حق حکمرانی سے محروم عوام ! 66

کب بدلیں گے حالات !

کب بدلیں گے حالات !

ملک ایسے افراد کے نرغے میں آچکا ہے ،جو کہ آئین ،قانون اور اخلاقی ضابطوں کو یکسر فراموش ہی کیے چلے جارہے ہیں ، جبکہ انتخابات کرانے کے خواہشمند اور گریزاں حلقے ، سبھی اپنے اپنے مو ٔ قف پر ڈٹے ہوئے ہیں ، الیکشن کمیشن کسی کے خلاف کوئی کاروائی کررہا ہے نہ ہی عام انتخابات کی تاریخ دیے رہا ہے ،الٹا سوال کررہا ہے کہ سیاسی لوگ نگران کا بینہ میں کیوں شامل کیے جارہے ہیں ،الیکشن کمیشن کوئی کروائی کرنے کے بجائے ایسے ہی تشویش کا اظہار کرتا رہے گا

اور عدلیہ بھی تحفظات باور کراتی رہے گی ،جبکہ قلمدانوں کی بندر بانٹ ایسے ہی جاری رہے گی اور سابق حکومت کاہی تسلسل دکھائی دینے والی حکومت بس نگرانی ہی کرتی رہے گی ۔
اس نگران حکومت کے نگران وزیر اعظم درست کہتے ہیں کہ نگران حکومت غیر جانب دار ہوتی ہے ، لیکن یہ کیسی غیر جانب داری ہے کہ ایک طرف انتقامی سیاست کا تسلسل جاری ہے تو دوسری جانب پوری لیول پلینگ فیلڈ دی جارہی ہے ، اس کے تحت ہی میاں نواز شریف نے اکیس اکتوبر کو پا کستان واپسی کا اعلان کر دیا ہے

، وہ ریاست پاکستان کے مفرور مجرم ہیں، قانون کا تقاضا ہے کہ وہ آئیں تو انہیں پکڑ کر جیل میں بند کیا جائے اور عدالت ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دے، لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ وہ عدالت سے بالا بالا ہی کچھ کرنا چاہتے ہیں،جبکہ نگران وزیر اعظم جانتے ہی نہیں ہیں کہ وہ کسی ڈیل یا ڈھیل کے تحت واپس آرہے ہیں ۔
نگران وزیر اعظم جتنا مرضی سب کچھ جانتے ہوئے انجان بننے کی کوشش کرتے رہیں ، لیکن عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کن سے کون سی ڈیل اور ڈھیل لے کرواپس آرہے ہیں ،ایک طرف میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی اُمید کے ساتھ واپس آرہے ہیں تو دوسری جانب بلاول بھٹوزرداری بھی وزارت عظمیٰ کے پکے امیدوار ہیں ، یہ اُن کے والد محترم کی آخری خواہش ہے کہ وہ اپنے صاحبزادے کو ہر حال میں وزیراعظم بنتے دیکھنا چاہتے ہیں، اس مقصد کے لیے ہی انہوں نے دوطرفہ سیاسی حکمت عملی ترتیب دی ہے

کہ وہ طاقتور حلقوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ر ہیں گے اوربلاول اختلاف رائے کے ذریعے دبائو بڑھاتے رہیں گے،لیکن پیپلز پارٹی کرپٹ سسٹم پر مضبوط ہاتھ ڈال دیا گیاہے ، آصف علی زرداری بظاہر تاثر دے رہے ہیں کہ اس سارے معاملے کا ان سے کوئی تعلق نہیں اوروہ ملکی مفاد میں کیے جانے والے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ حمایت بہت جلد ان کے اپنے ہی گلے پڑنے والی ہے۔
اس ملک کی آزمائی سیاسی قیادت ایسے حالات کا کوئی پہلی بار سامنا نہیں کرر ہے ہیں ، اس سے قبل بھی بار ہا ایسے حالات نہ صرف دیکھے ہیں،بلکہ اس سے کا میاب ڈیل اور ڈھیل کرکے نکلتے بھی رہے ہیں ، اس بار بھی میاں نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کے ذریعے جیسے ان حالات سے نکل رہے ہیں ، اس طر ح ہی آصف علی زر داری بھی بلاول زرداری کے ذریعے نکلنے میں کو شاں دکھائی دیتے ہیں ،

ایک طرف ڈیل اور ڈھیل کا سلسلہ چل رہا ہے تو دوسری جانب ملک و عوام تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں ، عوام ان سیاستدانوں سے پو چھنا چاہتے ہے جو کہ ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے کے لئے بے تاب ہیں کہ وہ اپنی جماعت کے پلان و پروگرام اور منشور کے حوالے سے بتانے کی زحمت کریں گے کہ ملک و قوم کو ایک بڑے بھنور میں پھنسا کر اب اس سے نکلنے کا ان کے پاس کیانیا فارمولا ہے۔
اس آزمائی سیاسی قیادت کے پاس عوام کیلئے کوئی نیا فار مولہ ہے نہ ہی عوام ان کی تر جیحات میں کبھی شامل رہے ہیں ، ان سب کی تر جیحات حصول اقتدار سے جڑی ہیں ،اس حوالے سے جہاں طاقتور حلقوں سے معاملات طے کیے جارہے ہیں ، وہیںاپنے سیاسی حریفوں کا صفایا کرنے کے بعد عام انتخابات وقت پر کرانے کی منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے، لیکن اقتدار کس کے حوالے ہوناہے، یہ ابھی طے نہیں ہوا ہے،اگر اس بار بھی عوام کی مرضی کے خلاف اقتدار کسی تھرڈ پارٹی کو دیا گیا تو عام انتخابات پر سوالیہ نشان لگ جائے گا

اور ایک بار پھر دائروں کا سفر جاری رہے گا،اس بے یقینی اور افراتفری کے دائرے سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی مرضی تسلیم کی جائے ، عوام کو فیصلہ کرنے کا نہ صرف حق دیا جائے ، بلکہ اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کے حوالے بھی کیا جائے، اس ملک کے طاقتور حلقوں نے بہت سے تجربے کرلیے ہیں، اس بار عوامی تجربہ کرکے بھی دیکھ لیں ، اُمید ہے کہ کا میاب رہے گا اور ملک و عوام کے حالات بھی بدل جائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں