اور لائین کٹ گئی
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
ماں کے پیٹ میں بچے کی ابتداء سے تولید کے مراحل تک کے بارے میں قرآن مجید کیا کہتا ہے؟
“اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے نچوڑ سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ کے قطرے کے طور پر (ماں کےپیٹ میں) مضبوطی سے رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بنایا اور اس لوتھڑے سے، ہم نے جنین بنایا۔ پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیاں بنائیں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر ہم نے اس میں سے ایک اور مخلوق تیار کی۔ تو بابرکت ہے خدا جو بہترین تخلیق کرنے والا ہے‘‘ (قرآن 23:12-14)
ماں کے پیٹ میں بچے کےجسم میں روح پھونکے جانےوالےوقت پر،احادیث نبویﷺ میں کیا بتایا گیا ہے
“تم میں سے ہر ایک، ماں کے پیٹ میں،چالیس دن تک پیدا ہوتا ہے، پھر اتنی ہی مدت کے لئے گاڑھے خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے اور پھر اتنی ہی مدت تک گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے۔ پھر خدا ایک فرشتہ بھیجاجاتا ہے جسے چار چیزیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اسے حکم دیا گیا ہے کہ اس کے اعمال، اس کی روزی، اس کی وفات کی تاریخ، اور یہ کہ وہ برکت والا ہے یا بدبخت۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔‘‘
(صحیح البخاری 3036)
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی بنیاد پر، فقہاء نے اندازہ لگایا کہ استقرار حمل کے بعد، تقریباً 4 ماہ یا 120 دن میں، روح جنین میں داخل ہوتی ہے۔ اس طرح، جب جنین 120 دن کی عمر کو پہنچ جاتا ہے (تقریباً دوسری سہ ماہی کے وسط میں)، یہ اب محض ایک جاندار نہیں رہتا بلکہ صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اسلامی قانون کی دوہری، مابعد الطبیعیاتی نوعیت کے پیش نظر، جنین روح کی موجودگی کے ساتھ ایک ممکنہ انسان ہے
جنین ممکنہ ہے اور روح انسانیت کو حقیقی بناتی ہے جس مقام پر اسے زندہ انسان سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس نقطہ سے بھی مطابقت رکھتا ہے جہاں زیادہ تر اعضاء میں فرق ہوتا ہے اور جنین انسانی شکل اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر بچہ اس وقت کے بعد،یہ حمل کے ابتدائی 120 دن بعد، کسی بھی وجہ سے مر جائے
تو اسے صحیح طریقے سے دفن کیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ اس طرح پڑھی جائے گی جیسے وہ بچہ ہی مر گیا ہو۔ اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ہونے کا تعین صرف حیاتیات سے نہیں ہوتا بلکہ بعد تصور ایک مقررہ وقت کے بعد، روح ڈال دئیے جانے سے ہوتا ہے۔ یہ اس روح کی موجودگی ہے جو اخلاقی استحکام اور زندگی، مدد اور رزق، اور نسب کی حفاظت سمیت بعض حقوق کے قیام سے مطابقت رکھتی ہے۔
اس اعتبار سے ماں کے پیٹ میں حمل کا عمل شروع ہوئے پہلے دن سے، 4 ماہ یعنی کم و بیش 120 دن کے بعد، جب ماں کے پیٹ میں پروان چڑھ رہے بچے کے جسم میں روح پھونک دی جاتی ہے اور مقدار رزق و وقت موت سمیت، اچھے بھلے پر مشتمل اسکی تقدیر لکھ دی جاتی ہے،اسکے بعد ساقط حمل والی گولیاں کھاتے ہوئے، یا کسی اور طریق حمل ساقط کیا جاتا ہے تو، ایک انسانی جان کو قبل ولادت ماں کے پیٹ ہی میں قتل کئے جیسا جرم سرزد ہوجاتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے رو سے، کسی ایک انسان کا بے جا قتل کیا جانا، پوری انسانیت کے قتل کئے جانے جیسا عظیم جرم تصور کیا جاتا ہے۔ماں کے پیٹ میں ایسے کسی ناحق قتل کئے گئے بچے کی باقیات یا از خود قدرتی عمل ضایع شدہ حمل باقیات کی تجہیز و تکفین ہم مسلمانوں پر ایسے ہی واجب ہوجاتی ہے جیسے کے ہمارے درمیان سے کوئی مرجائے۔ اور یقیناً ایسے ماقبل ولادت قدرتی طور انتقال کرگئے یا مار دیئے گئے بچے، کل قیامت میں، پھول مانند دوبارہ زندہ کئے جائینگے۔ اور اپنے والدین سے بھی ملیں گے۔انشاءاللہ۔
ماں کے پیٹ میں، ان جنمی اولاد کا، یوں مار دیا جانا،جدت پسند ترقی یافتہ معاشرے کا جزء لاینفک ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے ماں کے پیٹ میں مار دی گئی تصوراتی بچی کا، جنت سے دنیا میں موجود اپنی ماں سے، تخیلاتی انداز فون کر، قبل از اسے قتل کر دیئے جانے پر، اپنی والدہ ماجدہ سے شکایتی مکالمےکو ایک خوبصورت درد بھرے انداز میں پیش کرنے کا، جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے شہر بھٹکل کے ایک شاعر، ڈاکٹر حنیف شباب کو نہ صرف شرف حاصل ہوا ہے بلکہ اس ایک نظم نے، جہاں انہیں جنوب ھند کے ایک مستند شاعر کے طور شہرت بھی دی ہے۔ وہیں پر ھند و پاک بنگلہ دیش کے اسکول و مدارس اسٹیج پر، اس نظم کو متعدد مرتبہ سناتے ہوئے، ماقبل ولادت ماں کے پیٹ میں بیٹیوں کے قتل نہ کئے جانے کی آگہی پیدا بھی کی گئی ہے۔ آج مدرسہ الحسنات عثمان نگر بھٹکل کی طالبات نے، اپنے سالانہ پروگرام میں،اس نظم کو اسٹیج پر ڈرامے کی شکل گا کر، اور اداکاری کر،اسے جس بہتر انداز پیش کیا ہے،
اس نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم بھی ماقبل ولادت بچیوں کے قتل کئے جانے والی نحوست پر کچھ لکھیں۔اس موقع پے ہمارے انگنت قارئین اردو ادب سے یہی درخواست کریں گے۔ کہ وہ ھندو پاک بنگلہ دیش کے مسلم معاشرتی علاقوں کے مدارس، اسکول و کالجوں میں، انکے سالانہ پروگرام کے موقع پر، اس نظم کو کچھ ایسے منظر کشی پیش کرتے ہوئے،اس حساس موضوع ماں کے پیٹ میں ان جنمی بچیوں لے قتل کئے جانے کے خلاف مسلم معاشرہ میں آگہی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
اللہ ہی دعا ہے کہ شاعر بھٹکل محمد حنیف شباب کو صحت کاملہ والی عمر طویل عطا کرے اور ان سے ایسے بہت سے خدمت خلق والے بے مثال کام لے اور ہم مسلمین کو کم از کم، اس گناہ عظیم سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وما علینا الا البلاغ
نطفہ سے نو ماہی انجنمے بچہ کے مختلف مدارج