خطرے کی گھنٹی 42

عوام کی شامت

عوام کی شامت

جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی

پاکستانی عوام شاید دنیا کی واحدقوم ہے جن کے مقدر میںہمیشہ سیاسی افراتفری، معیشت کا عدم استحکا م، خوفناک مہنگائی اورٹیکسز کی بھرمار ہے یہ عوامل عوام کادھڑن تختہ کرکے رکھ دیتے ہیں اور حکمران مزے میں رہتے ہیں موجودہ نگران حکومت کو جمہوری حکومتوںجیسے مسائل کا سامنا ہے نہ کوئی چیلنجز درپیش راوی چین ہی چین لکھ رہاہے اور سب سے بڑھ کر اس حکومت بھی کی کوئی اپوزیشن بھی نہیں ہے واحد اپوزیشن جماعت تحریک ِ انصاف کے رہنمائوںکو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور پارٹی اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہے اس کے باوجود معیشت ،سیاست جمہوریت مسلسل تنزلی کی طرف گامزن ہے حکمران سارا زور ٹیکسز اور سیاسی مخالف کو دبانے میں لگارہے ہیں

لیکن حالات بتاتے ہیں وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے خدشہ ہے کہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورانہ ہوسکا تو پھر عوام کی شامت آجائے گی جس کا ٹریلر چلنا شروع ہوچکاہے کہ حکومت پر دبائو بڑھتا جارہاہے کہ نان فائلز کے یوٹیلٹی کنکشنز کاٹ دئیے جائیں اور ان کیلئے موبائل کی سہولت ختم کردی جائے ایسا نہ کیا گیا تو حکومت ایک بارپھر IMFسے قرضہ لینے کے لئے ترلے منتیں کرنے لگے گی یا پھر حکومت نظام کو چلانے کے لئے عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے ہرحکومت بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کرکے اس تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتی ۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے

تو معلوم ہوگا واحداپوزیشن تحریک ِ انصاف کی مقبولیت دن بہ دن بڑھنے سے مخالفین کے ہاتھوںکے طوطے اڑ گئے ہیں اوپرسے ہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں اب اس بحران سے نکلنے کا یہ حل تجویز کیا جارہاہے کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے الیکشن ہی ملتوی کردئیے جائیں اشیائے خوردونوش اور فروٹ کے نرخوںمیں مسلسل اضافہ دیکھ کرلگتاہے پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیزنہیں ہے ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنراور افسروںکی فوج ظفرموج کے باوجود عوام کا کوئی پرسان ِ حال نہیںآخرانتظامیہ کسی مرض کی دواہے ۔ کوئی ہے اس سوال کا جواب ۔ کسی کے پاس؟؟؟ جائزہ لیا جائے

تو ایک بات نتیجے کے طور پر سمانے آتی ہے کہ ہمیشہ سیاسی افراتفری کے دوران قیامت خیز مہنگائی ہو جاتی ہے پھر عام آدمی اس بوجھ تلے دب کرچوں بھی نہیں کر سکتا بجلی ، اور پٹرولیم مصنو عات کی قیمتیں جب بھی بڑھتی ہیں بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آ جاتاہے جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں مختلف حیلوں بہانوں سے عوام سے پیسے بٹورے جا تے ہیں

اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے ہرروز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گراںفروش حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں حکومت کی طفل تسلیاں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا

دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے

اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی یقینا ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں لیکن ا گرسال بھر پھر کوئی منی بجٹ نہ لایا جائے تو مسائل کے مارے لو گ خو شی سے نہال ہو جائیں گے وگرنہ سارا سال عوام کی شامت آئی رہتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں