86

بڑھتی آبادی سے بڑھتے مسائل !

بڑھتی آبادی سے بڑھتے مسائل !

پاکستان میں ایک جانب آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب وسائل کی کمی سر اٹھا رہی ہے، چند روز قبل لاہور ہائیکورٹ ایک مقدے کی سماعت کے دوران لاہور میں اگلے چار سال میں پانی ختم ہونے پر فکر مندی کا اظہار کر چکی ہے،ملک میں خوراک، روزگار، رہائش، صحت ، تعلیم کی سہولیات کے لئے پہلے ہی فنڈز دستیاب نہیں ہے،اگر ملک کی آبادی میں ایسے ہی بے روک ٹوک اضافہ ہوتا رہا تو معیار زندگی اور بھی نیچے جانے کا خدشہ ہے۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ دنیا بڑھتی آباد کنٹرول کر نے کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک قدم اُٹھارہی ہے ،لیکن ہمارے ہاں ماسوائے تشویش کا اظہار کرنے کے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے

،سیاسی جماعتوںکے ایجنڈے میں آبادی کنٹرول کرنے کا کوئی پروگرام شامل ہی نہیںرہا ہے ،جو کہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کی اہمیت کا احساس ہے نہ ہی کوئی موثر حکمت عملی بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں ، اگرپا کستان میں آبادی کے گھمبیر مسئلے اور اس سے منسلک دیگر مسائل کو کسی عوامی سطح پر اُجاگر کیا ہے تو وہ ہماری معززعدلیہ ہے ،پا کستا میں آباد پر ہونے والا سروئے بھی سپریم کورٹ کی ہی بدولت ممکن ہوا ہے۔
اگر سارے کام معززعدلیہ نے ہی کرنے ہیں تو حکومت اور سیاسی قیادت کیا کررہی ہے ،اگر حکومت وقت اور بھاری عوامی حمایت کی دعوئیدار قیادت اہم مسائل پر بھی کب کشائی سے گریزاں رہیں گی تو کیا این جی اوز ان مسائل کو حل کریں گی ، جوکہ پہلے سے ہی بیرونی امداد کے مر ہون منت اور بیورو کریسی کی محتاج رہتی ہیں ؟ملک میں بڑھتی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کاتدارک کرنا حکومت وقت کے ساتھ داروں کا کام ہے، لیکن ہر حکومت وقت نے کبھی عوام کے اہم مسائل کو اپنی تر جیحات میں شامل کیا نہ ہی اداروں کی کار گزاری پر توجہ دی جاتی رہی ہے ۔
اس ملک میں ادارے موجود ہیں

اور ان اداروں میں کسی حد تک کام بھی ہورہا ہے ، لیکن اس سے استفادہ نہیں کیا جارہا ہے،اس حوالے سے ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پا پو لیشن سٹڈیز میں بھی بہت کام ہورہا ہے، یہاں پر پا کستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے متعد بار کرائے گئے ، بڑی بڑی کتابیں شائع کی گئیں ، بڑے سیمیناروں کے ذریعے صوبائی حکومتوں کوآگاہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کو نسے ایراز ہیں کہ جہاں پر پا لیسی سازاور حکومت کو کام کر نے کی ضرورت ہے ، مگر ان کی تجاویز پر کام کر نا تو درکنار کبھی غوربھی نہیں کیا جاتاہے ۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ اول پا کستان میں عالمی معیاری کی ریسر چ ہوتی ہی نہیںہے اور اگر کہیں ہو بھی رہی ہے تو اس سے استفادہ ہی نہیں کیا جاتا ہے، اس لیے ہی تعلیمی اداروں سے لے کر ریسرچ اداروں تک کی الماریاں ریسرچ کتابچوں سے بھری پڑی ہیں ، انہیں کوئی دیکھ رہا ہے نہ ہی کوئی پڑھنے کی کوشش کررہا ہے ، اس ریسرچ کتابچوں میں ہی بڑھتی آبادی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے

کہ خاندانی منصوبہ بندی نہ کرنا ، منصوبہ بندی کی سہو لیات کا فقدان ، کم عمری میں شادیاں ، ناخواندگی ، خو تین کا بااختیار نہ ہونا ، غربت ، بے روز گاری آبادی بڑھنے کے عوامل ہیں ، ان عوامل کے تدارک سے ہی آبادی کنٹرول کی جاسکتی ہے۔
دنیا بھر میں بڑھتی آبادی کو بڑے ہی احسن طریقے سے کنٹرول کیا جارہا ہے ،جبکہ ہمارے ہاں آبادی کنٹرول پر کوئی خاص توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے ، ہماری سیاسی قیادت سے لے کر ادارتی قیادت تک سارے ہی زبانی کلا می دعوئوں پر وقت گزارے چلے جارہے ہیں ، لیکن ہم آنکھیں بند کر کے بڑھتی آبادی کے خطرات سے بچ سکتے ہیں نہ ہی آبادی میں کمی لائے بغیر خو شحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں ،

اگر پا کستان میں تیزی سے آبادی میں اضافے کی شرح کو دیکھا جائے تو قیاس ہے کہ 2050ء تک پاکستان کی آبادی 35کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لیے بنیادی سہولتوں، خاص طورپر صحت عامہ کی سہولیات اور اس تک رسائی کے لیے حکومتوں کو لازمی طور پر بہت کچھ سوچنا ہوگا، کوئی انقلابی قدم اُٹھانا ہو گا ،لیکن یہاں عوام اور عوامی مسائل کا تدارک کسی کی تر جیحات میں شامل ہی نہیں ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو ہرحکومت بڑھتی آبادی کو تشویشناک بیانات سے روکنے کی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہی ہے،نگران وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن آبادی کی شرح کو تشویش ناک قرار دیے کر پرانی رویت دہرائے جارہے ہیں،جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونی دنیا سے ملنے والے فنڈز صرف سرکاری عملے کی گاڑیوں اور افسروں کی شان بڑھانے پر خرچ نہ کئے جائیں، بلکہ آبادی میں اضافہ کا موجب بننے والے عوامل کے تدارک پر استعما ل کیے جائیں گے تو ہی بڑھتی آبادی سے بڑھتے مسائل سے بچ پائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں