اس بار عوام ہی سب پر بھاری ہے ! 60

یہ کمپنی نہیں چلے گی !

یہ کمپنی نہیں چلے گی !

مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی اقتدار میں توآگئی ہیں ،لیکن دونوں ہی پارٹیاں انتہائی مشکل حالات سے گزرہی ہیں،یہ دونوں ہی پارٹیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ وہ کیسے اقتدار میں آئی ہیںاور دونوں کو ہی علم ہے کہ پی ٹی آئی کو جتنا دبایا جائے گا، وہ اتنا ہی اُبھر کر سامنے آئے گی، اس لیے دونوں ہی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ کسی طرح پی ٹی آئی کے ساتھ حالات ٹھیک ہو جائیں، مگر دونوں ہی مجبور ہیں، کیو نکہ ان کی ڈوریاں لانے والوں کے ہاتھوں میں ہیں اوروہ ابھی ایسا نہیں چاہتے ہیں،اس لیے انہیں لانے والوں کے ہی اشاروں پر چلنا پڑے گا۔
اس ملک میں ایسا کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے ، اس سے قبل بھی ایسا ہی کچھ ہوتا آیا ہے ، لیکن اس بار ایسے ریکارڈتوڑے گئے ہیںکہ ساری دنیا ہی کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ دھاندلی نہیں ،دھاندلا ہوا ہے ،اس کے باوجود کسی کے کان پر کوئی جوں رینگ رہی ہے نہ ہی اپنی خراب ساکھ بحال کرنے کا خیال آرہا ہے ،ایک طرف فارم 45 میں ہارے ہوئے فارم 47 پر حلف لے کر پارلیمان کا حصہ بن گئے ہیں

تو دوسری جانب جیتے ہوئوں کی ہی مخصوص نستیں ہارے ہوئوں میں بانٹ دی گئی ہیں،یہ الیکشن کمیشن اپنا کونساکردار ادا کررہا ہے اور کو نسے آئین و قانون کی پاداری کررہا ہے ، الیکشن کمیشن سرعام آئین و قانون کی خلاف ورزیاں کررہا ہے ،لیکن کوئی پوچھ رہا ہے نہ ہی کوئی روک رہا ہے ، کیو نکہ اندر سے سب ہی ملے ہوئے ہیںاور سب مل کر ہی عوام کا فیصلہ بدل رہے ہیں ۔اس انتخابات سے پہلا کہا جارہا تھا کہ اس انتخابات سے استحکام آئے گا ،مگر اس انتخابات کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ انتشار مزید بڑ ھے گا ،

کیو نکہ انتخابات شفاف ہوئے نہ ہی انتخابی نتائج میں کوئی شفافیت رکھی گئی ہے ، اس ا نتخابات کا ملک وعوام کوکوئی فائدہ نہیں ہوا ہے ،لیکن مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی کو اتنافائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہار کر بھی اقتدار میں آگئے ہیں،جبکہ تحریک انصاف کو پتہ چل گیا ہے کہ قوم اس کے ساتھ ہے ، عوام کی بڑی تعدادنے انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دئیے ہیںاور اس کا ورکر پوری طرح چارج ہے، اگر مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی نے مجبوری کے عالم میں بھی ان سے ٹکرانے کی کوشش کی تو ان کے عوامی خسارے میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔اس صورتحال میں بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے

کہ فارم 47والی حکومت کا دورانیہ کچھ زیادہ دیر تک نہیں رہے گا، اگر نئی اتحادی حکومت دو ہزار چوبیس نکال جائے تو بہت بڑی بات ہو گی، کیو نکہ اس انتخابات میں عوام کے ووٹ کی جس طرح تز لیل کی گئی ہے ، اس کے پیش نظر لوگ اپنے ووٹ کی عزت کیلئے کسی بھی وقت باہرنکل سکتے ہیں،وہ لوگ ہی باہر نکل سکتے ہیں کہ جنہیں پیپلز پارٹی قیادت نے پیر پگاڑا کے مریدین کہا تھا، جو کہ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے تھے اور وہ لوگ بھی نکل سکتے ہیں کہ جنہیں مسلم لیگ ( ن ) قیادت نے پا گل کہا تھا ، جبکہ مولانا فضل الرحمن رمضان کا مہینہ گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں، یہ سب جب باہر نکلیں گے تو پھر اتحادی حکومت کہاں نظر آئے گی ،ہر طرف دمادم مست قندل ہوتا ہی دکھائی دیے گا۔
اس بات کا ایوان اقتدارمیں آنے والوں کو ادراک ہی نہیں ہورہا ہے کہ عوام اب زبانی کلامی نمائشی اعلانات سے بہلنے والے ہیں نہ ہی آزمائے وعدئوں کے سہارے چلنے والے ہیں، عوام مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں ، اپنے بڑھتے مسائل کا فوری تدارک چاہتے ہیں جو کہ آزمائی قیادت کے بس کی بات نہیں ہے ، یہ جانتے ہوئے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے ، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہوش سے کام لیا جائے اور مذاکرات کا آغاز کیا جائے، سارے ہی سیاسی قیدی رہا کیے جائیں اور ملک کو آگے بڑھایا جائے، ملک ایک گرداب میں پھنسا ہوا ہے، اس کو مزید کسی دلدل میں دھکیلنے کے بجائے اس سے نکالنا اشد ضروری ہے اور یہ کام سب سے بہتر انداز میں وہی کر سکتے ہیں کہ جن کے پاس اصل اختیار ہے۔
اس وقت ملک انتہائی نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے،سیاسی و معاشی بحران نے ملک کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور عوام اپنے حق رائے دہی کے خلاف سراپہ احتجاج ہیں،اس صورتحال میں کوئی آزمائی کٹھ پتلی حکومت ماسوئے نمائشی اقدامات کے کچھ کرسکتی ہے نہ ہی اس خوفناک بھنور سے ملک کو باہر نکال سکتی ہے ، اگر ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنا ہے تو با اختیار لوگوں کو اختیار عوام کے حقیقی نمائندوں کو دینا ہی ہو گا ، اس کے بغیر آگے بڑھا جاسکتا ہے نہ ہی ملک کو آگے لے جا یا جاسکتا ہے ، ملک پہلے ہی دوراہے سے چوراہے پر آچکا ہے، اگر اب بھی مفاہمت کے بجائے طاقت کا ہی استعمال کیا جاتا رہا تو معاملات ہاتھو ں سے نکل کر کہیں اور ہی نکل جائیں گے،اس کے آثار بڑے ہی واضح دکھائی دیے رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں