48

ایک درست راستے کا انتخاب !

ایک درست راستے کا انتخاب !

عام انتخابات کل ہونے جارہے ہیں، مگر اس میں عام عوام کی کوئی خاص دلچسپی دکھائی نہیں دیے رہی ہے، یہ پہلے انتخابات ہیں کہ جن کے نتائج کے بارے پہلے سے ہی سب جانتے ہیں کہ اُن کی مرضی کے خلاف آزمائے کو ہی ایک بار پھر آزمایا جارہا ہے اور عوام کے لاڈلے کے بجائے اپنا لاڈلہ لایا جارہا ہے،اس عوام مخالف فیصلے کو کوئی مانے گا نہ اس کی کوئی ساکھ ہو گی اور یہ فیصلہ زیادہ دیر تک چل بھی نہیں پائے گا۔
اگر دیکھاجائے تو جمہوریت کی اصل روح ہی عوام کی رائے ہوتی ہے ، لیکن جب انتخابات ہی غیر منصفانہ ہو جائیں اور ووٹوں کی خریداری عام ہو نے لگے تو پھر لوگوں کا جمہوری عمل سے ہی اعتماد اُٹھ جاتا ہے ،عوام جب سمجھنے لگتے ہیں کہ اُن کی رائے کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے تووہ سارے سیاسی عمل سے ہی لاتعلق ہو جاتے ہیں ،اس بار کچھ ایسا ہی عوامی رویہ دکھائی دیے رہا ہے ، عوام انتخابات کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے والوں سے بھی مایوس نظر آنے لگے ہیں ۔
عوام کو الیکشن کے نام پر سلیکشن سے کوئی سر کار ہے نہ ہی اقتدار میں آنے والوں سے کوئی بہتری کی اُمید رکھتے ہیں

، عوام جان چکے ہیں کہ انہیں مشکلات و پر یشانیوں میں مبتلا کرنے والے کون لوگ ہیںاور کون انہیں اپنے مقصد کیلئے قربان کرتے آرہے ہیں ؟عوام ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ، مگر انہیں چھٹکارہ حاصل کر نے ہی نہیں دیا جارہا ہے ،انہیں ہی بار بار لایا جارہا ہے ،جنہوں نے ملک و عوام کو اس نہج تک پہنچا یا ہے کہ جہاں پر آزاد ہوتے ہوئے بھی اغیار کے غلام بننے پر مجبور ہیں ۔
اس ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی میں لانے والے کوئی اور نہیں اپنے ہی حکمران رہے ہیں ،

اس کے باوجود عوام کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر نے کے چھوٹے دلاسے دیے جاتے ہیں ، عوام کی زندگی میں تبدیلی لانے کے چھوٹے نعرے لگائے جاتے ہیں ، یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا ہے ،یہ ہی سب کچھ اب بھی ہورہا ہے ،اگر اس انتخابی مہم میں اہل سیاست کے بیانات پرہی غورکیا جائے تو کسی سیاسی جماعت کے پاس ملکی مسائل بالخصوص معیشت کی بہتری، مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے ساتھ بے روزگاری سے نجات کا کوئی قابل عمل منصوبہ ہی نہیں ہے ، ہر کوئی وہی پرانے بیانات سے عوم کو بہلانے او بہکانے کی کوشش کررہا ہے۔
یہ سارے ہی آزمائے ہو ئے لوگ ہیں اور یہ سارے ہی آزمائے ہوئے پرانے وعدے اور دعوئے کررہے ہیں ، کوئی ہر شہر میں موٹرویز اور میٹروز بنانے کے دعوئے کررہا ہے تو کوئی کوئی پکے گھربنا کر دینے اور بینظیر انکم سپورٹ کارڈ لانے کے وعدے کررہا ہے ،یہ سب کہتے ہیں کہ برسراقتدار آکر غربت و مہنگائی اور بے روزگاری کاخاتمہ کریں گے،تین سو یونٹ بجلی مفت دیں گے اور ماضی کی قیمتیں بحال کریں گے

، یہ سب کتنی غیرمنطقی باتیں ہیں، جو کہ کسی بھی طرح قابل عمل نہیں ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیونکر ہوگا؟ اس کا اْن کے پاس کوئی جواب ہے نہ ہی اپنے چھوٹے بیانیے پر شر مندہ ہوتے ہیں۔
یہ جانتے ہیں کہ ان سے ایسے سوالات کون پوچھتا ہے، عوام بے چارے تو اتنے سادہ ہیں کہ ان کی ہر بات اور اپنے مذاق پر بھی تالیاں بجانا شروع کردیتے ہیں، نئی سوچ لانے اور نواز دو کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں ، یہ جانتے اور مانتے ہوئے بھی کہ یہ ہی ان کی بد حالی کے ذمہ دار ہیں اور یہ ہی عوام کو نہ صرف اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے آرہے ہیں ،بلکہ قربان بھی کرتے آرہے ہیں ، کوئی ان لیڈران سے پوچھے کہ ملک و عوام شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں، آپ میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنا ذاتی پیسہ لا کر پاکستان کی بہتری کے لئے اپنا حصہ ڈالا ہے ۔
یہ کتنی عجب بات ہے

کہ یہ سارے اپنی ساری دولت ملک سے باہر اور سیاست و حکومت ملک کے اندر کرتے ہیں ، انہوں نے عوام کو بے وقوف ہی سمجھ رکھا ہے ، لیکن عوام اب کافی حدتک باشعور ہو چکے ہیں ، عوام سب کچھ جان چکے ہیں اور اپنا حق رائے دہی دیے کر ان آزمائیوں سے نجات چاہتے ہیں ، لیکن اس کیلئے آزادانہ شفاف ماحول درکار ہے جو کہ عام عوام کو نہیں دیا جارہا ہے ، یہ اب عام عوام پر ہی منحصر ہے

کہ اس قسم کے ہی ما حول میں رہنا چاہتے ہیں کہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہو نا چاہتے ہیں ،باہرنکل کر آواز بلند کر نا چاہتے ہیں ، اپنا آزادانہ حق رائے دہی اپنے ہی بزور با زو سے لینا چاہتے ہیں، عوام کے پاس دونوں ہی راستے موجود ہیں ، ایک درست راستے کا انتخاب ہی ملک وعوام کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں