آمدِ رمضان پر غریب کی آہو بکا !
اس ملک میں پہلے ہی مہنگائی کیا کم تھی کہ آمدِرمضان پر گرانی کی لہرمیں اضافہ ہو گیا ہے ، نئی حکومت کی جانب سے انسداد مہنگائی اقدامات کے باوجوضروری اشیاء کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ جاری ہے، حکومت کی جانب سے بڑھتی قیمتوں پر کنٹرول کر نے کے بجائے نئے نمائشی اعلانات کیے جارہے ہیں ،
ایک طرف یوٹیلٹی سٹور کے ذریعے ساڑھے سات ارب روپے کے رمضان پیکج کا آغاز کیا جارہاہے تو دوسری جانب اس کی فراہمی کا ٹھیکہ اپنے ہی چہیتوں کو دیا جارہا ہے ، اس طرح عام آدمی کو سہولت پہنچانے کے نام پر اپنی ہی کمائی کی جارہی ہے،اپنوں کو ہی نوازا جارہا ہے اور غریب کا صرف نام استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ماہ ِ رمضان جیسے مقدس مہینے کو بھی اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ، ایک طرف حکمران رمضان پیکیج کے نام پر اپنے سیاسی مقاصد پورے کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب ذخیر ہ اندوز اور ناجائز منافع خور وں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ،جوکہ سرعام اپنی من مانیاں کررہے ہیں ، اس ماہ ِ مقدس میں ناجائز منافع خور صدقہ خیرات بھی کررہے ہیں ، لیکن یہ جتنی دکھائوئے کی خیرات کررہے ہیں ، اس سے چار گناہ زیادہ غریب کا خون چوس رہے ہیں ،
انہیں کوئی پو چھنے والا ہے نہ کوئی روکنے والا ہے ،کیو نکہ انتظامیہ ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور یہ سب کچھ ہی ملی بھگت سے ہورہا ہے ، جبکہ ہر حکومت سب کچھ جانتے ہوئے انجان بننے کا ڈرامہ کرتی رہتی ہے ، تاہم اس صورتحال میں ایک عام آدمی سوچنے پر مجبور ضرور ہو جاتا ہے کہ اس کے مفادات سے ریاست اتنی لا تعلق کیوں ہے؟
اہل اقتدار کی تر جیحات میں کبھی عام عوام رہے نہ ہی ان کے مفادات کا خیال کیا جاتا ہے ، یہ اہل سیاست اقتدار میں جن کے سہارے آتے ہیں ، اِن کی تر جیحات میں اُن کا ہی ایجنڈا رہتا ہے اور یہ اُن کے ہی ایجنڈے کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں ، یہ عوام اور اس کے نام کا استعمال ضرور کرتے ہیں ،لیکن عوام کو اپنے فیصلوں میں شامل کرتے ہیں
نہ ہی عوام کا کوئی فیصلہ مانتے ہیں ،یہ بند کمروں کے فیصلوں سے آنے والے بند کمروں کے ہی فیصلوں پر راضی رہتے ہیں ، عوام جیئے یامرے ،انہیں کوئی غرض ہے نہ ہی کوئی احساس ہے ، کیو نکہ یہ عوام کے حقیقی منتخب نمائند ہیں نہ ہی عوام کے ووٹ سے آئے ہیں، اگر یہ عوامی نمائندے ہوتے تو انہیں عوام کی فکر لاحق ہوتی اور عوام کیلئے کچھ کر گزرتے ، لیکن انہیں اپنے لانے والوں کی خدمت گزاری سے فرصت ہے
نہ ہی اُن کی غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں۔یہ اُوپر والوں کی مہر بانی سے آنے والوں کی شکر گزاریوں کا سلسلہ کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا ، اگرحکمران اُو پر والوں کی قدم بوسی سے نکلیں تو عوام کا بھی کچھ حال جان لیں ،جو کہ رمضان سے پہلے ہی رمضان مہنگائی پیکیج کے بوجھ تلے سانس ہی نہیں لے پارہے ہیں ،جبکہ انتظامی ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، پرائس کنٹرول کمیٹیاں اپنا کام کر نے کے بجائے سیاسی کارکنوں کو نوازنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں، غریب عوام جائے تو جائے
کہاں ، کس سے فر یاد کر ے ، کہاں شکایت درج کرائے ، ہر شکایت کا ئونٹر پر تو مہنگائی مافیاکا ہی کارندہ بیٹھا شکایت گزار کا مذاق اُڑا رہا ہے ، غریب کی تزلیل کررہا ہے ، بے چارے غریب عوام ماسوائے جھولیا پھلا کر بد دعائیں دینے کے کچھ بھی نہیں کر پا رہے ہیں ۔یہ آزمائے حکمران طبقے کی بے حسی کی انتہا ہے کہ اس ماہ ِ رمضان کی آمد پر بھی عوام جھولیاں پھلا کر بدوعائیں ہی دیئے جا رہے ہیں ،لیکن انہیں ایوان اقتدار میں کچھ سنائی ہی نہیں دیے رہا ہے ، جبکہ غریب کی بد دُعا تو عرش بھی ہلا دیتی ہے
، ڈریئے اس وقت سے کہ جب کہیں عرش پر غریب کی سن وائی ہو جائے تو کچھ بھی رہے گا نہ ہی کچھ بچے گا، اس سے پہلے ہی معاملات درست کر لینے چاہئے ، یہ قیمتوں میں بے جا اضافہ ہر سال رمضان ، عیدین اور دیگر مواقع پر ہی سامنے آ تا رہتا ہے، لیکن کسی حکومت نے بھی اس کے مستقل حل پر توجہ دی نہ ہی مو جودہ حکومت دیے رہی ہے ، یہ آزمائی حکومت ایک بار پھر اپنے وہی پرانے آزمائے فارمولے آزمائے جارہی ہے ،یہ معاملات رمضان پیکیج سے حل ہونے والے ہیں نہ ہی نمائشی اعلانات سے کوئی تبدیلی آنے والی ہے ،
متعلقہ سرکاری محکمے جب تک رمضان المبارک کے دوران بنیادی اشیا کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھنے کا موثر نظام تشکیل نہیں دیں گے اورعوامی شکایات کا ازالہ نہیں کریں گے ، عوام کو رلیف نہیں ملے گا ، اس کاحکومت کو فی الفور نوٹس لینا چاہئے اور انسدادِ گرانی کمیٹیوں کو فعال کر کے عام مارکیٹ میں روز مرہ اشیاکی قیمتوں کو اعتدال پر لانا چاہئے ، تاکہ عوام ماہِ مقدس میں مصنوعی گرانی کی اضافی لہر سے محفوظ رہ سکیں ،لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، یہ حکومت ماہِ مقدس میں غریب کی آہیں اور بد دعائیں ہی لیتی رہے گی اور عذاب الٰہی کو دعوت دیتی رہے گی۔