توبہ کا دروازہ 46

امام کی نیت

امام کی نیت

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

نہ جانے وہ کب آیا؟ کون تھا؟ وہ کئی دنوں سے دہلی کے ایک مضافاتی محلے کے چوراہے میں بیٹھا آنے جانے والوں کی نگاہوںکا محور تھا کبھی برہنہ کبھی نیم برہنہ کسی نے کچھ کھانے کو دیدیا تو ٹھیک ورنہ اس نے کبھی کسی کے آگے دست ِ سوال درازنہیں کیا تھا کچھ لوگوںنے تو اسے وقت بے وقت نمازپڑھتے دیکھ کرتعجب کااظہاربھی کیا لیکن اس کی شخصیت کارعب اتنا تھا کہ کسی کو ٹوکنے کی ہمت نہ ہوئی

۔ایک دن ایک چھوٹی سی بچی اپنی ماں کے ساتھ روتی ہوئی جارہی تھی نہ جانے یکایک اسے کیا ہوا وہ اسی مجذوب کے قریب زمین پر لیٹنے لگی جیسے کوئی چیزلینے کی ضد کررہی ہو بچی نے رو روکر آسمان سرپراٹھالیا تھا کئی بچے بوڑھے ان کے پاس آن کھڑے ہوئےاے مائی ۔۔مجذوب کے حلیے والے نے دھیرے سے آنکھیں کھول کرپوچھابچی گہنے لینے کی ضد کررہی ہے عورت نے پریشان ہوکر جواب دیالے دو نا گہنے مجذوب نے کہاکتنی پیاری بچی ہےکہاں سے لے دوں عورت کی آنکھوںمیں آنسو آگئے پیتل کے گہنے خریدنے کی میری اوقات نہیں اچھا وہ مسکرایا میرے پاس آئواس نے بچی کو پیارسے اشارہ کیامیں دوںگا گہنےیہ سن کر بچی یقین اور بے یقینی کی کش مکش میں اٹھی اور جھجکتے جھجکتے مجذوب سے کچھ فاصلے پر جا کرکھڑی ہوگئی مجذوب نے زمین سے ایک مٹی کا دھیلا اٹھایا اپنی قمیض کا ایک کوناپھاڑ کراس میں باندھ کر گرہ لگادی اور کہا اسے گھرجاکر کھولنا بڑے سندر گہنے ہیں۔

ماں نے بیٹی کو گودمیں اٹھایااور جلدی جلدی گھرکی طرف لپکی دروازے میں ہی بچی نے اشتیاق میں پوٹلی کھولی تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی واقعی بڑے خوبصورت گہنے انکی نگاہوں کے سامنے تھے عورت کو یقین ہی نہ آرہاتھا اس نے پڑوسن کوبلاکرگہنے دکھائے وہ اصلی سونے کے تھے آناً فاناً علاقہ بھرمیں یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی بہت سے لوگ وہاں گئے جہاں مجذوب کا ڈیرہ تھامگر وہ نہ جانے کہا غائب ہوگیا تھا۔۔ پھرلوگ اسے بھولنے لگے کچھ عرصہ بعد وہ پھر آوارد ہوا زیادہ ترلوگ اسے نہیں جانتے تھے دہلی میں جب سے وارد ہو ا بڑے بڑے عالم فاضل بھی اس کی علمی قابلیت کے معترف ہونے لگے

فارسی،عربی،سنسکرت،عبرانی،پنجابی نہ جانے کس کس زبان پراسے عبورحاصل تھا کسی بھی موضوع پر بولتا توبولتاچلا جاتا جیسے کوئی یونانی دیوتا معبدمیں درس دے رہا ہو لوگ تھک جاتے لیکن وہ ہرچیزسے بے نیاز ہوکر بلاتکان بولتا چلاجاتااسے کھانے پینے کی کوئی پرواہ نہیں تھی اس عالم وجد میں وہ اپنے کپڑے اتار پھینکتا کبھی نیم برہنہ کبھی الف ننگا کچھ نے پاگل قراردیدیا تو کوئی مجذوب سمجھ بیٹھا دنیاکے لئے وہ ایک معمہ بناہوا تھا کئی کئی ہفتے نہاتے گذر جاتی اس کے جسم سے بدبو بھی آنے لگتی پھر بھی اس کے گرد لوگوںکاایک ہجوم ہروقت لگارہتا اسی دوران ایک شخص قیصراس کے قریب ہوتا چلا گیا

وہ اس کی ضروریات کا خیال رکھنے لگا درحقیقت قیصر نے اسے بے نقاب کرنے کی تھان لی اس کی دانست میں وہ پاکھنڈی،ڈرامے باز یا جاسوس تھا ایک دن تاجروںکاایک قافلہ ادھرسے گذرا وہ مجذوب حسب ِ معمول محفل سجائے بیٹھا کہ ایک تاجر ہجوم دیکھ کر رک گیا وہ بھی تماشائیوںمیں شامل ہوگیا اسے آوازکوئی جانی پہچانی محسوس ہوئی تاجرنے غور سے دیکھا تو پھر دیکھتاہی چلاگیا وہ ہجوم کو چیرتاہواآگے بڑھا اور بے ساختہ مجذوب کو گلے لگالیا اس نے بھاری آوازمیں کہا سرمد۔۔ تم کہاں غائب ہوگئے تھے؟ میںنے تمہیں بہت ڈھونڈاسرمد نامی مجذوب نے خالی خالی نظروں سے نوواردکی طرف دیکھا
’’تم اسے جانتے ہو۔۔ قیصرنے بے تابی سے پوچھا’’ہاں میں انہیں جانتاہوں تاجرنے جواب دیا اس کی حالت پر نہ جائو یہ بڑے کمال کے آدمی ہیںممتاز صوفی سرمد کے متعلق تاریخ بتاتی ہے کہ وہ آرمینیا کا باشندہ تھا کاشان میں مقیم رہا وہ نسلاً یہودی تھا اورکئی زبانوں اور علوم کا ماہر تھا۔ اس کی پیدائش 1590ء کے کس مہینے یا تاریخ کو ہوئی کوئی نہیں جانتا مشہور حکماء ملا صدرا شیرازی اور ابو القاسم فندرسکی کا ہونہار شاگرد تھا بلا کا ذہین فطین اور قادر الکلام شاعر۔ سندھ،لاہورمیں بھی آیا ہندوستان آکر زیادہ تر حیدرآباد میں مقیم رہا۔ عبد اللہ قطب شاہ نے اسے خوش آمدید کہا۔ وہ اپنے ٹھٹھہ سندھ کے قیام 1042ھ / 1632ء کے دوران میں ایک ہندو لڑکے ابھی چند پر ایسا عاشق ہوا کہ وہ اسی کا ہو کر رہ گیا۔

اسے کئی زبانیں سکھائیں۔ اس ہندو لڑکے نے اس کی نگرانی میں توریت کے ابتدائی حصے کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔ شاعر، تاجر، مترجم، مصنف کے ناطہ سے اس نے کئی کتابیں تحریر کیں جس پر اس کے اپنے مخصوص نظریات کی گہری چھاپ ہے سرمدنے کبھی حالات سے کمپرومائزنہیں کیادبستان مذاہب کے مولف سے 1042ھ / 1632ء میں حیدر آباد میں ملا اور اس سے کئی اقوال بھی نقل کئے ہیں۔ اس کے اشعار و اقوال سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ وحدت ادیان کا قائل تھا۔ اس کا ایک شعر ہے
در کعبہ و بت خانہ سنگ اوشد وچوب اوشد۔۔۔۔۔ یکجا حجرا لاسود و یکجا بت ہندو شدمغل بادشاہ شاہ جہاں کا بیٹا شہزادہ داراشکوہ سرمدسے بہت متاثرتھا یہ بات بھی مشہورہے کہ سرمد اسی کی دعوت پر سندھ سے دہلی آیا تھااگرچہ بظاہرسرمد نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اس کے عقائد و افکار میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا بلکہ اس کی حرکات سے معلوم پرتا ہے کہ وہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہاں آیا تھا کچھ لوگ اسے جاسوس بھی قرار دیتے رہے ، وہ 1064ھ / 1654ء میں دہلی پہنچا اسے دارا شکوہ کا سہارا ملا تو یہیں کا ہو کر رہ گیا۔۔ معاصر تذکرہ نویس شیر خان لودھی نے مراۃ الخیال 1102ھ / 1690ء میں لکھا ہے

کہ دارا شکوہ کی طبیعت اس قسم کے مجانین کی طرف راغب تھی۔ تمام مآخذ متفق ہیں کہ وہ اپنے قیام ٹھٹھہ 1042ھ / 1632ء کے دوران مادر زاد برہنہ ہو گیا تھا۔ قیاس ہے کہ وہ آوارہ گردی کرتا ہوا دہلی نہیں پہنچا تھا بلکہ دارا شکوہ نے اسے خود دہلی بلایا تھا کیونکہ اس کی دارا شکوہ کے ساتھ خط کتابت بھی تھی۔ دارا شکوہ کا ایک خط بنام سرمد، سید مصطفے طباطبائی نے رسالہ انڈو ایرانیکا کلکتہ میں شائع کیا تھا۔کہاجاتاہے

کہ عالم ِ وجدمیں وہ اکثراپنے کپڑے پھاڑ کر الف ننگا ہوجاتا جس پر دہلی کے مسلمان مفتی اور علما کرام،ہندوپنڈت اور سکھ گرنتھی خلاف ہوگئے انہوںنے کئی بارشاہ جہاں کے دربارجاکران کے خلاف شکایات کے دفترلگادئیے لیکن ہربار دارا شکوہ آڑے آجاتا اور سرمدکے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا جاتا۔ متعدد تاریخی کتابوں دبستان مذاہب ص96، ، مراۃ الخیال، شیر خان لودھی، طبع کول 1848ء ص154، حسنات الحرمین، اردو ترجمہ محمد اقبال مجددی ص85، سکینہ الاولیاء دارا شکوہ ، ترجمہ سید محمد رضا جلالی نائینی، مقدمہ ص6، Travels in the Mughal Empire, Bernier, p 317، مآثر الامراء ، ص225/1-224، ریاض الشعراء ، قلمی، رقعات عالمگیری ص121-122 میں بھی سرمدکے متعلق تذکرہ ملتاہے

بہت سے اس کے حامی اسے صاحب ِ کرامت صوفی مانتے ہیںسرمد کو برہنہ حالت میں غیر ملکی سیاحوں نے بھی دیکھا تھا۔ ایک دن دارا شکوہ سرمدکو ملنے آیا سرمداسے دیکھ کر رونے لگ گیا اس نے دارا شکوہ کو کہامیں اپنا انجام جانتاہوں لیکن تم جتنی جلدی دہلی چھوڑ دو تمہارے حق میں اتنا ہی بہترہے’’مگر کیوں؟ دارا شکوہ نے پوچھا’’جومیں جانتاہوں سرمدنے جواب دیا تم نہیں جانتے
’’پھر بھی دارا شکوہ نے استفسارکیا’’ میری آنکھیں آگ اور خون دیکھ رہی ہیں اس نے دورکہیں خلائوںمیں گھورتے ہوئے کہا لاشیں ہی لاشیں’’میں کہیں نہیں جائوں گا دارا شکوہ نے پر عزم لہجے میں کہا میں شکست مان لوں یہ ہوہی نہیں سکتا ۔’’ میں اور تم سرمدنے آہ بھرکر کہا سب خلاص ۔۔جائو کچھ عرصہ کے لئے گمنام ہوجائودارا شکوہ نہ مانا۔۔۔پھر وہی ہوا جس کی پیش گوئی سرمدنے کی تھی شاہ جہاں نے دو بیٹوں اورنگ زیبؒ عالمگیر اوردارا شکوہ کے درمیان جنگ تخت نشینی پرخوفناک جنگ ہوئی

جس میں دارا شکوہ ماراگیابادشاہ کوگرفتارکرکے گوالیارکے قلعہ میں بندکردیاگیا اور اورنگ زیبؒ عالمگیر تخت نشیں ہوگیا اس نے بہت سے غیر شرعی رسومات، موسیقی اور نام نہاد صوفیا کا احتساب کیا وہاں سرمد پر بھی گرفت ہونا لازمی تھا اورنگزیبؒ عالمگیر نے اعتماد خان ملا عبد القوی کو حکم دیا کہ وہ سرمد کو حاضر کرے وہ آیا تو نیم برہنہ لباس میں تھا وزیروں نے اسے سمجھایاکہ بادشاہ سے ملنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں مکمل لباس پہن لو بڑی مشکل اسے ر اضی کیا گیا بادشاہ دربار میں تخت نشین ہوا تو سرمد ایک شان ِ بے نیازی سے بیٹھا رہا اس نے دربار میں سوال و جواب کے دوران میں بھی اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے اورنگ زیبؒ عالمگیر اس کی باتیں سن کر سیخ پا ہوگیا

اس نے اسی وقت علماکرام اور مفتیوںکاایک پینل تشکیل دے کر فتویٰ طلب کرلیا۔سرمد کی انہی حرکات کی بدولت علما ء نے 1659ء کو جب اس کی عمر71سال تھی اس کے قتل کا فتوی جاری کردیا سزا کا سن کر سرمدکے ہونٹوںپر ایک مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی اعتماد خان ملا عبد القوی نے سرمد سے پوچھا تمہاری کوئی آخری خواہش ہوتو بتادو’’میں بادشاہ کے ساتھ دہلی کی جامع مسجدمیں جمعہ پڑھنا چاہتاہوں۔اورنگزیبؒ عالمگیر نے حکم دیاسرمدکی آخری خواہش کو پورا کیا جائے۔
جمعتہ المبارک کو جامع مسجددہلی میں معمول سے زیادہ رش تھااورنگزیبؒ عالمگیر تخت نشین ہونے کے بعد پہلی مرتبہ یہاں آیاتھا

نمازسے کچھ دیرپہلے سرمدکوبھی لایاگیا آج خلاف ِ معمول وہ پورے لباس میں تھا سفید دودھیا لباس اس پر بہت جچ رہا تھا اس نے بادشاہ کے ساتھ پہلی صف میں جانے کھڑا ہونے کی فرمائش کی امام صاحب نے تکبیر بلندکی ۔۔ اللہ اکبر سرمدنے زورسے کہا امام کی نیت میرے پائوں کے نیچے اورپھر ہاتھ باندھ لئے لوگ حیران پریشان تھے کہ یہ کیسا شخص ہے اس کے لئے موت کا فتویٰ جاری ہوگیاہے لیکن پھربھی یہ عجیب و غریب حرکات سے بازہی نہیں آتا۔اورنگزیبؒ عالمگیر بڑا جہاندیدہ شخص تھا اس نے جمعہ کی ادائیگی کے بعد دو حکم جاری کئے امام مسجدکو گرفتارکرکے میرے سامنے پیش کیا جائے

دوسرا جہاں سرمد نمازکے لئے کھڑا تھا فوری اس کی کھدائی کی جائے امام مسجد سخت پریشان ہوا کہ نہ جانے مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے کہ مجھے گرفتارکرلیا گیاہے ۔اورنگزیبؒ عالمگیر نے مسجدمیں ہی سب کو طلب کرلیا امام صاحب کو پیش کیا گیا تو بادشاہ نے اس سے بڑی سختی سے پوچھا’سچ سچ بتانا جب آپ نے امامت کروانے کے لئے اللہ اکبرکہا تمہارے دل و دماغ میں کیا خیالات آرہے تھے
امام صاحب کی آنکھوںمیں آنسو آگئے اس نے کہا میری تین بیٹیاں جوان ہیں ان کی شادی کا کوئی اسباب نہیں میرے دل میں خیال آرہاتھا میں نما زکے بعد بادشاہ کے حضور اس کے لئے کچھ عرض کروں گا میں عرض کیاکرتا آپ نے تو مجھے گرفتارہی کروادیا۔۔اسی اثناء میں بادشاہ کو اطلاع دی گئی کو جس جگہ کی کھدائی کاانہوںنے حکم دیا تھا وہاںسے خرانہ برآمد ہوا ہے بادشاہ نے حکم دیا وہ سب امام صاحب کو دیدیا جائے تاکہ وہ اپنی بیٹیوںکی شادی اچھے اندازسے کرسکیں۔اورنگزیبؒ عالمگیر کے چہرے پرتذبذب کے آثارنمایاں تھے وہ سوچ رہاتھاکیا اتنے باکمال شخص کاقتل جائز ہوگا ؟ پھر انہیں سرمدکے عجیب و غریب عقائد، اس کا ننگاپھرنا، اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کا خیال آیا ۔بادشاہ نے قتل کا فتوی ٰ جاری کرنے والوںسے پھر مشاورت کرنے کافیصلہ کیا سب نے متفقہ طورپرکہا کہ سرمدکے عقائدایک فتنہ ہے

شریعت ظاہرکو دیکھتی ہے اسے سزا نہ دی گئی تو وہ مزید طاقتور ہوجائے گا۔ بادشاہ نے سرمدکی سزا پرعمل درآمدکا حکم دیدیا ۔ ایک کھلے میدان کے بیچوں بیچ بنے پرانے سے چبوترے پر زنجیروں میں جکڑ کر سرمدکو لایا گیا اس کے چہرے پر بلاکا سکون تھا جیسے اسے اس سزا کا مطلق خوف نہ ہو اس نے اپنے قتل کا تماشا دیکھنے کے لئے آئے ہوئے ہزاروں لوگوںکو آخری باردیکھا اور جلادسے کہا اب دیرکس بات کی۔اعتماد خان ملا عبد القوی نے اس پر لگائے گئے الزامات کو دہرایااور جلادکو اشارہ کیا جس نے ایک ہی وار میں اس کا سر تن سے جداکردیا۔سرمدکا لاشہ کچھ دیر تڑپا زمین پرگرنے کے لئے لڑکھڑایا پھر ایک حیرت انگیز بات ہوئی بغیر سرکے جسم بانس کی طرح تن گیا

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتاہوا اینے سرکی جانب بڑھنے لگا لوگوںکی چیخیں نکل گئیں جو وہ دیکھ رہے تھے حیرت انگیز اور ناقابل ِ یقین تھا اب سرمدنے ہاتھوں پرسراٹھالیا جس میں سے انتقام انتقام کی آواز واضح سنائی دی رہی تھی و ہ چبوترے سے نیچے اترنے لگا جسم اورسر سے ٹپکنے والے خون کے قطروںنے ماحول پر ایک ہیبت طاری کردی اسی دوران اعتماد خان ملا عبد القوی اس کے مقابل آگیا اس نے چلا کر کہا ہمارا تم سے کوئی ذاتی عناد نہ تھا پھرانتقام کس بات کا ہے بادشاہ نے تو شریعت پر عمل کروایاہے

یہ کہتے ہوئے اس نے آخری الہامی کتاب بلند کردی سرمدچلتے چلتے رک گیا اپنا سرہوامیں اچھالا اور پھر اس کا جسم ساکت ہوکر چبوترے کی سیڑھیوںپر آڑا ترچھا ہوکر گرگیا۔سرمدکو دہلی کے وسطی ضلع میں دفن کیاگیا جہاں اس کے عقیدت مندوںنے ایک عظیم الشان درگاہ قائم کردی جس پر کتبہ صوفی سرمدؒ شہید مجذوب نمایاں لکھا دکھائی دیتاہے ان کا مزار آج بھی خستہ حالی کا لبادہ اوڑھے آنے والوںکو اپنی داستان ِ حسرت بناتاہے۔مولانا ابوکلام آزادؒ نے حضرت خواجہ حسنؒ نظامی کی فرمائش پر1910ء میں’’ حیات ِ سرمد‘‘پرایک پر مغزکتاب تحریرکی ہے جو عہدِ عالمگیرمیں ہونے والے اس خونی سانحہ کی یاددلاتی ہے

جس میں انہوں نے لکھا عشق کی روش انگیزیاںہرجگہ یکساں ہیںہرعاشق گو قیس نہ ہو مجنوں ضرور ہوتاہے اور جب عشق آتاہے تو عقل و حواس سے کہتاہے کہ میرے لئے جگہ خالی کردوسرمدپر بھی یہی حالت طاری ہوئی اور جذب و جنون اس طرح چھایا کہ ہوش و حواس کے ساتھ تمام مال و متاع تجارت بھی غارت کردیادینوی تعلقات میںجسم پوشی کی بیڑی باقی رہ گئی تھی بالآخر اس بوجھ سے پائوں ہلکاہوگیاکہ پابندیاں تو مدعیان ِ ہشیاری کے لئے ہیں‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں