مِٹی کے گھروندوں سے سوندھا رومانس ! 44

انتخابات سے ہی استحکام آئے گا !

انتخابات سے ہی استحکام آئے گا !

ملک میں عام انتخابات کا بگل بجنے لگا ہے ، انتخابات کے انعقاد پر ابہام کا خاتمہ ہونے لگا ہے، ایک طویل عرصے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے جارہاہے، گزشتہ روز چیف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں صدرِمملکت سے ملاقات میں آٹھ فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات کرانے پر اتفاق کر لیا گیاہے ،اس بارے سپریم کورٹ کو آگاہ کرنے کے بعد اُمید کی جارہی ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے منطوری کے بعدعام انتخابات کی تاریخ کاباقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارا آئین عام انتخابات کے بارے با لکل واضح ہے اور اس میں کسی قسم کے ابہام کے بغیر درج ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے نوے روز کے اندر الیکشن کرائے جائیں گے،اس پر ہر دور اقتدار میں عمومی طور ہر عمل ہوتا آیا ہے ،لیکن اس بار الیکشن کے معاملے کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے ،اس میں سب سے متنازعہ کردار الیکشن کمیشن کا ہی رہا ہے ،الیکشن کمیشن نے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نہ صرف بروقت الیکشن نہیں کرائے ،بلکہ صدر مملکت سے مشاورت سے انکار کے ساتھ سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی نظر انداز کرتے رہے ہیں ۔
اس ملک میں گزرے مہینوں کے دوران جو کچھ کیا جاتارہا اور جو کچھ ہوتا رہا ہے ،وہ جمہوری لحاظ سے پہلے سے داغدار تاریخ پر مزید دھبے لگا نے کا ہی سبب بنا ہے ،الیکشن کمیشن کا کام ہی آئین کے مطابق بر وقت انتخابات کرنا ہے ، لیکن وہ جس طرح صدر مملکت سے مشاورت سے انکاری اور انتخابات کے انعقاد میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ،وہ ناقابل فراموش تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اس چیف الیکشن کمشنر کو عوام حیرانگی سے دیکھ رہے ہیں کہ جو کل تک صدر مملکت سے ملنے کا روادار نہیں تھا ،

آج عدالت عظمیٰ کے حکم پر دوڑتے ہوئے جاکر نہ صرف صدر مملکت سے ملاقات کر لی ،بلکہ ان کی مشاورت سے آٹھ فروری کی تاریخ کا تعین بھی کر لیا ہے ۔اس میں کوئی خاص حیرت کی بات نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن کے رویئے میں اچانک انتہائی تبدیلی دکھائی دینے لگی ہے، یہاںپر سب ہی موقع کی مناسبت سے اپنے مفاد کیلئے گرگٹ کی طرح تنگ بدلتے ہیں اوراس پر زرابھی شر مندہ نہیں ہوتے ہیں ، یہ وہی الیکشن کمشنر ہیں کہ جو کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے ،اب وہی الیکشن کمشنر چیئر مین تحریک انصاف کی مقبولیت کے گن گارہے ہیں ،

یہ بدلتے وقت کے ساتھ رنگ بدلنے والے جو کچھ مرضی کرتے رہیں ،لیکن یہ معاملہ اب عدالت عظمیٰ کے سامنے ہے ، عدالت عظمیٰ کو چاہئے کہ اس بار ایسا فیصلہ جاری کرے کہ جس سے مستقبل میں الیکشن کمیشن سمیت کوئی بھی آئینی مدت سے راہ فرار اختیار نہ کر سکے ،عدالت کو تا خیر ی حربے اختیار کرنے والے کرداروں کو بھی سخت محاسبہ کر نا چاہئے ، اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ مستقبل میں بھی پا کستانی آئین و جمہوریت کے ساتھ ایسا ہی مذاق ہوتا رہے گا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں انتخابات کی مروجہ تاریخ دینے کی منطوری دینے کے ساتھ ادارتی کرادار بھی وا ضح کر دیا ہے

،سپریم کورٹ کا فیصلہ سیاسی تاریخ میں ایک سنہرا باب ہے ،اس فیصلے نے سیاسی بحران کی اندھری سرنگ سے نکلنے کی راہ سجھائی ہے ، اس فیصلے کی مدد سے ایک طرف انتخابات کے انعقاد پر چھائی دھند چھٹ گئی ہے تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں کیلئے مسائل سلجھانے کی راہ بھی دکھائی دینے لگی ہے ،اب سیاسی قیادت کو چاہئے کہ اس مسئلے کو مزید طول دینے کے بجائے وہی راستہ اختیار کرے

کہ جس کی جانب عدالت عظمیٰ نے رہنمائی کی ہے،ایک ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی پیچیدہ بحرانوں میںگھرا ہے ،سیاسی جماعتوں کو زیب نہیں دیتا ہے کہ باہمی اختلاف پر عمل انگیزی جاری رکھیں ، گزشتہ ڈیڑھ سال کی کھینچا تانی کے نتائج سب کے سامنے ہیں ، اس سے سیاست میں منفی نتائج ہی برآمد ہوئے ہیں ،سیاسی قیادت پر لازم ہے کہ اپنے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے جمہوری رویوں کو فروغ دیے

،تاکہ پرُامن دوستانہ ماحول میں شفاف منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جاسکے ، اگر ملک میں آزادانہ منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن کے لیے یکساں موقع بھی ملیں گے تو ہی الیکشن سے ملک میں استحکام آئے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں