پو ر ا ایمان بمقابلہ پورا کفر
پو ر ا ایمان بمقابلہ پورا کفر
اعجاز خاں میو
عرب کا مشہور بہادر جسے پانچ سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا ۔ اس کے مقابلہ کی کوئی جرأت نہیں کرتا تھا ۔ غزوہ بدر میں وہ مسلمانوں کے ہاتھوں زخمی ہو گیا تھا اور یہ زخم اتنے شدید تھے کہ وہ غزوہ اُحد میںحصہ نہ لے سکا ۔ اس مردود نے منت مانی تھی کہ جب تک حضور اکرم ﷺ سے بدلہ نہ لے لوں گا اس وقت تک بدن پر تیل نہ لگاؤں گا ۔ وہ اپنے خیال میں اب غزوہ خندق میں اپنی منت پوری کرنے آیا تھا ۔ ایک روایت کے مطابق عرب کا جری اور سب سے بڑا پہلوان تھا وہ اکیلا ایک ہزار کے لشکر سے جنگ کرتا تھا۔
بڑی شان سے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئےلشکر کفار سے نکل کر سامنے آیا اور ڈینگیں مارتے ہوئے بولا :’’ کون ہے جو میرے مقابلہ کے لئے نکلے۔ ‘‘
حضور اکرم ﷺ نے اس کی پر غرور باتیں سن کر صحابہ کرام ؇سے فرمایا :’’ ہے کوئی ایسا جو اس کا کام تمام کرے ؟‘‘سیدنا علی المرتضیٰ فوراً صف سے نکل کےحضور اکرم ﷺ کے رو برو پہنچےاور عرض کیا :’’ یارسول اللہ ﷺ اجازت دیجئے کہ میں اس سے مقابلہ کرنے جاؤں ۔ ‘‘حضور اکرم ﷺ نے قدرے توقف فرمایا ۔ ادھر بد بخت نے پھر مسلمانوں کو للکارا اور مبازر طلب کیا اور سیدنا علی المرتضیٰ نے پھر عرض کیا :’’ اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے مقابلہ کی اجازت عطا فرمائی جائے ۔ ‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’ اے علی ؓ ! ٹھہرو۔دیکھتے نہیں کہ یہ کون شخص ہے ؟ یہ عمر و بن عبدو دہے ۔ ‘‘ادھر عمرو بن عبدود نے تیسری مرتبہ چیخ کر مسلمانوں پر طنز کیا اور مذاق اڑایا ۔ اس نے کہا :
’’ تم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جو میرے مقابلہ پر آئے ۔ تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کی تم تمنا کرتے تھے اور تمہارے وہ دعوے کہاں چلے گئے ۔سیدنا علی المرتضیٰ پھر اجازت حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ حضور اکرم ﷺ خاموش تھے اور ان کی نظریں صحابہ ؇ پر لگی تھیں ۔ جب کوئی دوسرا سامنے نہ آیا تو سیدنا علی المرتضیٰ نے بے چین ہو کر عرض کیا :
’’ اب اس کے طعنے سنے نہیں جاتے ۔ مجھے اجازت دیجئے ۔ میں ابھی جاتا ہوں اور اسے جہنم رسید کرکے واپس آتا ہوں ۔ ‘‘
حضو راکرم ﷺ نے اشارہ سے سیدنا علی المرتضیٰ کو قریب بلا یا ۔ اپنی تلوار انہیں عطا کی ۔اپنی زرہ بکتر علی کے بدن پر سجائی اور رسول اکرم ﷺ نے اپنا عمامہ سر سے اتار کر سیدنا علی المرتضیٰ کے سر پر باندھا اور فرمایا:’’ علی ؓ ! جاؤ اور اسی شان سے جاؤ ۔ ‘‘ادھر سیدنا علی المرتضیٰ ،عمرو بن عبدو دکے مقابلہ میں چلے اور ادھر حضور اکرم ﷺ مناجات میں مصروف ہوئے :
’’ اے خدا وند! عبیدہ ابن حارث کو تو نے روز بدر اپنے پاس بلا لیا ۔حمزہ ؓکو تو نے روز اُحد مجھ سے جدا کیا ۔ اب علی تیرا خاص بندہ ،میرا بھائی ،میرا دوست اور میرے چچا کا بیٹا ہے ۔اس کو میں تیری پناہ میں دیتا ہوں ۔ ‘‘پھر حضور اکرم ﷺ نے مالک حقیقی کے حضور گڑ گڑا کر عرض کیا :’’ رب لا تذرنی فرداًو انت خیر الوارثین ۔ ‘‘
ترجمہ: ’’ اے پروردگار ! تو مجھے اکیلا نہ چھوڑ کیونکہ تو سب وارثوں سےبہتر ہے ۔ ‘‘
عمر وبن عبدو درجز پڑھ رہا تھا :
’’ میری آواز تم لوگوں کو ھل من مبازر پکارتے پکارتے تھک گئی ۔جس وقت بہادر اظہار نا مردی کرتا تھا ۔میں دلیروں کی صف میں اسی طرح کھڑا تھا ۔ میں ہمیشہ اسی طرح ان لوگوں کی طرف دوڑتا تھا ، جوانمردوں کی شجاعت ،سخاوت بہت عمدہ چیز ہے ۔ ‘‘
حضور اکرم ﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰ کو پیادہ پا مقابلہ کے لئے بھیجا ۔سیدنا علی المرتضیٰ یہ رجز پڑھتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے ۔
’’ اے عمرو بن عبدو دکافر جلدی نہ کر ۔میں تیری آواز سنتے ہی تیرے سر پر مثل پیام اجل آپہنچا ۔‘‘
میری نیت قوی ہے ۔
قواعد جنگ سے واقف ہوں ۔میں اپنی ہمت اور حوصلہ میں سچا ہوں ۔مجھے پورا یقین ہے کہ ابھی اسی وقت رونے والیاں تیری لاش پر روئیں گی۔تیری ساری شیخی تلوار کے ایک وار میں نکل جائے گی ۔میں ایک ایسا ہاتھ ماروں گا جس کا ذکر عرصہ تک لوگوں میں رہے گا اور لڑائیوں میں بہادر لوگ میری ضرب کی تعریف کیا کریں گے ۔ ‘‘عمرو بن عبدو د بھی گھوڑے سے کود پڑا اور پوچھا :’’تم کون ہو۔ جو اس بے باکی سے میرے سامنے اپنی تعریف بیان کر رہے ہو ؟ ‘‘سیدنا علی المرتضیٰ نے جواب دیا :
’’ میں علی ہوں !‘‘
اس نے پھر پوچھا :
’’ علی بن عبد مناف ؟ ‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ نے جواب دیا :
’’نہیں ۔علی بن ابی طالب َ۔ رسول اللہ ﷺ کاابن عم اور داماد ہوں ۔ ‘‘
عمرو بن عبدو دکہنے لگا :
’’ تمہارے والد میرے دوست تھے ۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا نیزہ تمہیں جھپٹ لے جائے ( یہ الفاظ بھی آئے ہیں ۔تم میرے بھائی ہو میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا ۔)
سیدنا علی المرتضیٰ نے جواب دیا:
’’ خیر ان باتوں کو چھوڑو۔ میں نےسنا ہے کہ تمہارا قول ہے کہ اگر قر یش تمہیں تین باتوں میں سے کسی ایک بات کی طرف بلائیں گے تو تم مان جاؤ گے ۔‘‘
عمرو ابن عبدو دنے اس کی تصدیق کی:
’’ ہاں یہ میرا قول ہے ۔‘‘
سیدنا علی نے فرمایا:
’’ میں تمہیں تین باتوں میں سے کسی ایک بات کی طرف بلاتا ہوں ۔ تم مان لو ۔ اول یہ کہ تم کلمہ پڑھو اور مسلمان ہو جاؤ ۔‘‘
اس نے فوراً جواب دیا:
’’ اس کی امید تم مجھ سے نہ رکھو ۔‘‘
سیدنا علی نے دوسری بات پیش کی:
’’ اچھا تو دوسری بات جو تمہارے حق میں ہے۔ وہ یہ کہ بغیر جنگ کئے گھر واپس ہو جاؤ اور کفار کے ساتھ ہمارا مقابلہ نہ کرو ۔ اس صورت میں اگر ہماری فتح ہوئی تو تمہارا یہ فعل ہماری مدد کے برابر ہوگا اور اگر کفار غالب آئے تو تمہارا مقصد پورا ہوگیا۔ یعنی بغیر جنگ کئے بھی تمہارا مقصد حاصل ہوسکتاہے۔‘‘
عمر و بن عبدود بولا:
’’ بات تو تم ٹھیک کہتے ہو مگر بغیر تمہارا مقابلہ کے واپس جانا میرے حق میں برا ہوگا ۔ عورتیں مجھ پر ہنسیں گی اور طعنہ زنی کریں گی کہ جس بات کی منت مانی تھی وہ پوری نہ کر سکے اور بغیر لڑے میدان جنگ سے واپس آگئے ۔‘‘
اس کے جواب میںسیدنا علی نے فرمایا :
’’ اب تیسری بات یہ ہے کہ گھوڑے سے اتر کر مقابلہ کرو ۔‘‘
عمرو بن عبدودنے اس طرح کہا جیسےسیدنا علی پر ترس کھا رہا ہو :
’’ تم ابھی کمسن ہو۔ نو جوان ہو ۔ میں تم سے لڑنانہیں چاہتا۔ اپنے کسی چچا کو میرے مقابلہ پر بھیجو۔‘‘
سیدنا علی نے فرمایا :
’’اےعمرو ابن عبدود! مجھے تمہاراقتل کرنا پسند ہے اور میں تمہارے خون کا پیاسا ہوں ۔‘‘
عمرو بن عبدودسیدنا علی کے ان جملوں پر غصے سے کانپنے لگا اور تلواربے نیام کر کے سیدنا علی پرایک بھر پور وار کیا مگر اس کا وار خالی گیا۔اس پر سیدنا علی نے فرمایا:
’’ کیا یہی بہادری ہے کہ تم گھوڑے پر سوار ہو اور میں پیدل ہوں۔ اگر بہادر ہو تو تھوڑے سے اتر کر مجھ سے دو دو ہاتھ کرو۔‘‘
عمرو بن عبدو داس قدر غصہ میں آیا کہ گھوڑے سے کود پڑا ۔ تلوار مار کر گھوڑے کے پیر قلم کر دیئے اور اس کا منہ زخمی کر دیا۔ پھر وہ سیدنا علی کی طرف بڑھا اور دونوں میں جنگ شروع ہوگئی ۔ اس سے اس قدر گرد اڑی کہ دونوں لڑ تے ہوئے اس گردو غبار میں چھپ گئے ۔ تھوڑی دیر بعدگردو غبار کے اندر سے نعرہ اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی ۔ مسلمانوں کے چہرے مسرت سے کھل اٹھےاور انہوں نے سمجھ لیا کہ سیدنا علی نے ابن عبدود کوقتل کر دیا ہے ۔
ایک روایت ہے کہ عمر بن عبدود نے سیدنا علی پر غصہ سے تلوار کا ایک شدید وار کیا ۔ سیدنا علی نے اس کے وار کو ڈھال پر روکا مگر عمرو ابن عبدو دکی تلوار ڈھال کاٹتی ہوئی سیدنا علی کے سر تک پہنچی اور آپ کے سر پر ہلکا سا زخم آیا ۔پھر سیدنا علی نے جواب میں اس پر ذوالفقار کا ایسا وار کیا کہ کفارکے سب سے بڑے پہلوان کی گردن کٹ کر دور جاگری اور جسم زمین پر تڑپنے لگا ۔
عمرو بن عبدو دکا بیٹا حسل قریب ہی موجود تھا۔ اس نے باپ کی گردن جسم سے الگ ہوتے دیکھی تو تلوار کھینچ کر سیدنا علی پر جھپٹا ۔سیدنا علی نے ذوالفقار کا ایک ہاتھ گھما کر اسے بھی واصل جہنم کردیا ۔ عکرمہ بن ابی جہل نے حسل کا یہ حال دیکھا تو اسے بھاگتے ہی بنی ۔
ادھر آ نحضرت ﷺ نے اللہ اکبر کی صداسن کر اندازہ کر لیا تھا کہ عمرو بن عبدو دمارا گیا ہے ۔ عمرو بن عبدو د اور اس کے بیٹے حسل کے مارے جانے سے کفار سخت طیش میں آ گئے اور سیدنا علی پر ٹوٹ پڑے۔آگے آگے ضرار بن خطاب اور ہبیرہ بن ابی وہب تھے۔ وہ دونوں ایک ساتھ سیدنا علی پر حملہ آور ہوئے مگر فوراً ہی
حضرت عمرفاروق اور حضرت زبیر ، سیدنا علی کی مدد کو پہنچ گئے ۔ ضرار جیسے ہی سیدنا علی کے سامنے آیا اور اس کی آنکھ سیدنا علی کی آنکھ سے ملی وہ فورا ًًمیدان چھوڑ کے بھاگ پڑا۔ جنگ کے بعد لوگوں نے اس سے پوچھا تو میدان چھوڑ کے کیوں بھاگا ۔ اس نے جواب میں کہا کہ سیدنا علی کے چہرے سے مجھے خوف معلوم ہوا اور ان کی آنکھوں میں مجھے اپنی موت نظر آئی اگر میں جان بچا کر نہ بھا گتا تو ضرور مارا جا تا ۔ ہبیرہ بن ابی وہب نے پر زور مقابلہ کیا مگر جب ہلکا سا زخم آیا تو اپنی زرہ سیدنا علی کی طرف پھینک کے بھاگ گیا۔ پھر عبداللہ بن مغیر ہ مخزومی سامنے آیا اور ایک ہی وار میں ختم ہو گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ اسے حضرت زبیر نے قتل کیا۔ نوفل بن عبداللہ بدحواس ہو کے بھا گا تو خندق میں گر پڑا۔ مسلمانوں نے اسے پتھر مارنا شروع کر دیئے ۔ وہ چلایا کہ مجھے کتے کی موت تو نہ مارو ۔ آخرسیدنا علی نے اس کے پاس پہنچ کے اس کی کمر پر وار کیا اور اس کے دو ٹکڑے ہو گئے
سیدنا علی جب عمرو بن عبدود کوقتل کر کے آ نحضرت ﷺکے پاس پہنچے تو آپ کے سر سے خون بہہ رہا تھا ۔ اس وقت حضورﷺنے محبت سے فرمایا تھا ۔
قتل على لعمر وبن عبدود افضل من عباد الثقلين
ترجمہ: ’’ علی کا عمر بن عبدود کا قتل کرنا دونوں جہانوں کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘
حضرت جابر کہتے ہیں عمرو بن عبدودکا سیدنا علی کے ہاتھوں مارا جانا بالکل حضرت داؤد ؈ اور جالوت کے قصہ کے مانند ہے۔ اس کا ذکر کلام الہی میں اس طرح ہوا ہے ۔
فهز موهم باذن الله و قتل دائود جالوت
’’ یعنی وہ لوگ خدا کے حکم سے بھاگ گئے اور داؤد نے جالوت کو مار ڈالا ۔ ‘‘
فضل الله بن روز بہان کشف الغمہ میں لکھتے ہیں کہ تمام اہل سیر روایت کرتے ہیں کہ جس وقت سیدنا علی عمرو بن عبدو دکے مقابلہ پر نکلے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
’’ پورا ایمان پورے کفر کے مقابلہ کو جا رہا ہے۔ ‘‘
ابوالحسن مدائنی سے روایت ہے کہ جب سیدنا علی نے عمرو بن عبدود کوقتل کیا اور اس کی خبر اس کی بہن کو ہوئی تو اس نے پوچھا کہ وہ کس کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ عمرو بن عبدود کو سیدنا علی بن ابی طالب نے قتل کیا ۔ وہ بولی کہ اس کی موت اپنے بزرگ بھائی بند کے ہاتھوں ہوئی ۔
روایت ہے کہ عمرو ابن عبدود کے قتل پر اس کی بہن اس کی لاش پر آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے تمام ہتھیار موجود ہیں۔ پس اس نے کہا کہ اسے موت کے گھاٹ اتارنے والا کوئی شریف اور کریم انفس انسان ہے ۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ وہ شخص سیدناعلی ابن ابی طالب بن عبد المطلب ہیں۔ اس پر اس نے دو شعر پڑھے جن کا مطلب ہے ۔
’’ اگر میرے بھائی کو علی کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا تو میں زندگی بھر اسے روتی اور اس کا غم کرتی رہتی لیکن اسے قتل کرنے والا تو وہ شخص ہے جو ہمیشہ سےبیضتہ البلد یعنی اہل شہر کا مرجع مرکز ہے ۔‘