52

دور رس نتائج والی حکمت عملی ہی سے،عالم پر،حکمرانی کے خواب، بنے جاسکتے ہیں

دور رس نتائج والی حکمت عملی ہی سے،عالم پر،حکمرانی کے خواب، بنے جاسکتے ہیں

نقاش نائطی
۔ +966562677707

چائینا روڈ ٹرانسپورٹ فلائی اوؤر کی جادوئی بھول بھلیاں چائینا روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے، اپنے ملک کے دیگر شہروں میں مختلف راستوں پر دوڑتی ٹریفک کو، بیسیوں سگنل پر روکتے ہوئے، لاکھوں گاڑیوں کے کروڑوں ‘کام کے لمحات’ ورکنگ ھاورس کو بچاتے ہوئے،ملکی ترقی پزیری کی رفتار کو بڑھانے کے لئے،سڑکوں پر ایسے ایسے الجھے ہوئے، ایک دوسرے پر سے گزرتے، فلائی اوؤرس کے ایسے مکر جال تعمیر کئے ہیں کہ انہیں دیکھتے ہوئے، مستقبل میں، عالم کی رہبری کی، چائینا کی کوششیں اور اس کے،ان کہے ہوئے

دعوے کو،نکارا نہیں جاسکتاہے۔ خصوصا اپنے معشیتی و حربی حریف ملک ، عالم کے موجودہ سربراہ،صاحب امریکہ کو، اپنے مکر جال میں پھنسائے، اسے معشیتی و حربی طور تاراج کرنے،دور رس نتائج والی حکمت عملی کے ساتھ، ایران سے معشیتی و حربی طور عقد شراکت قائم کئے، ایران کو آگے کئے

، خود صاحب امریکہ ہی کے،مسلم امہ،خصوصا عربوں کو، اپنے دام الفت میں پھنسانے، چارہ کے طور استعمال کئے،سابقہ پچھتر سالوں سے، التوا میں رکھے،عرب اسرائیل ان سلجھے تنازع کو ہی، اپنے ملکوں میں تعمیر کئے فلائی اوؤر مکر جال کی طرح ،اسی فلسطین اسرائل تنازع کو،صاحب امریکہ کو پھنسانے، اپنے مکر جال میں پھنسائے جیسا، حالیہ تنازع میں، فلسطینی حریت پسند، جہادی جذبات سے سرشار حماس مجاہدوں کے ہاتھوں، عالمی سطح کی پانچویں بڑی حربی قوت اسرائیل و عالم کی سب سے بڑی حربی قوت صاحب امریکہ کو، خود انکے، اپنے دفاع کے لئے، مچلتے کسمساتے،

انہیں لاچار چھوڑے منظر نامے کو دیکھ کر،یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں لگتا ہے کہ، عنقریب عالمی حربی و معشیتی سربراہ، صاحب امریکہ کا نہ صرف زوال شروع ہوچکا ہے،بلکہ عنقریب سکوت استنبول ترکیہ خلافت عثمانیہ پر سو سال،جو کہ آسمانی اعداد و شمار مطابق دنیوی مہینوں کے برابر بھی نہیں ہوا کرتے ہیں، عقد لؤزین پر سو سال بیتتے، ان کچھ سالوں بعد ہی، خلافت اسلامیہ(عثمانیہ) نشاط ثانیہ کی شروعات ہوتے ہوتے، انشاءاللہ عنقریب عالم کے سماں پر، اسلامی حکمرانی کے،

باد نسیم کے سرور افروزجھونکے،چلنے والے ہیں، اس کے آثار نظر آنےلگے ہیں۔ لیکن افسوس ہوتا ہے دنیا کے مختلف حصوں ملکوں میں آباد منجملہ ہم 200 کروڑ مسلمانوں میں دو تہائی سے زیادہ ہم سنی مسلمانوں کی کثرت تعداد باوجود، اور خصوصاً پیٹرول دولت سے مالامال عرب ممالک،اپنی تعیش پسندی،اتنےبدمست ہو چکے ہیں کہ، انہیں عالم کے دوتہائی یہود ہنود و نصاری اور چائنیز ممالک میں آباد لا مذہبی ملحدین تک دین اسلام کی عملی دعوت عام کرنے، یہود و نصاری عالمی سازش سے، سو سال قبل ختم کئے گئے

،خلافت عثمانیہ طرز، اسلامی بلاک قائم کرنے کی فکر سے آزاد، انہیں یہود و نصاری اسلام دشمنوں کے اشاروں پر، آپس ہی میں الجھتے، اپنی وقعت کھوتے،جہاں ہم عالم کے سنی مسلمان پائے جاتے ہیں،وہیں پر آج سے 44 سال قبل 16 جنوری 1979 شاہ محمد رضا پہلوی کے ہوائی جہاز میں بیٹھ، ایران سے ہمیشہ کے لئے چلے جانے کے بعد سے، قائم ہوئی شیعہ ایرانی حکومت نے، اسلام دشمن یہود و نصاری اور انکےاشاروں پر ناچتے،ان عرب شاہان کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود، قدرت کے اس اصول مصداق ،کہ اللہ اپنے بندوں سے کچھ اسی طرح مدد و نصرت کرتا پایا جاتا ہے جیسا کہ اسکے بندے اس سے حسن ذن یا گمان رکھتے ہیں۔ اور یقینا رزاق دو جہاں محنت کرنے والوں کی محنت کو،رائیگان جانے نہیں دیتے ہیں۔
اپنے نبی آخرالزمان محمد مصطفیﷺ پر نازل کئے گئے حکم خداوندی ،قرآن مجید کی شروعاتی پہلی اور دوسری آیت کریمہ میں، پہلی آیت، حکم تحکمی پڑھنے کا کہتے ہوئے، کہ “پڑھ اپنے رب کے نام سے،جس نےانسان کو خون کے لوتھڑے سےپیدا کیا” کہتے ہوئے، اسرار رموز ارض و سماوات،بحر و صحرا و غابات، درند و چرند و پرند، و دیگر مخلوقات،نیز شمش و قمر و نجوم فلکیات کے، ارض و انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات کا علم ، قرآن مجید کے علم ہی کی روشنی میں حل کرنے کا حکم ربانی دیا گیاتھا۔

آور اس آیت کریمہ کے نزول کے چودہ پندرہ سال بعد، مقام حرب بدر، اسیران کفار مکہ کو،اس وقت کے حربی اوصول مطابق تاوان لئے، آزاد کرنے یا انہیں قتل کئے جانے کے صحابہ کے دو مختلف آراء کے درمیان،جوجو اسیران مکہ، جس جس ہنر و علم کے جاننے والے ہیں،اس علم کو، اہل مدینہ میں منتقل کر، آزاد ہونے اور علم و ہنر سے ماورائیت کی صورت تاوان دئیے آزادی پانے کا جو، تدبر وتفہم سے لبریز، فیصلہ آپ ﷺ نے، اس وقت دیا تھا، ہم مسلمانان عالم کو کیا پیغام دےجاتا ہے؟ کیا اسیران مشرکین مکہ سے، قرآن و حدیث یا عربی زبان کے اسرار و رموز جاننے کا حکم نبی آخرالزمان ﷺ نے دیا تھا؟

یا ان سے علم و ہنر حرب تلوار بازی تیر و نیزہ بازی کے اسرار رموز کو جاننا مقصود تھا؟ کیونکہ اسیران مشرکین کفار مکہ میں، بڑے بڑے تجربہ کار سالار و جرنیل حرب موجود تھے۔اس وقت کے حساب سے تیر و تلوار و نیزہ بازی کا ہنر سکھانے اور سیکھنےکا حکم تھا، تو آج کے دور کے حرب جدید کے ساز و سامان، میزائل و ڈرون سازی کا سیکھنا یا حاصل کرنا امت مسلمہ کے لئے کیا ضروری نہیں ہے؟ اس پر امت مسلمہ، اجمالی طور، اس وقت حرب بدر بعد والے،حکم رسولﷺ پر،آج بھی عمل پیرا رہنا، کیا ضروری سمجھتی بھی ہے؟ پھر کیوں سعودی عرب قطر دوبئی اومان سمیت پیٹرو ڈالر سے مالامال عرب ممالک میں، میزائیل و ڈرون سازی پر تحقیق و صنعت سازی اب تک نہیں کی گئی ہے؟

برج العرب جیسی عالمی اعزاز والی آسمان چھوتی عمارتیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھاتی، اس سے بھی بازی لے جانے والی تفخر آمیز اونچی اور بڑی ریکارڈ ساز عمارتوں کی تعمیر ہی کے لئے، خالق کائینات نے،کیا سرزمین عرب کے نیچے،پیٹرول کی ندیاں بہائی ہیں؟ یہ تو اچھا ہوا،شیعی مسلمان ملک ایران نے، اللہ کے رسول ﷺ کے، اس حکم مابعد حرب بدر،میزائل و ڈرون سازی پر، سابقہ کچھ سالوں سے، محنت کرتے ہوئے، ایک حد تک اس میزائل و ڈرون سازی پر یکتائیت حاصل کی ہوئی ہے،بلکہ اندرون خانہ ایٹمی حرب سازی مقام مہمیز پر پہنچ بھی چکا ہے، اب اسکے،ایٹم سازی یکتائیت اظہار عالم،کچھ دنوں کی بات ہوکر رہ گئی ہے

۔ اپنے ایٹمی استعداد کا اخفا، یہود و نصاری، اسلام دشمنوں کی عالمی سازشانہ قانون سازی ہے ،جس کی رؤ سے وہ اسلام دشمن کفار و مشرکین ہم مسلمانوں کو، عالمی معیار،حرب سازی سے مانع رکھے، انہی کا اسیر و غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے موقع پر، اپنے ایک برادر مسلم ملک ایران کے، میزائیل و ڈرون سازی کے ساتھ ہی ساتھ، ایٹم سازی صنعت میں بھی، یکتائیت حاصل کئے جانے پر،ہمیں خوش ہونا چاہئیے تھا، لیکن ہم نہ صرف ناخوش ہیں، بلکہ اپنی ناراضگی کا برملا اظہار،”ایران نے سنی فلسطینیوں کو بھی، حربی مدد کے بہانے شیعی تفکر میں ڈھال دیا ہے” برملا اظہارکرتے ہوئے، ایران کے خلاف لب کشائی کرتے پائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ہمارے قلب و ذہن میں،یہ سوال ہمہ وقت کلبلاتا رہتا ہے

کہ کیا، ایرانی شیعہ مسلمین داخل ہیں یاخارج اسلام؟ اس کا فیصلہ تو جمہور علماء وقت ہی کرسکتے ہیں۔ اور ابھی تک جمہور علماء حق کے، شیعیان ایران کو،کافر قرار دئیے، کسی بھی فتوے سے، ہم ابھی تک نابلد ہیں۔ اس لئے ہم انہیں داخل اسلام اپنا اسلامی بھائی ہی تسلیم کرتے ہیں،اور یہود و ہنود و نصاری کے عالمی، اسلام دشمن گٹھ جوڑ کے خلاف،انکے کسی بھی حربی عمل کو، ہم تحسین کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔

اور جہاں تک مسئلہ فلسطین و اسرائیل کا تعلق ہے،یہ اب ہم مسلمین عالم کے ساتھ ساتھ،ھندو و مسیحی نیز یہود کی اکثریت بھی، اس حقیقت سے روشناس ہوچکی ہے کہ غاصب فلسطین، شدت پسند زائینسٹ یہودی ہیں،جو سابقہ پچھتر سالوں سے، انہیں اپنے ملک فلسطین میں آباد ہونے، ممکنہ مدد و نصرت کرنے والے فلسطینیوں ہی کے خلاف، ظلم کی انتہا روا رکھے ہوئے ہیں۔ اور جب جب بھی انسانیت پر ظلم اپنی انتہا پر پہنچتا ہے تب غیبی مدد، ان تک پہنچتے،کل کے مظلوم قوت پاتے ہوئے، ظالم پر برتری حاصل کرلیتے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم و انبساط سے نجات دلانے کبھی سنی مسلم شاہان نے،کما حقہ مدد نہیں کی تھی، بلکہ ہمیشہ اسرائیلی ظلم بعد،بربادہوئے فلسطینیوں کی باز آباد کاری ہی کو، مدد و نصرت کا اصل منبع مانا ہے۔
اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ عالمی یہود و نصاری اسلام دشمن سازش کنندگان کی ہمہ وقت ریشہ دوانیوں سے تنگ آئے، شیعی ایرانیوں نے، اپنے ازلی دشمن امریکی مسیحی حکمرانوں سے، حتمی جنگ دو دو ہاتھ آزمانے سے قبل ، امریکہ کے دیرینہ دشمن روس و چائینا سے حربی اتحاد کر عرب وفارس علاقوں پر اپنی برتری کو، ایران نے ثابت کیا ہے۔ ایسے میں اگر واقعتاً مستقبل میں اپنی حربی طاقت کے زعم میں ایرانی حکمران، سنی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل پائے جاتے ہیں

تو، ہمیں تو اپنے مالک دوجہاں کے خود اسکے قرآن مجید میں کہے،اسی کے قول، “دنیا والوں کی تدبیروں پر اسکی (اللہ کی) تدبیر ہمیشہ لاثانی ہی ثابت ہوتی ہے” ہم اہنے رب کی تدبیروں پر بھروسہ کرتے تا قیامت اس دین قیم کے باقی رہنے کو مانتے ہیں۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں