کب تک کوئی برداشت کرے ! 40

بہت دیر کی مہر باں آتے آتے !

بہت دیر کی مہر باں آتے آتے !

بہت دیر کی مہر باں آتے آتے ،مگر بالآخرمیاں نواز شریف چار سال بعد لندن سے پا کستان لوٹ رہے ہیں،میاں نواز شریف کئی اطراف سے ٹھوس ضمانتیں ملنے کے بعد ہی واپس آرہے ہیں،مسلم لیگ( ن) قیادت اور ان کے کارکنان بڑے جوش وخروش سے میاں نواز شریف کا استقبال کررہے ہیں ،ان سب کے چہرے کِھلے ہوئے ہیں، انہیں یقین ہے کہ اس بار ان کی ہی پارٹی میدان مار ے گی اور میاں نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے،انہیں ہلکا سا بھی شک نہیںہے کہ ایسا نہیں ہوگا،لیکن یہ سب بھول رہے ہیں

کہ اس کے لئے الیکشن کا معرکہ سر کرنا ابھی باقی ہے اورآئندہ الیکشن میں فیصلہ عوام نے ہی کر نا ہے کہ اقتدار میں کون آئے گااور کون وزیر اعظم بنے گا؟میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی یقین دہانی کے ساتھ واپس تو آرہے ہیں ، لیکن وہ عوام کے بدلے خیالات اور سوچ کے بارے میں بھی ضرورآگہی رکھتے ہوں گے،میاںنوا شریف کے بارے بتایا جاتا ہے کہ لندن میں بیٹھ کر بھی پاکستانی حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے رہے ہیںاوراپنے طور پر مختلف ذرائع سے کئی فیلڈسروے بھی کرواتے رہے ہیں،

انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سیاست میںکیا کچھ ہو چکا ہے اور اس کے کیا اسباب رہے ہیں؟ انہیں اپنوں کے ساتھ اپنی پارٹی کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ کس حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، میاں نواز شریف کو ساری یقین دہانیوں کے باوجود بہت سے چیلنجوں کابھی سامنا ہے ،اس میںسب سے بڑا چیلنج اپنے پرانے ووٹ بینک کو پھر سے جوڑنا اور اسے الیکشن ڈے پر استعمال کرنا ہے،لیکن یہ کام اب اتنا آسان نہیں رہا ہے، اردو محاورے کے مطابق اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔
اس وقت بہت کچھ بدل چکا ہے اور ان بدلے حالات میںمیاں نواز شر یف کو ایک نئے بیا نیہ کے ساتھ اپنی سیاست کو آگے بڑھانا ہے ،اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ چلے گا نہ ہی سیاسی مخالف بیانیہ عوام قبول کر یں گے ،عوام بیانیہ کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں،عوام صرف اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں،انہیں ملکی معیشت سے بھی زیادہ دلچسپی اپنی معیشت بہتر بنانے میں ہے،جبکہ نئی نسل پرانے سسٹم سے ہی بے زار ہے،

وہ نئے نظام کے تحت مہنگائی کا خاتمہ، روزگار کے بہتر جدید مواقع ،فوری بلا امتیاز انصاف کی فراہمی اور پولیس کچہری کے روایتی ظالمانہ معاملات سے آزادی چاہتے ہیں،لیکن یہ سب کچھ زبانی کلامی وعدوں اور دعوئوں سے ہو گا نہ ہی اس بار عوام کسی ایسے بیانیہ کے بہلائوئے یا بہکائوئے میں آتے دکھائی دیتے ہیں ۔
پا کستانی عوام آزمائے سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ،مگر فیصلہ سازوں نے ایک بار پھر فیصلہ کر لیا ہے کہ الیکشن کے بجائے سلیکشن کے ذریعے ہی لانا ہے ، اس لیے آئندہ الیکشن میں سلیکشن ہی کی گونج سنائی دیے رہی ہے اور کل تک دوسروں کو سلیکٹڈ کے طعنے دینے والے آج نہ صرف خود سلیکٹ ہونے کیلئے بے قراردکھائی دیتے ہیں، بلکہ اس کا سر عام بڑی ڈھٹا ئی سے اظہار بھی کررہے کہ سب کچھ پہلے ہی طے ہوچکا ہے ،اس ذہنیت کے ساتھ پاکستانی سیاست جتنی شدید پولرائزایشن کا شکار ہورہی ہے،

شاید اس قبل ایسی کبھی نہیں رہی ہے، اگر یہ صورتحال ایسے ہی چلتی رہی ہے اور اس صورت حال میں ہی الیکشن ہو تے ہیں تو اس کے بعد سیاسی تلخی اور عدم استحکام ختم ہو نے والا ہے نہ ہی سلیکٹڈحکومت زیادہ دیر تک چل پائے گی۔اس طرح ملک آگے چل سکتا ہے نہ ہی جمہوریت قائم رہ پائے گی ، اگرملک آگے چلانا ہے اور جمہوریت کو فروگ دینا ہے توسلیکشن کے ساتھ نفرت کی سیاست ختم کرنا ہوگی،بند کمروں کے بجائے عوام کی عدالت میں فیصلے کر نا ہوں گے ،اس کیلئے اہل سیاست کے ساتھ مقتدرحلقوں کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ،اس میں چوتھی بار وزیر اعظم کا خواہشمندپہل کر سکتا ہے

اور انتقامی سیاست کا دائرہ توڑسکتا ہے ،ملک میں سیاسی تقسیم کے بجائے مفاہمت کا ڈول ڈال سکتا ہے،کیا ہی اچھا ہو کہ میاں نواز شریف اپنے پہلے ہی عوامی خطاب میں کہیں کہ میرے مخالف کوجیل سے نکالو،اگر اب ایسا ممکن نہ ہو تو جب ڈیل کے مطابق اقتدار ملے تو پہلا کام یہی کریںکہ اپنے مخالف کو جیل سے نکال کر ان سے مفاہمت کریں، قومی مفاد میں مل کر آگے چلنے کی بات کریں ، اگر انہوںنے اب بھی ایسا نہ کیا تو ان کا اقتدار چلے گا نہ ہی ملک آگے چل پائے گا ،پھر ملک چلانے کوئی اور ہی آئے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں