عوامی مینڈیٹ ہی استحکام لائے گا !
ملک بھر میں انتخابات ہو گئے ہیں ، لیکن یہ کیسے انتخابات ہوئے ہیں کہ ہر طرف دھاندلی کا شور بر پا ہے ،کوئی الیکشن کمیشن کے در پر دہائی دیے رہا ہے تو کوئی عدلیہ سے انصاف مانگ رہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ایک بار پھر انتخابات کے نام پر جمہوریت کا خون کر دیا گیاہے،بی بی سی نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا ہے، اس متنازع انتخابات کے بعد ملک میں استحکام آتافی الحال دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔یہ کتنی عجب بات ہےکہ ملک میں استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے ،مگر ملک میں استحکام لانے میں کوئی سنجیدہ ہی نہیں ہے ،
یہاںہر کوئی اپنے مفادات کوہی تر جیح دیئے جا رہا ہے اور اپنے ہی مفادت کے پیش نظر اپنے بیانیہ سے انحراف کیے جارہا ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے پارٹی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ( ن) کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایک شخص کے ہاتھوں دو بار بے وقوف بننا شرمناک ہوگا، عوام کی اکثریت نوازشریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنتے دیکھنانہیں چاہتے، لیکن اب مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی قیادت حکومت بنانے کے لیے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں ، ایک دوسرے سے سے معاملات طے کررہے ہیں ،یہ سب دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں کی ڈوریں کہیں اور سے ہی ہلائی جارہی ہیں۔
اس صورتِ حال سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ عوام جائے بھاڑ میں، جو اسکرپٹ لکھا گیا ہے، اس کے مطابق ہی کہانی آگے بڑھے گی،آرمی چیف نے بھی کہا ہے کہ قوم کو انتشار کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے شفا بخش رابطے کی ضروت ہے، جبکہ عوام صدمے میں ہیںکہ اُن کے فیصلے کو ایک بار پھرتبدیل کیا جارہا ہے، عوام کے مسترد کردہ کو ہی دوبارہ لایا جارہا ہے ،عوام کوطاقت کے زور پرکب تک ایسے ہی یرغمال بنایا جاتا رہے گا اور عوام سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتے رہیںگے؟ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے ، عوام دیکھتے رہے ہیں کہ کیسے ان کی ووٹ کی تذلیل کی جاتی رہی ہے
اور کیسے رات گئے انتخابی نتائج بدلے جاتے رہے ہیں ، اس سارے عمل کو کیسی نے روکا نہ ہی ٹوکا گیا ہے،بلکہ لیکشن کمیشن آف پاکستان بھی بے بس ہی دکھائی دیاہے۔
اس ساری بے بسی کو دیکھتے ہوئے ہی امریکا کو بھی کہنا پڑا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں اظہارِ رائے کی آزادی دی گئی نہ ہی انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن سروسز تک رسائی دی گئی ہے،اس کی مذمت کرتے ہوئے امریکی ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکا انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات پر فکرمند ہے،
انتخابات میں مداخلت یا دھوکا دہی کے سارے دعووں کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے،لیکن یہ سب کچھ کیسے ہو گا ،جبکہ اس وقت میڈیا تک کنٹرول میں ہے اور جبر اتنا ہے کہ کوئی بدترین دھاندلی اور آزاد اُمیدواران کی خرید فروخت پر کھل کر بات بھی نہیں کر پارہا ہے،تاہم صدرِ مملکت بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب مزید کھدائی بند کی جائے، لیکن یہ ایسی کھدائی ہے کہ بند ہو نے میں ہی نہیں آرہی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ نگران حکومت کے ساتھ الیکشن کمیشن بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کر نے میں ناکام رہا ہے ، اس پر شرم سار ہونے کے بائے تعریفوں کی پل باندھے جارہے ہیں ، ایک متنازع الیکشن کے کا میاب انعقاد پر ایک دوسرے کو مبار بادیں دی جارہی ہیں ، جبکہ بیشتر سیاسی پارٹیاں ان کے دفاتر کے باہر سراپہ احتجاج ہیں اور ان کے غیر ذمہ دارانہ کردار کے خلاف آواز اُٹھا رہی ہیں ، الیکشن کمیشن کے پاس وقت ہے
کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کر کے اپنے پر لگنے والے دھامندلی کے دھبے دھولے ،ورنہ عوام بھولیں گے نہ ہی متاثرہ اہل سیاست معاف کریں گے ،سیاسی قیادت پہلے ہی لیکشن کمیشن سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، لیکن اس مطالبے کا الیکشن کمیشن پر کو ئی اثر ہی ہو رہا ہے نہ ہی اپنی روش بدل رہا ہے بلکہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر ہی گامزن دکھائی دیے رہا ہے۔اس وقت کا تقاضا ہے کہ اہل سیاست ہی ہوش کے ناخن لیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہنے کے بجائے عوام نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے
جن نمائندوں کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے ، اس عوامی مینڈیٹ کا دیگر سیاسی جماعتوں کواحترام کرنا چاہئے ، پا کستانی عوام اب مزید کسی انتشار کے خواہاں نہیں ہیں ، عوام چاہتے ہیں کہ ملک کے سیاسی و معاشی حالات بہتر ہو جائیں ، تاکہ اُن کی زندگیوں میں بھی کوئی تبدیلی آئے ،کوئی خوشحالی آئے ، لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے کہ جب اقتدار اُن ہاتھوں میں جائے کہ جنہیں عوام نے اپنا حق رائے دہی دیتے ہوئے منتخب کیا ہے ،عوامی مینڈیٹ کی قدر ہی ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لائے گی۔