عوام فیصلہ کر چکے ہیں !
ملک میں انتخابی مہم زور پکرنے لگی ہے ، ایک بار پھر زور شور سے ایک دوسرے کو مود الزام ٹہرایا جانے لگا ہے ،ایک بار پھر سلیکٹڈ کی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں، چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ رائیونڈ کا وزیر اعظم کوشش کر رہا ہے کہ اُسے چوتھی بار سلیکٹ کیا جائے،یہ تین بار ناکام ہونے والا اب چوتھی بارکون سا تیر مار ے گا،ہمیں پتہ ہے میاں نواز شریف چوتھی بار آکر بھی کچھ نہیں کرپائیں گے،
یہ پھر اُن ہی سے پنگالیں گے جو انہیں دو تہائی اکثریت دلوائینگے،یہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والے، اب ووٹ کی بے عزتی نہ کریں، ایک بار الیکٹ ہو کر آجائیں تو مان جائونگا،اگر چوتھی بار بھی سلیکٹ ہوئے تو کوئی نہیں مانے گا۔
اگر دیکھا جائے تو اس ملک میں کوئی ایک نہیں،ہر ایک ہی طاقتوروں کی آشیر باد لینے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف بازی لے جانے کی کوشش کرتا رہا ہے ، ایک دوسرے کوہی مود الزام ٹہراتے رہا ہے،ایک دوسرے کو ہی سلیکٹڈ کہتا رہا ہے، اس بار بلاول بھٹو زرداری بھی میاں نواز شریف پر سلیکٹڈ کا لیبل لگا رہے ہیں ،جبکہ میاں نواز شریف کابھی کہنا ہے کہ ایک سلیکٹڈ کو لانے کے لئے ہی مجھے نکالا گیا تھا ، کیا
یہ لانے اور نکالنے کا سلسلہ سیاست دانوں کی شرکت کے بغیر ہی ہوتا رہا ہے،ایسا نہیں ہے ،تاریخ بتاتی ہے کہ سیاست دان نہ صرف خود ہی تقسیم ہوتے رہے ،بلکہ انہوں نے سیاست کو بھی تقسیم کیے رکھا ہے، یہ خود چلے ہیں نہ ہی کسی دوسرے کو چلنے دیا ہے، اب بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، یہ ایک دوسرے پر سلیکٹڈکی طعنہ زنی کی جارہی ہے ،لیکن یہ سلیکٹڈ کی دھائی دینے والے خود سب سے زیادہ سلیکٹڈبننے کیلئے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔
اس ملک میں ایک عرصے سے سلیکٹڈ بننے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور اس دوڑ میں ہرکوئی کا میابی کیلئے سارگرداں دکھائی دیتا ہے ،کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ سلیکٹڈبنے بغیر اقتدار میں آسکتے ہیں نہ ہی اقتدار میں رہ سکتے ہیں ، اس لیے ایک دوسرے پر طعنہ زنی سے لے کر ساری اچھی باتوں تک محض عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہی کی جا رہی ہیں ، اس حولے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن ) قائدین دونوہی بہت اچھی باتیںکر رہے ہیں،
دونوں کی ہی جانب سے پو چھے جانے والے سوالات بہت اہم اور تلخ حقائق پر مبنی ہیں،مگر اْنہیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ تین تین بار حکومت میں آنے کے باوجودسیاست اور جمہوریت طاقتور نہیں بنا سکے ہیں،اگر آج سیاست اور جمہوریت مضبوط ہوتی تواہل سیاست اتنے بے توقیر نہ ہوتے ،جتنا کہ آج دکھائی دیے رہے ہیں۔
ہمارے اہل سیاست کو اپنی بے توقیری سے زیادہ اپنے حصول اقتدار کی ہی فکر رہی ہے ، اس لیے لاکھ بے توقیری کے باوجو لاڈلہ بننے کے ہی خواہش مند دکھائی دیتے ہیں ، یہاں کبھی بھٹو لاڈلا بنا تو کبھی زرداری تو کبھی نواز شریف اور شہباز شریف لاڈلا بن کر آتا رہا ہے، ان سب لاڈلوں کو لانے اور نکالنے کا طریقہ بھی وہی پرانا ہی رہا ہے، لیکن اس سے سبق سیکھنے کے بجائے پرانا سبق ہی دہرائے جا رہے ہیں،یہ لاڈلہ بن کر اقتدار میں آنے سے پہلے بڑی آئین و قانون اور عوام کی باتیں کرتے ہیں
،لیکن انہیں اقتدار میں آنے کے بعد عوام اور آئین میں سے کچھ بھی یادنہیں رہتا ہے،اپنے دور اقتدار میں انہیں صرف اپنا اقتدار ہی نظر آتا ہے، آئین اور قانون پر کوئی عمل کرتا ہے نہ ہی عوام کا خیال کیا جاتا ہے ، آئین وقانون اور عوام کی باتیں اقتدار جانے کے بعد ہی سب کو یاد آتی ہیں،جیساکہ میاں نواز شریف کو یاد آرہی ہیں،انہیں پہلے دودھ پانی ایک دکھائی دیتا تھا اور اب دودھ پانی واضح طور پر الگ ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔
اہل سیاست کو زرا اپنے روئیوں پر نہ صرف غور کرنا ہو گا ،بلکہ اپنی سوچ کو بھی بدلنا ہو گا،یہ جب تک دوسروں کے لاڈلے بننے کے بجائے عوام کے لاڈلے بننے کی کوشش نہیں کریں گے ، یہ جب تک دوسروں کی جانب دیکھنے کے بجائے عوام کی جانب نہیں دیکھیں گے ، یہ جب تک بند کمروں کے فیصلوں ماننے کے بجائے عوام کی عدالت میں جاکر عوام کے فیصلوں نہیں مانیں گے ، ایسے ہی بے توقیری کے ساتھ رسوا ہوتے ہی رہیں گے
،اہل سیاست جتنا مرضی خود کو معصوم بنا کر عوام کے سامنے پیش کرتے رہیں ،جتنا مرضی مجھے کیوں نکلا کی دھائی دیتے رہیں ، جتنامرضی ڈیل اور ڈھیل کی بنیاد پر عدالتوں سے بری ہوتے رہیںاور جتنا مرضی ملی بھگت سے اچھے برُے کا کھیل کھیلتے رہیں، عوام جانتے ہیں کہ یہ قصوار ہیں اور انہوں نے نہ صرف ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ،بلکہ اس نہج پر بھی پہنچادیاہے کہ جہاں سے نکال کر آگے لے جانا،آزمائی قیادت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔
یہ بات سب ہی جان چکے ہیں کہ عوام آزمائی قیادت سے نجات چاہتے ہیں ،مگر عوام کو ایک بار پھر مجبور کیا جارہا ہے کہ آزمائے کو ہی آزمایا جائے ، انتخابات کے نام پر انتخاب ہوئے کو ہی قبول کیا جائے ،اس بند کمرے کے فیصلے کو منوانے میں نگران حکومت کے ساتھ الیکشن کمیشن کا جانبدارانہ کردار بھی بالکل واضح طور پردکھائی دیے رہا ہے ،اس کے باوجود کیسی بے بسی ہے کہ کوئی کچھ کر ہی نہیں پارہا ہے
،اگر کوئی آواز اُٹھاتا ہے تو پا بند سلاسل کر دیا جاتا ہے ،کوئی احتجاج کرتا ہے تو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے ، یہ ظلم و جبر اب زیادہ دیر تک چلنے والا ہے نہ ہی عوام خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتے رہیں گے، اس بار عوام انتخاب کے نام پر ہی سہی ، ایک بارانتخابات ہونے کے منتظر ہیں ، اس الیکشن میں ہرسلیکشن کو مسترد کرکے عوام بتانا چاہتے ہیں کہ کوئی کچھ بھی کرلے ، عوام فیصلہ کر چکے ہیں کہ اس بار اُن کا ہی لاڈلہ آئے گا اور اُن کا ہی فیصلہ مانا جائے گا