ووٹ کو عزت دیناہو گی ! 105

اپنی جمہوریت سے عداوت کیسی !

اپنی جمہوریت سے عداوت کیسی !

اس بار انتخابات کے انعقاد سے پہلے اور بعدازاں بہت انہونی باتیں ہورہی ہے ، یہ پہلے انتخابات ہیں جو کہ اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو گئے تھے اور رہی سہی کسر پہلے دن جیتنے والوں کو دوسرے دن ہرا کر پوری کر دی گئی ہے ،ملک میں چاوں ا طرف د ھاندلی کا شور برپاہے ، احتجاج ہورہے ہیں ، دھرنے دیئے جارہے ہیں، اس سارے شور شرابے میں کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے بھی اپنے حلفیہ بیان میں الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تصدیق کردی ہے، لیکن نگران حکومت کے ساتھ الیکشن کمیشن بضد ہیں کہ انتخابات شفاف ہی ہوئے ہیں ۔
اس انتخابات کے انعقاد سے پہلے ایک عام تاثر تھا کہ انتخابات کے بعد ملک میں بے یقینی کاخاتمہ ہو جائے گا ،مگر اس کے برعکس ملک میں بے یقینی کی صورتِ حال مزید خراب ہوتی جارہی ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایسے بدترین انتخابات کرائے گئے ہیں، جو کہ کرانے والوں کے لیے بھی مشکل کا سبب بن گئے ہیں،

اس انتخابات کی غیر شفافیت کے بارے کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے اپنی تہلکہ خیز پریس کانفرنس میں سارے ہی پول کھول کر رکھ دیے ہیں،کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے تیرہ حلقوں کے نتائج تبدیل کیے گئے، ہارے ہوئے امیدواروں کو بڑی دھاندلی سے جتوایا گیا ہے ، میرے سامنے پریزائیڈنگ افسران رو رہے تھے کہ ہم سے ایسا کام نہ کروایا جائے،لیکن میں نے انہیں مجبور کیا ،کیو نکہ مجھ پر انتہائی دبائو تھا، مجھے راولپنڈی کے کچہری چوک میں سزائے موت دی جائے اور میرے ساتھ الیکشن کمشنر اور دیگر کو بھی سخت سزائیں دی جائیں، کیو نکہ انتخابات میں دھاندلی کرانا،جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔پا کستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے

کہ جب انتخابات ہونے کے بعد اس میں ہونے والی دھاندلی سے متعلق لوگ باتیں کرتے رہے ہیں،ثبوت پیش کرتے رہے ہیں ،مگر اس انتخابی دھاندلی کو روکنے کا کوئی بند وبست کیا گیا نہ ہی دھاندلی کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا گیا ہے ، یہ پہلا موقع ہے کہ ایک بیورو کریٹ خود حلفیہ بیان دیے رہا ہے کہ اس نے دھاندلی کروائی ہے، اس کی تحقیقات ہو نی چاہئے اور اس کے پیچھے ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے

،لیکن ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے،یہ سارا اُڑتا دھاندلی کاغبار کچھ دن بعد خود بخود حسب روایت بیٹھ جائے گا اور ایک دھاندلی زدہ حکومت قائم ہو نے کے بعد اغیار کے دیے گئے ایجنڈے کے مطابق کام کر نے لگے گی ۔کیا ایسی دھاندلی زدہ حکومت کی کوئی ساکھ ہوگی اور کیا عوام اسے قبول کریں گے ؟ اس کی کوئی ساکھ ہوگی نہ ہی عوام قبول کر نے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں ،اس دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد سے عوام میں اضطراب بڑھتا دکھائی دیے رہا ہے ، اس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے

کہ ایمر جیسی یا مار شل لا لگ جائے ، اس کا عندیہ کچھ سیاستدان بھی دیے رہے ہیں،لیکن کیا ہمارے ادارے اس پوزیشن میں ہیں کہ مارشل لا لگا سکیں؟ اس کی ضرورت بھی کیاہے، جب کہ ہمارے سیاست دان ہی جی حضوری میں ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں اور وہ سب کچھ کر گزرہے ہیں ،جوکہ مقڈدرہ کرانا چاہتے ہیں، اس کی تصدیق مو لانا فضل الرحمن نے نام لے کر کردی ہے کہ ہر سیاسی بگاڑ کے پیچھے اور تحریک عدم اعتماد کے پیچھے کون لوگ رہے ہیں او ر ان کی وجہ سے ہی سیاسی جماعتیں پنپ سکی ہیںنہ حکومت اپنی مدت پوری کر سکی نہ ہی سیاست آگے بڑھ سکی ہے۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں ،مگر غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کی اجازت سیاسی قوتوں نے ہی دی ہے ، اہل سیاست ہی بار بار غیر سیاسی قوتوں کو مدخلت کرنے کی دعوت دیتے رہے ہیں اور آج بھی دیے رہے ہیں ، لیکن اب تک جتنے مارشل لا لگے ہیں، ان سے ملک کی کونسی خدمت اور کو نسی بہتری ہوئی ہے؟ پاکستان کی تاریخ میں مارشل لا کا ایک تسلسل رہا ہے ، ہر مرتبہ مار شل لاء آنے پردعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ یہ مارشل لا ملک کے مسائل حل کرے گا، لیکن ہر بار یہ دعویٰ غلط ہی ثابت ہوا ہے، مارشل لا نے جمہوریت کمزور اور انسانی حقوق پامال ہی کیے ہیں،اس کے ساتھ معاشی ترقی کو بھی روکا ہے۔
اگر آج دیکھا جائے تو وطن عزیز مہنگائی ،غربت اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور ہماری سیاسی قیادت، سول و غیر سول بیوروکریسی سیاسی ومعاشی بدحالی سے نکالنے کے بجائے مزید بد حالی کے دلدل میں دھکیلے جارہی ہے ، ہم نے ایسی ہی بدترین حکمرانی کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کھو چکے ہیں، اب بلوچستان میں آگ وخون کا کھیل کھیلا جارہا ہے ،اس آگ و خون کے کھیل کو بند کر نا ہے

اور بد ترین حکمرانی سے باہر نکلنا ہے ، لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا کہ جب آئی ایم ایف کی گرفت سے نکل کر اپنی آزادی و خودمختاری کو یقینی بنایا جائے گا، اس کیلئے پوری قوم یکسو ہے کہ جمہوری سیاسی عمل ہی اپنی ساری خرابیوں کے باوجود بہتر طریق کار ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی رائے کا احترام کیا جائے اور جمہوریت کے ہی راستے پر آگے بڑھا جائے ، اپنی جمہوریت سے عداوت کیسی ہے کہ اسے چلنے ہی نہیں دیاجارہا ہے ،اپنی جمہوریت جیسی بھی ہے،اس کی خرابیاں دور کرکے آگے بڑھنے میں ہی ملک کی بھلائی و سلامتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں