکل تو پھر کوئی بچے گا نہ ہی کوئی بچانے آئے گا، عوام کے ریلے میں سب کچھ ہی بہہ جائے گا۔