جمہورکی آواز 97

دے دے ادھار بچپن

دے دے ادھار بچپن

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

حسرت موہانی نے کیاخوب کہا تھا
لے لے شباب یارب
دے دے ادھار بچپن
یہ شعر کبھی تنہائی میں یادآجائے توبچپن کی درجنوںسنہری یادیں قطاراندرقطار یادآنے لگتی ہیںتو بے ساختہ ہونٹوںپرکبھی ہنسی اور کبھی دل میں تلخ،ترش،شیریں یادوںکی حلاوت گھل گھل جاتی ہے یادیں زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں اور بچپن کی یادیں توگراںقدر اور ناقابل ِفراموش سرمایہ ہیں جو دل میں ایک ہلچل مچادیتی ہیں۔بچپن میں تو زیادہ تر وقت کھیل کودمیں صرف ہوتا تھا اس لئے ہم کسی کودوست بنانے سے قبل پہلا سوال پوچھا کرتے تھے تمہیں کون سا کھیل پسند ہے؟ کیا آپ کو سٹاپو کھیلنا آتا ہے؟

ہاکی ،فٹ بال میں دلچسپی ہے یا یسو پنجو آتا ہے؟ جواب نفی میں ہوتا تو ترت اگلا سوال داغ دیتے کبڈی،جمناسٹک یا چڑی چھکا (بیڈمنٹن )کھیلتے ہو گے ۔۔نہیں یقینا تمہیں چڑی اڈی کاں اڈنا آتا ہے؟ گرم پٹھو کھیلی ہو کبھی؟ نہیں۔۔ او ہو پھر لڈو ضرور کھیلتے ہو گے یا سانپ سیڑھی والا کھیل ۔۔بادشاہ وزیر چورسپاہی یا پھرونجل بادشاہ کا وزیر کون، جانتے ہو؟ رسہ پھلانگاہے کبھی؟،گلی ڈنڈا کھیلے ہو؟،بنٹے (کنچے) کھیلنا آتا ہے؟،نیلی پری آنا، جانتے ہو؟،کوکلا چھپاکی جمعرات آئی اے، کبھی کھیلی ہے ؟؟

،باندر کِلا سے واقف ہو؟ یا پھر بارش کے موسم میں ڈوئی دوئی کا منہ کالا ڈوئی مینہ منگدی کا شور شرابا برپاکیاہے یا ریت کے ڈھیر سے کبھی گھسیٹتے نیچے آئے ہو؟ کبھی ٹیوب ویل میں ڈبکیاں لگائی ہیں؟ ،کبھی درخت پر چڑھ کر پکے پکے امرود ڈھونڈھے ہیں؟ کبھی جو درخت کے ساتھ پینگ (جھولا) جھلائی ہے؟یاکبھی پنکھے کے سامنے کھڑے ہو کر اااااااااااااااا کیا ہے؟ کبھی رضائیوں کی تہہ پر سب سے اوپر چڑھ کر بیٹھ کر خود کو بادشاہ سمجھا ہے یہ کبھی سائیکل کے ٹائر کو اپنی کمر کے گرد گزار کر اسے گول گول گھمایا ہے؟

کبھی برساتی موسم میں اپنے راہ چلتے ایک مینڈک کو پکڑ کر کسی کی قمیص میں ڈالا ہے؟یاکبھی بابا دولے شاہ کے چوہوں سے ڈر کر اپنے گھر کے سب سے پچھلے کمرے کی پیٹیوں کے پیچھے یا نیچے چھپے ہو؟ کبھی ٹھپے لگوانے والیوں کو آٹا دے کر ٹھپے لگوائے ہیں؟ کبھی آپ نے کبھی جو لوہا لیلن ٹین ڈبے بیچ کر کرارے پاپڑ کھائے ہیں؟ اگر یہ سب نہیں کیا تو آپ سب کیا جانو بچپن کی موجیں یہ سب باتیں سوچ سوچ کر یاد آتاہے کہ بچپن کی یادیں کتنی خوبصورت تھیں کاش کوئی میرا بچپن لوٹا دے مجھے تو آج بھی برسات کے موسم میں یا رم جھم کے ماحول میں بچپن میں ماں کے ہاتھ کے بنائے ہوئے پوڑے یاد ہیں

میٹھے پوڑوںکی بھینی بھینی خوشبو یاد ہے، بہن بھائیوں کی ایک دوسرے سے چیزیں چھین کرکھانے کااپنا ہی لطف تھا لڑائی ،جھگڑا،جھوٹ موٹ کا خفا ہونا،شرارتیں،دوسروںکی چیزیں چھپاناکرستاناکمال درجے کامذاق تھا کیا سادگی،بھولاپن اورمنافقت سے پاک ماحول تھا اب نہ جانے وہ دن کہاں چلے گئے؟اس دورمیں کرکٹ کااتنا کریز نہیں تھا آج تو کرکٹ نے تمام کھیلوںکو نگل لیا ہے اس دور میں بچے بچیاں بارش میں اٹھکیلیاںلیتے،ریت پر گھروندے بنانا اور بارش کے پانی میں کاغذکی کشتیاں چلانامعمول کی بات تھی اس دوران چھوٹے ،چھوٹے، پیارے، پیارے معصوم بچے تالیاں بجابجاکرداددیتے۔

محلے کے کسی گھر میں شادی بیاہ ہوتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے اپنی ہی گھر کوئی تقریب ہورہی ہے بچے بوڑھے جوان خوب انجوائے کرتے تو کبھی اپنے قدسے بڑے سائیکل سیکھنے کی کوشش میں گرکرچوٹ لگالیتے یا بڑے اپنے قد سے چھوٹا بے بی سائیکل چلانے کربچوںکو خوب ستایاکرتے۔کچھ نو عمر بچے سکول سے بھاگ کر قریبی سینما گھرجاکرفلم دیکھتے گھروالوںکو پتہ چلتا تو ان کی خوب پٹائی ہوتیمحلے میں لبھی لڑائی ہوجاتی بزرگ فریقین کو دودوچار تھپڑ لگاکر معاملہ رفع دفع کردا دیتے تھے

اب تو ٹیچر طالب ِ علم کو پیار سے ایک چپت بھی لگادے والدین مزا چکھانے آجاتے ہیں شایداسی لئے معاشرے میں گھٹن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے لوگ فرسٹیشن کا شکارہیں چھوٹے چھوٹے مسائل روگ بن گئے ہیں نفرتیں، عداوتیں اور مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں تبھی تو نت نئی نفسیاتی بیماریاں پھل اور پھول رہی ہیںکیادور تھاماحول میں تازگی کااحساس ہوتاتھا اب توآلودگی کے باعث آسمان پر تارے نظرنہیں آتے پھر ٹی وی کی ایجاد نے لوگوںکو کمروںتک محدودکردیا ان دنوںمحلے کے صرف کھاتے پیتے لوگوںکے پاس ٹی وی ہواکرتا تھا کوئی خاص پروگرام یا جب ہفتہ وار فلمیں لگناشروع ہوئیں

تو عورتیں ایک دوسرے کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتیں ان کے لئے کھانے پینے کی چیزوںکااہتمام کیا جاتا پورا محلہ ایک خاندان لگتا تھا جیسے جیسے پیسے کی فراوانی ہوتی چلی گئی گھروںکے دروازے ایک دوسرے پر بندہوتے چلے گئے ٹی وی کے بعدٹچ موبائل نے تو پورا ماحول ہی بدل ڈالا آج حالات یہ ہیں کہ ایک ہی کمرے میں اگر گھر کے دس افرادبھی موجود ہوں تو لگتاہی نہیں یہ ایک خاندان کے لوگ ہیں سب کے سب جیسے چابی کے کھلونے ، ایک دوسرے سے لاتعلق ،بے پرواہ تمام ہی موبائل کے اسیرہوچکے ہیں یاد آتی ہے تو آج اپنے رویوں،سماجی تعلقات اور حالات پر حیرانی سی حیرانی ہے وہ بھی کیا دن تھے جب تفریح کا واحد ذریعہ پی ٹی وی ہوا کرتا تھا پرانی وضع قطع کے لوگ اسے بھی بے حیائی سے تعبیرکرتے تو بچوں بالخصوص نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بہت برا لگتا

وہ دل ہی دل میں منع کرنے والوںکوکوستے اور سر جھٹک کر بڑبڑاتے دقیانوسی کہیں کے۔۔۔ اور پھر جس روز TV پر فلم دکھائی جاتی بچوںاور نوجوان لڑکیوںکا جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا جیسے عید آگئی ہو ان دنوں ٹی وی نشریات بلیک اینڈوائٹ تھیںجبکہ ٹی وی بھی خال خال گھروں میں ہوا کرتا تھا جو ٹی وی پورا خاندان بلکہ اڑوس پڑوس کے لوگ بھی فلم دیکھنے آتے اور ٹی وی کے سامنے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے فلم کے درمیان اشتہارات کی بھرمارسے بے مزہ ہوئے بغیرلوگ انجوائے کرتے کوئی گانا آتا یا ہیرو ،ہیروئن کے درمیان کوئی رومانی سین کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں آنکھ چراکر ایک دوسرے کو دیکھتے

اور ان کے لبوںپر دل آویز مسکراہٹ پھیل جاتی اور لڑکیوںکے رخسار حیا سے گلنار ہوہو جاتے گھر کے مرد شرمندہ ہوکر کسی بہانے کمرے سے باہر نکل جاتے اور جی ہی جی میں کڑھتے اور بڑبڑاتے لیکن اولادپر بس نہ چلتا آج تو گھرگھر کیبل آگئی ہے اس وقت انٹینا ایک لمبے بانس پر باندھ دیا جاتا تھا جس سے وہ عیسا ئیوں کے مذہبی نشان صلیب سے مشابہہ ہوجاتا TV نشریات صاف نہ آجاتیں یا ہوا کا رخ موافق نہ ہوتا تو چھت پرجاکر انٹینا گھماتا پڑتا یہ بہت بڑا عذاب تھا پھر رنگین نشریات کا آغازہوا ٹی وی میں حسن نکھر نکھرکر سامنے آیا پھر یہ حسن بے حجاب ہوتاچلاگیا آج درجنوںنہیں سینکڑوں طرح طرح کے چینل آگئے

ریٹنگ کی مقابلے کی دوڑ اور دولت کمانے کی ہوس میں TV اور آل اولاد بے لگام ہوتی چلی گئی جبVCR کا دور دورہ ہوا تو اس نے بہت سی قباحتوںکو جنم لیا برصغیر کے لوگ ویسے بھی معاشرتی گھٹن کے باعث فرسٹیشن کا شکار ہیںجس کے باعث انہوں نے VCR پرفحش اور بولڈ فلمیں لگاکر اس کا مداوا کرنے کی کافی حدتک کوشش کی اور اس کوشش میں اکثر اخلاقی حدود سے بھی تجاوزکر جاتے اس وقتVCR کرائے پر ملتا تھا اور یہ بہترین کاروبار شمارہوتاتھا تنہائی کے ماروں،فرسٹیشن کا شکار اور فلموں کے شوقین خواتین و حضرات کا VCR صحیح معنوںمیں ہمدرد اور غمگسارثابت ہوا

کچھ قدامت پسند اس ساری صورت ِ حال کو قیامت سے تعبیر کرتے ہوئے لاحول ولا قوۃ کا ورد کرتے رہتے نقصان یہ ہوا کہ اولاد منہ زور ہوتی چلی گئی خلوت کی باتیں سِر عام کی جانے لگیں معاشرے کی اخلاقی قدریں کمزور ہوتی چلی گئیں ۔کبھی تنہائی میں آپ غورکریں کہ گذشتہ نصف صدی سے پہلے دنیا کیسی تھی ؟ یقینا آپ کہہ اٹھیں کہ بے رنگ ۔بے کیف ٹیکنالوجی نے ہماری دنیا رنگین کردی ہے آج جو ہمیں سہولیات میسرہیں دعوے سے کہاجاسکتاہے کہ یہ عیش و آرام تو بادشاہوںکا بھی نصیب نہیں تھا لیکن بچپن جیسے ٹھاٹ اب کہاں وہ سنہری یادیں اب بھی یاددآتی ہیں تو دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ اب وہ بے فکری کے دن نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں فکرِ معاش نے انسان کو مشین بناکررکھ دیاہے

فیض نے سچ ہی کہا تھا تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے پھربھی تنہائی میں بچپن کی یادیں درآئیں تو وہ بہت مزادیتی ہیں سوچئے اگر آج آپ میں سے کسی کو کوئی کبڈی،جمناسٹک یا چڑی چھکا،ہاکی ،فٹ بال،گرم پٹھو،بادشاہ وزیر چورسپاہی یا پھرونجل؟،گلی ڈنڈا ،بنٹے (کنچے) کھیلنا ؟،کوکلا چھپاکی ،باندر کِلا کھیلنے کی دعوت دے تو کس کھیل کاانتخاب کریں گے۔۔۔ کیاجواب ہے آپ کا کچھ بتائیں گے یاپھر میری طرح آپ بھی بچپن کی درجنوںسنہری یادوںمیں کھوکررہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں