خطرے کی گھنٹی 36

جمہوریت نہیں مہاپاپ

جمہوریت نہیں مہاپاپ

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

پاکستان ہی نہیں تیسری دنیا کے بیشتر پسماندہ ممالک کا حال تقریباً ایک جیساہے ایسے درجنوں ممالک میںلاکھوں قیدی جیلوںمیں بندہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں پھر ان قیدیوںکی اہلخانہ سے ملاقاتوں کی داستان ایک الگ کہانی ہے جس میں بے بسی ،۔اکثر ان کے بجٹ کو خوردبرد کرنے کی خبریں بھی اخبارات میں شائغ ہوتی رہتی ہیں

یعنی ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں کیونکہ یہ عام شہری ہیں جن کے حقوق کی آواز کوئی بلندنہیں کرتا کوئی صحافی ان قیدیوں کی حالت ِزارپر کوئی خبرفائل کرتاہے یا کسی ٹی وی چینل کر رپورٹ آتی ہے تو جیلر ناراض ہوجاتے ہیں حکومت کے سرسے پھر بھی کوئی جوںنہیںرینگتی لیکن جمہوریت کو ڈھال بنانے والوں کے سب گناہ اس لئے معاف ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی اسمبلی کے’’ معزز‘‘ رکن ہیں خواہ وہ بدترین خائن ہی کیوں نہ ہو۔ ٹیکس چوری، بجلی چوری۔ گیس چوری، منی لانڈرنگ،زمینوںپر قبضے

،شراب برآمدگی،ا خلاقی دیوالیہ پن سمیت مختلف نوعیت کے درجنوںمقدمات میں گوڈے گوڈے ملوث ارکان ِ اسمبلی کا کوئی کچھ نہیں بگا ڑ سکتا کیونکہ مقدس کتاب ۔۔اس ملک کاآئین ا شرافیہ کو ٹیٹرا پیک سے بھی زیادہ تحفظ فراہم کرتاہے ۔ اس حوالے سے جیلوں میں بند مختلف الزامات میں قید سیاستدانوں سمیت اپوزیشن اور حکومتی ارکان ِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کردئیے جاتے ہیں جو درحقیقت رہائی کا عارضی پروانہ ہوتاہے حتیٰ کہ منی لانڈرنگ اورکرپشن میں ملوث افراد کو پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا جاتا ہے۔

تیسری دنیا کے اکثرممالک میں طاقتور کیلئے قانون الگ اور غریب شہری کیلئے الگ قانون ہوتا ہے جیلوں میں اے کلاس اور پروڈکشن آرڈر لے کر پارلیمنٹ آجانے والے پاکستان میں ایک عام قیدی کے منہ پر طمانچے مار رہے ہیں کوئی تنقید کرے تو کہا جاتاہے جناب یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ جو لوگ پروڈکشن آرڈر لیتے ہیں، وہ بجٹ سیشن میں آئے اور زیرو ان پٹ دی جس کیلئے ان کو پروڈکشن آرڈر جاری کئے تھے، جیلیں عبرت کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ مجرم کے دل کی دھڑکن کو ٹھیک رکھنے کیلئے 21ڈاکٹرز کی ٹیم ہے جو ان کے دل کی دھڑکن کو دیکھتی ہے، یہاں الٹ کام ہے، ایک بیمار کیلئے سو انار ہیں لیکن وہ مطمئن پھر بھی نہیں ہیں۔ لیکن وہ کونسا مریض ہے؟ جو سری پائے اور ہریسہ کھاتا ہے،

یہ غذائیں دل کیلئے کسی صورت بھی مناسب نہیں ہیں اور حکومت کو ان کی صحت کا بڑا خیال ہے۔ اس کا مطلب ہے احتساب مزا دار چیزکانام ہے صورت ِ حال یہ بھی ہے کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ملزمان کیلئے خصوصی کمروںکااہتمام کیا جاتاہے جہاں ریفریجریٹر،ائرکنڈیشنڈ،ٹی وی اخبارکی سہولت میسر تھی جیسے وہ سسرال آئے ہوئے ہوں یہ سہولیات اس لئے بھی ہے کہ می آئی پی کرپٹ عناصرکو کچھ ہوگیا تو کہیں احتساب کرنے والے اداروںپر مدھا ہی نہیں پڑ جائے پاکستان میں تو باری باری اقتدارمیں آنے والے حکمرانوں آصف زرداری،میاںنوازشریف، شہباز شریف اور ان حلیف مولانا فضل الرحمن،MQMکے رہنمائوں،اور قوم پرست رہنمائوں کی د لی خواہش تھی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو ختم کر دیا جائے

ایسا نہ ہو سکے تو اسے سانپ سے کیچوا ہی بنا ڈالیں اس انہوںنے اصلاحات پر مبنی ترامیم بھی کرڈالیں لیکن چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے جاتے جاتے ان ترامیم کو کالعدم قراردے دیا جس سے کرپشن،منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے تمام کیس بحال ہوگئے یہ اگر بات کہ اب نیب نے ان تمام رہنمائوںکے خلاف زبان بند کرکے چپ سادھ لی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ نیب کو میاں نوازشریف کے دور سے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہاہے ویسے ہر اپوزیشن رہنما یہی واویلا مچاتاہے جس پر کہاجاسکتاہے کہ کچھ تو اس بات میں صداقت ہوگی کچھ لوگوں کا خیال ہے

گرفتاریوں سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ انہیں جلا ملتی ہے الزامات سے کوئی ڈاکو چور نہیں بنتا بلکہ چور ڈاکو عدالت سے ثابت ہوتا ہے۔بہرحال نیب کے نرغے میں آئے ملزمان موجودہ حکومت کے دوران مزے میں ہیں کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں اب یہ کیا ہورہاہوگا یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہاجاسکتا یہ ادارہ اگر غیرجانبدار ہو ا ن سے مکا مکا نہ ہو یا این آراو نہ ملے تو نیب ملزمان کا انجام عبرتناک ہوسکتاہے سیاست میں تو کہاجاتاہے کہ پہلے مخالف کو خوب ڈرایا جاتاہے وہ نہ ڈرے تو ڈرانے والا خودڈرجاتاہے

اب تلک کی پاکستانی سیاست تو یہی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںلاکھوں قیدی جیلوںمیں ہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں لگتاہے

اب ان قیدیوںکی سنی گئی ہے اب حالات بدل رہے ہیں پاکستان میاں نواز شریف یاعمران خان کی کوششوںسے کتنا بدلا ہے سب جانتے ہیں۔ ویسے ملک بھرکی جیلوں میں بند کرپشن کے ہزارو ں ملزمان کوبھی ریلیف ملناچاہیے کہ ان کے جرائم تو معمولی ہیں جبکہ ا ربوں،کھربوں کی کرپشن کرنے والوںکو کوئی نہیں پوچھتا ویسے حکومت جیلوںمیں بند لاکھوں قیدیوں کی صحت، خوراک اور اصلاح کے لئے کچھ اصلاحات کرے تو معاشرے میں جرائم کم ہونے میں مدد مل سکتی ہے سارا ریلیف اور وسائل نیب زدہ سیاستدنوں پر صرف کرنا جمہوریت نہیں مہاپاپ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں