عوام ایک بار پھر ہار جائیں گے ! 48

عوام ایک بار پھر ہار جائیں گے !

عوام ایک بار پھر ہار جائیں گے !

تحریک انصاف کیلئے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر جو اُمیدکی کرن نمودار ہوئی تھی ،وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر دم توڑ گئی ہے ،تحریک انصاف کو انتخابی اکھاڑے سے باہر رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے،ہر جائزو ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ، تاہم ہرگزرتے دن کے ساتھ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی چالبازیاں ملکی اور عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہیںاورایک ایسے آزادانہ منصفانہ انتخابات کیلئے دبائو بڑھ رہا ہے کہ جس میں ساری پاڑٹیوں کیلئے یکساں مواقع میسر آئیں ،

لیکن اس سے تحریک انصاف کو محروم ہی رکھا جا رہا ہے، اس کے کئی ایک رہنما اور کارکن حراست میں ہیں، انھیں قانونی حق حاصل ہے نہ ہی انتخابی مہم کی اجازت دی جارہی ہے اور اب ان سے انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا ہے، ریاستی تشدد استعمال کرتے ہوئے مسلسل خوف کی فضا قائم رکھی جا رہی ہے، اس فضا ء میں انتخابات کی ساکھ کیا ہو گی اور انہیں کون تسلیم کرے گا؟یہ انتخابات اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو چکے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو ہمارے سامنے اب دو ہی راستے ہیںکہ ا یک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے ذریعے ایک ایسی حقیقی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے

کہ جس کے پاس عوامی سپورٹ کے ساتھ اپنے وعدے پورے کرنے کا قانونی جواز بھی ہو ، اس سے اُن زخموں پر مرہم رکھنے کا چارہ بھی ہو سکے گا جوکہ بہت دیر سے رِس رہے ہیں، اگر دوسرا راستہ اختیار کیا گیا تواس سے رستے زخم مزید ہرے ہو جائیں گے، اس کے نتیجے میں ناقابل بیان اذیت اورتکلیف ہو گی،اس لیے معقولیت کا تقاضا ہے کہ پہلے راستے کو اختیار کیا جائے اور دوسرے سے قدم کھینچ لیے جائیں،

لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔ہر گزرتے وقت کے ساتھ لگ رہا ہے کہ ہم معقولیت کی راہ سے بدستور دور ہوتے جا رہے ہیں، یہ نہ صرف انتہائی بدقسمت صورت حال ہے، بلکہ تباہی کے بیج بھی بو رہی ہے، یہ بات طاقتور حلقوں کیلئے سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ہر مرض سختی کرنے سے مزید بگڑ جاتا ہے اور اس کی جڑیں گہری ہو تی چلی جاتی ہیں، اس کا بروقت احساس کرنا ہو گا،ہمیںبدلتے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے

عقل مندی سے درپیش مسائل پر قابو پا نا ہو گا، اگر اپنی ہی حماقت سے دوسرے راستے پر چلتے رہنے تو ایک ایسی کھائی میں گرنے کی رفتار تیز تر ہوتی جائے گی کہ جہاں سے پھر باہر نکلنے کی شاید کوئی تدبیر کام ہی نہیں آسکے گی ۔ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ ایک پارٹی کو کیسے اقتدار میں لانے اور ایک پارٹی کو انتخابات سے نکا لنے کیلئے کیا کچھ کیا جارہا ہے ،الیکشن کمیشن سے لے کر نگران حکومت تک کا کردار کھل کر سب کے سامنے آرہا ہے ،عدلیہ کے فیصلے بھی سب کے سامنے ہیں،

یہ لڑائی مختلف فورمز پر لڑنے کی بجائے ملک میں آزادانہ شفاف انتخابات کرانے کا کوئی چارہ کر نا چاہئے، اس کے علاوہ کچھ بھی لگنے والے زخموں کی مسیحائی کیلئے کام نہیں آئے گا،اس وقت جلد از جلد رستے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے، انتخابات میں کسی کو ان آوٹ کرنے کے ساتھ ممکنہ تاخیر، جیسا کہ کچھ سیاسی پنڈت تجویز کر رہے ہیں، یہ پہلے سے ہی خراب صورت حال کو مزید بگاڑ دے گی،

اس لیے بروقت شفاانتخابات کے انعقاد میں دیر ہو نی چاہئے نہ ہی کسی کو ان آوٹ کرنا چاہئے،لیکن یہاں پر ایک طرف انتخابات ملتوی کرانے کیلئے سینٹ میں قرار دادیں لائی جارہی ہیں تو دوسری جانب ایک پاررٹی کو ان اور دوسرکو آوٹ کیا جارہا ہے۔یہ صورتحال کسی صورت بھی لائق تحسین نہیں ہے ،یہاں پر ہر کوئی اپنی ضد و اناکی بھینٹ سب کچھ ہی چڑھائے جارہا ہے ، اس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے ہی جارہے ہیں ، ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی چلے جارہے ہیں ، دنیا بھرمیں جن معاشروں نے ترقی کی ہے،

انہوں نے اپنے لئے ایک نظام وضع کیا اور اس پر ساری ہی اکائیوں نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے سختی سے عمل پیراں ہونے کی ٹھانی تو اُن کیلئے راستے کھلتے چلے گئے ، وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے، ان ترقی یافتہ معاشروں میں شخصیات کسی طور پر بھی طاقتور نہیں، بلکہ ریاست اور اس کے قوانین طاقتور ہوتے ہیںاور سب کیلئے برابر ہوتے ہیں ، لیکن یہاں پر ایک ہی پارٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور دوسری کو سر پر بیٹھایا جارہا ہے ،اس امتیازانہ سلوک کی وجہ سے جو ملک کا نقصان ہو رہا ہے، جو کشمکش بڑھتی جارہی ہے، اس کا جلد خاتمہ ضروری ہے،اگر انتخابات بروقت ہوتے ہیں تو ساری ہی جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی مکمل آزادی ملنی چاہئے،

انتخابات میں سے ایک مقبول جماعت کو نکالنے سے انتخابات متنازع ہوں گے ،بلکہ اس کی کوئی ساکھ بھی نہیں ہو گی ،ایسے انتخابات کرانے کا کوئی فائدہ ہے نہ ہی انہیںکوئی مانے گا ،اس لیے ضروری ہے کہ جس کا جو کام ہے ،اسے ہی آزادانہ کرنے دیاجائے، سیاست دانوں کو ملک چلانے دیا جائے، تاکہ ہم بھی ایک عظیم ملک کی ایک عظیم قوم بن سکیں،لیکن ایساکچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،ایک بار پھر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اس بار بھی جمہور اور جمہوریت دونوں ہی ہار جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں