قومی سلامتی کے دفاع کا عزم ! 86

انتخابات میں التوا کا کوئی امکان نہیں !

انتخابات میں التوا کا کوئی امکان نہیں !

ملک میں ایک عجب سا ماحول ہے ، ایک طرف انتخابات کے التوا کی کائوشیں اپنے زوروں پر ہیں تو دوسری جانب ایک پارٹی کو اقتدار میں لانے ا ور دوسری کو انتخابات سے نکلنے کیلئے ہر جائزو ناجائز حربے استعمال کیے جارہے ہیں ،تاہم دوسروں کے سہارے انتخابات میں کا میابی کی اُمید رکھنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ فریقِ مخالف کو میدان سے نکال کر حاصل کی ہوئی کامیابی انکے گلے میں کانٹوں کا ہار بن کر لٹک بھی سکتی ہے،اس لیے تمام سیاسی جماعتیں جو جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہیں

،انہیںساری ہی جماعتوں کیلئے ہموار سیاسی میدان کی فراہمی کا تقاضا کرنا چاہیے نہ کہ ایک سیاسی جماعت کے انتخابی عمل سے اخراج پر بغلیں بجانی چاہئے ،ملک میںسیاسی ماحول میں استحکام اور رواداری کے فروغ اور نفرت انگیزی کے سد باب کیلئے ضروری ہے کہ بروقت شفاف آزادانہ انتخابات کا انعقاد کریا جائے

،لیکن ایسا کچھ ہو تا دکھائی نہیں دیے رہا ہے، یہاں پربروقت الیکشن کرانے کے بجائے ایوان بالا سے الیکشن ملتوی کرانے کی قرار داد منظور کرائی جارہی ہے۔اگر چہ سپریم کورٹ پہلے ہی قرار دیے چکی ہے کہ آٹھ فروری کو ہی جنرل الیکشن کا انعقاد پتھر پر لکیر ہے اور عدالت عظمیٰ عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی پشت پر کھڑی ہے ، الیکشن کمیشن ، نگران حکومت اور تمام قومی ادارے بھی صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے سر گرم عمل ہیں ،اس صورتحال میں بظاہر الیکشن کے التوا کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے

،لیکن اس کے باوجودایوان بالا میں الیکشن ملتوی کرانے کی قرار داد پیش ہوئی ،جیسے فوری طور پر منظور بھی کر لیا گیا ،کیا ہی اچھا ہو تا کہ یہ قرار داد سینٹ میں نا منظور کی جاتی ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ، واہاں بیٹھے سب ہی ارکان نے قرار داد منطور کرانے میں اپنا اپنا بھر پور کر دار ادا کیا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ یہ قرار داد ایسے ہی نہیں لائی گئی ہے ، یہ کسی اشارے کے تحت ہی لائی گئی اور کسی اشارے پر ہی منطور ہوئی ہے ، لیکن اب کوئی ماننے کو تیار ہے نہ ہی کوئی ذمہ داری لے رہا ہے ، ہر کوئی اپنا دامن بچانے میں ہی لگا ہے ، پیپلز پارٹی ارکان کے بارے کہا جارہا ہے کہ انہوںنے خاموشی اختیار کیے رکھی ہے

،جبکہ مسلم لیگ (ن)کے ارکان مخالفت کرنے کے دعوئیدار ہیں ، صرف مسلم لیگ( ق)اور بلو چستان عوامی پارٹی کے سینٹروں نے ہی قرار داد کی حمایت کی ہے، اس قرار داد کی منظوری کی خبر آتے ہی جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور التوا کی قراراکی منطوری کے خلاف نئی قرارداد جمع کرادی ہے ،اس قرار داد کے متن میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کا بر وقت انعقاد ہی دستور کا تقاضا ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے کہ انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے ۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے، ملک کے مختلف علاقوں میںدہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں، لیکن حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں کہ انتخابات ملتوی کرانے کیلئے ایوان بالا میں قرار داد منظور کرائی جائے ،سکیورٹی فورسز دہشت گردی پر قابو پانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں،

آرمی چیف بھی پْرعزم ہیں تو پھر ایسی تاویلوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی، ویسے بھی ایوانِ بالا کا اپنا وقار ہے،اپنی حیثیت اور شان ہے ،لیکن وہاں ایسے کام ہو جاتے ہیں کہ جن پر عقل حیران ہی رہ جاتی ہے، اِس طرح کی کارروائیوں سے سینیٹ کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے ، لیکن یہاں ایوان کی ساکھ کی کسے پرواہ ہے ،یہاں اُوپر والوں کو راضی رکھنے کیلئے ہرا یک چیزکو ہی دائو پر لگایا جارہا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پس پردہ کچھ قوتیں انتخابات کے التواکیلئے سر گرم عمل ہیں ،اس حوالے سے کچھ سیاسی جماعتیں بھی اُن کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں اور انہیں راضی رکھنے کیلئے سر ڈھڑ کی بازی لگارہی ہیں، تاہم سپریم کورٹ کے سوا کسی کے احکامات الیکشن شیڈول پر اثر انداز ہوسکتے ہیں نہ ہی کسی سینیٹ کی قرارداد کا الیکشن شیڈول پر کوئی اثر پڑے گا، ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیںہوگا کہ انتخابات ملتوی کی ساری سازشوں کے باوجود انتخابات ملتوی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے،

الیکشن انشاء اللہ طے شدہ تاریخ پر ہی ہوں گے ،اس سینیٹ کی قرارداد کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت ہے نہ ہی اس سے الیکشن میں کوئی التوا آئے گا، لہٰذا اس پر اظہار تشویش رائی کا پہاڑ بنانے کے ہی مترادف ہے ، تاہم ملک کی پوری سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ عام انتخابات سماجی انتشار میں اضافے کے بجائے سیاسی ومعاشی استحکام اور قومی یکجہتی کا ہی ذریعہ بنیں ،اس میں ملک و عوام کے ساتھ سب کی ہی بہتری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں