رام مندر افتتاح اور ہم ہندستانی 30 کروڑ مسلمانوں کے جذبات
نقاش نائطی
۔ +966562677707
محمد شبیر قریشی عرف عام منا ایودھیہ شہر سابقہ بابری مسجد کے پڑوسی، کیسے اپنے ایمانی درد و کرب کا اظہار کررہے ہیں دیکھا جائے؟ یہی و لوگ ہیں جن کے ایمان سے اس دھرتی پر اسلام باقی ہے۔ انسان جس کسی بھی دھرم کا ماننے والا ہو،اسے اپنے دھرم پر قائم رہنا چاہئیے۔ اسے بھلے ہی مر جانا پڑے لیکن اپنے دھرم کے ساتھ دغا نہیں کرنی چاہئیے۔ منا بھائی نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ کہا کہ پوری دنیا والے بھلے ہی کہیں لیکن میں تو اپنی ماں کو ماں کہونگا اپنے باپ کو ہی اپنا باپ کہونگا۔
کسی اور کے ماں باپ کو، اپنا باپ کہنے کے بجائے، میں مرجانا پسند کرونگا۔ اسی کروڑ ھندو بھارت واسیوں کا ڈر اور خوف دلانے کے باوجود دیش کی عدلیہ نے،اپنے بابری مسجد رام مندر فیصلے میں کس خوبصورتی کے ساتھ،سچ کا اقرار کیا تھا اس کی تعریف کرنی پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ نے،اپنے تاریخی فیصلے میں،صاف صاف کہا تھا کہ پانچ سو سال قبل بابری مسجد بناتے وقت،کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔
اور نہ ہی بابری مسجد زمین کے نیچے مندر توڑ کر بنائے گئے آثار ملے ہیں۔ اس بات کا بھی سپریم کورٹ نے اقرار کیا تھا کہ 22 دسمبر 1949 بابری مسجد کے اندر پائی گئی رام للہ کی مورتی،از خود منظر عام پر ظاہر نہیں ہوئی تھی بلکہ اسے شب کی تاریکیوں میں مسجد کے اندر رکھا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں، اس بات کا بھی برملا اظہار کیاتھاکہ کروڑوں ھندوؤں کی آستھا کے پیش نظر اس تنازع کا فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔
لیکن جس کی لاٹھی اسکی بھینس والی مثال کے حساب سے، انسانیت دشمن مودی حکومت کے دباؤ میں، صرف اور صرف ہندستان میں مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے ہی، تمام تر قانونی کاغذ پتر رکھنے والی بابری مسجد زمین کو، ساڑھے پانچ سو سال بعد غیر قانونی طور اسے شہید کرنے والے مذہبی جنونیوں کے ہی سپرد کیا گیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ بھارت کے مسلمانوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو دل سے کیا قبول نہیں کیا ہے؟ اس کے جواب میں منا قریشی نے،کیا خوب جواب دیا کہ کورٹ کے فیصلے کو نہ ماننے کا مقصد ، ہندستان میں 30 کروڑ ہم مسلمانوں اور دیش کی اکثریتی ھندو قوم کے مابین خون خرابہ نہ ہوجائے،اسلئے صرف اور صرف ہندستان میں آباد ہم30 کروڑ مسلمانوں نے،ہندستان کے ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث کو باقی رکھنے کے لئے ہی ، انکے خلاف لئےگئے
سپریم کورٹ فیصلے کو،مجبوراً دل سے قبول کئے جانے کا ناٹک ہم مسلمانوں نے رچایا ہے۔کون اسے کس نظرئیے سے دیکھتا ہے؟ یا کون مسلمان سنگھی حکومت کو خوش کرنے کے لئے، زبردستی مسلمانون سے چھینی گئی پانچ سو سالہ بابری مسجد زمین پر بنائے جانے والے شاندار رام مندر کے لئے،بڑھ چڑھ کر کروڑوں روپیہ لٹاتے ہیں وہ اور انکا ایمان انکے ساتھ ہے اور ہر کسی کو اپنے اپنے کرموں کے لئے،اپنے اپنے اللہ بھگوان کے سامنے جواب دہ ہونا یے ہمیں ھندوؤں کے بھگوان رام سے کوئی شکایت نہیں ہے یہ اس لئے کہ انہوں نے خود نہ بابری مسجد شہید کی اور نہ سپریم کورٹ میں اپنے لئے زمین غاصب کرنے کیس لڑا ہے
22 جنوری 2024 نامکمل ہی صحیح مہان مودی جی کو2024 عام انتخاب سیاسی فائیدہ پہنچانے افتتاح ہونے والا شاندار رام مندر بھارتیہ ھندوؤں کے لئے مبارک ہو اس لحاظ سے بھارتیہ حکومت کے ہم مشکور ہیں کہ ہم مسلمانوں کے مذہبی عقیدے مطابق ایک جگہ پورے اسلامی اقدار سے جب مسجد بنائی جاتی ہے اور اس جگہ پر اس اللہ کی پرستش نماز پڑھی جاتی ہے تاقیامت وہ جگہ مسجد ہی برقرار رہتی ہے۔
مسلمانوں کے اس یقین کامل کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی مالک دوجہاں نے، کچھ ایسا کیا کہ مذہبی جنونیوں کا یہ نیا بننے والا شاندار مندر؛ٹھیک شہید کی گئی بابری مسجد جگہ پر بننے کے بجائے،اس سے 3 کلومیٹر دور بنایا گیا ہے۔ اس سے وہ بابری مسجد والی پاک زمین،مورتی پوجا سے تو نجات پاچکی ہے۔یا نوچتا رکھی گئی ہے۔ یارب تیری لیلا ہی نیاری یے کس خوبصورتی سے تو نے، اپنی پاک زمین کو مورتی پوجا سے آمان میں رکھا ہوا ہے۔ اور انشاءاللہ تو نے چاہا تو یہ پاک زمین تاقیامت مورتی پوجا سے ونچت یا محفوظ رہےگی انشاءاللہ
22 دسمبر 1949 شب کی تاریکیوں میں بابری مسجد کی دیوار پھاند کر مسجد کے اندر شری رام کی مورتی رکھی گئی تھی اور اسکے ازخود زمین سے نکل موثر عام آنے کا شور مچایا گیا تھا
نہ کہی گئی بھگوان رام کی کہانی