مستقبل کے راستے کا انتخاب ! 38

سوچ بدلنا ہوگی !

سوچ بدلنا ہوگی !

عام انتخابات جوں جوں قر یب آرہے ہیں ، اہل سیاست کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے ہیں ، ہر کوئی ایک دوسرے کو گلے لگارہا ہے ، ہر کوئی نئے اتحاد بنا رہا ہے اور ہر کوئی خود کو رویتی سیاست الگ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے ، اس میںبلاول بھٹو زرداری کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے ہیں ، بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام سیاستدانوں کو ہی بڑے قریب سے دیکھا ہے، اس ملک میں کسی سیاسی جماعت کی قیادت کے ہاتھ صاف نہیں ہیں ، صرف میرے ہاتھ اور دامن صاف ہے،اس لیے کسی اورسے نہیں، عوام سے ہی مدد مانگتا ہوںکہ ہمارا ساتھ دیں تاکہ ملک کو درپیش بحرانوں سے نجات دلائی جا سکے،جبکہ ان سارے ہی بحرانوں کے ذمہ داروں میں خود بھی شامل رہے ہیں۔
اس ملک میں ایک دوسرے کو مود الزام ٹہرانے کی بات پہلی بار ہورہی ہے نہ ہی ملک کو درپیش بحرانوں سے نجات دلانے کی دعوئے پہلی بار کیے جارہے ہیں ،لیکن بلاول بھٹوزرداری نے جو کچھ کہاہے ، یہ بڑی ہی جرأت کی بات ہے،یہ جرأت کی باتیں میاں نواز شریف بھی کررہے ہیں ، وہ بھی پو چھ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکلا گیا اور نکالنے والوں کے نام لے کر پلڑے برابر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ،

محاسبے کی بات کررہے ہیں،یہ سب باتیں جرأت دینے والوں کی ہی جرأت سے ہو رہی ہیں ، اگر وہ نہ چاہیں تو کوئی سوال کر سکتا ہے نہ ہی کوئی جواب دینے کی جرأت کرسکتا ہے ،یہ مجھے کیو ں نکلا اور میرے ہاتھ صاف ہیں کا بیانیہ اُن کی ہی اجازت و مرضی سے ہی بنایا اور سنایاجارہا ہے ۔
یہ سب کچھ انتخابی مہم کا ہی حصہ ہے اورہر انتخابات پر ایسے ہی بیانیہ بنائے جاتے رہے ہیں ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے، میاں نواز شریف کے بیانیہ سے جہاں شہباز شریف بخوبی آگاہ ہیں ،وہیں بلاول بھٹو زرداری بھی سب کچھ آصف علی زرداری کے ہی مشورے سے کررہے ہیں، انہوں نے ایسے ہی نہیں کہہ دیاہے کہ انہیں گیٹ نمبر چارکی سیاست نہیں کرنی ہے اور عوام کی سیاست پر ہی یقین رکھتے ہیں،

بلاول بھٹو سب کچھ جانتے ہوئے انجان بن رہے ہیں ، لیکن آصف علی زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں گیٹ نمبرچارکی سیاست کتنی اہمیت رکھتی ہے،اس سیاست کا حصہ بنے بغیر کوئی اقتدار میں آسکتا ہے نہ ہی اقتدار میں زیادہ دیر تک رہ سکتا ہے۔یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں ، بلاول بھٹو زرداری ہی نہیں جانتے ہیں، اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا،ورنہ کون نہیں جانتا ہے کہ مسلم لیگ( ن ) اورپیپلز پارٹی قیادت ہمیشہ سے ہی گیٹ نمبرچار کے زر سائیہ سیاست کرتے رہے ہیں اور ان کے ہی مرہون منت ا قتدار کی باریاں لیتے رہے ہیں

،اس بار بھی ان کے ہی زیر سائیہ اقتدار کی دوڑ میں شامل ہورہے ہیں اور عوام کو بے وقوف سمجھا جارہا ہے کہ عوام کچھ جانتے ہیں نہ ہی شعور رکھتے ہیں ، عوام باشعور ہیں اور سب کچھ جانتے ہیں ، میاں نواز شریف اور آصف علی زردار، بلاول بھٹو زرداری سے مل کر جتنا مرضی ایک کے بعد ایک نیا بیا نیہ بناتے رہیں ، مجھے کس نے کیوں نکلا کی گران کرتے رہیں اورا پنے صاف ہاتھ دیکھاتے رہیں ، لیکن عوام کسی بہلائوئے اور بہکائو میں آنے والے ہیں نہ ہی آزمائے کو آزمانے والے ہیں ۔
یہ ہماری بد نصیبی رہی ہے کہ چوبیس کروڑ کی آبادی ہونے کے باوجود نئے چہرے ہی سامنے نہیں آرہے ہیں، جنہوں نے سامنے آنے کی کوشش کی ہے اور قوم کی اُمنگوں کو جگانے میں کا میاب رہے ہیں ،وہ اہم لو گوں کے ناپسندیدہ ہو گئے ہیں ،اب عوام کے سامنے عوام کی مرضی کے خلاف جوکچھ بھی ہورہا ہے، بے بسی سے دیکھ ہی سکتے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں ، اگر کچھ کہنے اور کچھ کر نے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں دبا یا جاتا ہے ، زور زبر دستی خاموش کریاجاتا ہے،لیکن ایسا کب تک چلے گا ،

عوام بیزار ہوتے جارہے ہیں ،انتہائی مایوس ہوتے جارہے ہیں،عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہاہے ، عوام کی آخری اُمیدیں انتخابات سے ہی جڑی ہیں،عوام کی نظریں عام انتخابات پر ہی لگی ہیں ، اگر انتخابات شفاف غیر جانبدارانہ ہوئے نہ ہی عوام کے فیصلے کو مانا گیا تو اس کے نتائج انتہائی برے نکلیں گے ، اے کاش اہل سیاست حصول اقتداکی سوچ سے باہر نکلیںاور طاقتور حلقے اپنی ضد وانا چھوڑ کر قومی ،عوامی مفاد کو ہی ترجیح دیں اور عوام کو اپنے فیصلوں میں شامل کریں،نگران وزیر اعظم بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ خود کو بدلنا ہوگا ،مل بیٹھ کر معالات کا حل نکالنا ہو گا ،اس ملک میں جب تک سب کی سو چ نہیں بدلے گی ،ملک بحرانوں سے نکلے گا نہ ہی عوام کے مسائل کبھی حل ہوپائیںگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں