تقدیر پر ایمان کامل کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے 111

عدل و انصاف سے ماورا معاشرے رونہ زوال ہوا کرتے ہیں

عدل و انصاف سے ماورا معاشرے رونہ زوال ہوا کرتے ہیں

نقاش نائطی
۔ +966562677707

جس معاشرے سے،صاحب مقتدر ارباب کے خلاف حق گوئی کا اختیار چھین لیا جائے، وہ معاشرہ بتدریج روبہ زوال ہوجایا کرتا ہے۔ قانون کی یاسداری واجب بنائے جانے کے لئے ہی،عدل و انصاف کی عدالتیں سجائی جاتی ہیں۔برصغیر ھندو و پاک بنگلہ دیش کے، ان ممالک سے، عام عدلیہ تو کجا،عدلیہ عالیہ میں عدل و انصاف کے اعلی اقدار کے خلاف، صاحب مقتدر حلقوں کے دباؤ میں، انصاف کا گلا گھونٹے فیصلے دئیے جانے لگے ہیں۔پڑوسی ملک پاکستان میں، محافظان وطن کے دباؤ میں عدالت عالیہ پر، غیر اخلاقی دباؤ ڈالے، عدل و انصاف کے ساتھ جس انداز مذاق اڑایا جارہاہے، اس سے عوام میں عدالتوں کی وقعت ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ عالم کی سب بڑی جمہوریت ہندستان میں، دیش پر ایمرجنسی والے پس منظر میں بھی، اپنے وقت کی جابر، آئرن لیڈی مشہور اندراج گاندھی کی موجودگی میں،

اس کے صاحب مقتدر رہتے، اسکے خلاف بھی تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے،بھارت کی عدلیہ عالیہ نے جو اپنا مقام، قائم کیا تھا،فی زمانہ ارایس ایس، بی جے پی، مہان مودی جی والے رام راجیہ میں، عدالت عالیہ پر،نہ صرف غیر ضروری دباؤ ڈالے، بلکہ اعلی ترین ججز کو حکومتی من و سلوی نوازتے ہوئے،انکے ضمیروں کی نیلامی کرتے، جو فیصلے آنے لگے ہیں،اس سے عدالت عالیہ کے وقار و اعتبار کو بڑا دھچکا لگا ہے۔

خصوصا دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 30 کروڑ مسلمانوں کی شان سمجھی جانے والی 500 سال پرانی بابری مسجد کو، اسکے مالکانہ حقوق تمام تر کاغذات رہنے کے باوجود،سنگھی حکومتی دباؤمیں، جس ڈھٹائی سےعدل و انصاف کے تمام تر اقدار و تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے،باہری مسجد زمین کو، قاتل بابری مسجد والوں ہی کے حوالے کیا گیا ہے اور اب گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ھندوؤں کو پوچا کی اجازت جو دی گئی ہے، اس سے وقتی طور، دیش کی اکثریتی ھندو قوم، بھلے ہی خوش ہو، لیکن دیش کی عدلیہ عالمی سطح بدنام و رسوا ہوکر رہ گئی ہے۔

عالم کے سربراہ صاحب امریکہ اپنے میں بےتحاشہ کمیوں خامیوں باوجود، عدل و انصاف قائم رکھنے کے معاملے میں، برصغیر ایشیا ہم ھند و پاک بنگلہ دیش سے، کئی گنا زیادہ اچھی ہے۔ حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ تناظر میں، عالم کی چوتھی طاقت ور ترین اسرائیلی افواج کے زیر نگیں، عالم کی سب سے بڑی آزاد جیل میں، سابقہ پچاس سال سے،قید و بند رکھے فلسطینی قوم کو، عالمی یہود و نصاری میڈیا بیانئے کےاعتبار سے، کل تک مظلوم فلسطینیوں کو ظالم و دہشت گرد، جانا جاتا تھا آج ایک حد تک عالم کی پڑھی لکھی اکثریت انسانیت نے، انہیں مظلوم تسلیم کیا ہے۔ اسی مظلوم قوم کے ایک فلسطینی نے

،قوم یہود کے ناجائز باپ کی طرح یہود کی حفاظت و مدد کرنے والے صاحب امریکہ ہی کی عدالت میں، نہ صرف یہودی حکومت کو بلکہ اس کی ظلم و بربریت روا رکھنے،اس کی بلا شرط، ہر طرح کی مدد و نصرت کرنےوالےامریکی صدر و انتظامیہ کے خلاف، خود انکی امریکی عدالت میں، انہیں انسانیت سوز نسل کشی کا مجرم قرار دینے کی جو گوہاڑ لگائی تھی۔ امریکی عدالت کو سلام ہے،جس نے،صاحب مقتدر امریکی حکومتی ذمہ داروں کو سزا دینے کے اختیارات ماورائیت “باوجود، امریکی صدر اور اسکے حکومتی ذمہ داروں کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی میں،یہودی حکومت کے ساتھ امریکہ کے برابر کا شریک ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے

، یہودی حکومت کی تائید کے اسکے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست امریکی حکومت سے کردی ہے۔ ہم ایشیائی ممالک ھند و پاک بنگلہ دئش کو، خصوصا اسلام کے نام پر معرض وجود میں لائی گئی مسلم مملکت جمہوریہ اسلامیہ پاکستان اور اس کے عوام سے ادبا” درخواست و التجا ہے کہ وہ کسی بھی طور، اپنے یہاں عدل و انصاف کے اعلی اقدار کو باقی رکھنے جستجو کرتے پائے جائیں۔وما علینا الا البلاغ*

بائیڈن کے خلاف فلسطینیوں کی طرف سے لائے گئے تاریخی مقدمے میں، ایک امریکی وفاقی عدالت نے،اس کے پاس اس کیس کے ملزمان کو سزا دینے کی طاقت ماورائیت باوجود اپنے یہ پایا کہ غزہ پر اسرائیل کا حملہ اور محاصرہ ممکنہ طور پر نسل کشی ہے اور بائیڈن کی انتظامیہ سے اسرائیل کی اپنی غیر متزلزل حمایت کا جائزہ لینے کے لیے “التجا” کرتی ہے، کہ وہ اس بات کا تعین کرتے ہوئے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں