ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے
جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
نئی منتخب ہونے والی شہبازشریف سرکار کولگتاہے سر منڈواتے ہی اولے پڑنے والی صورت ِ حال کا سامنا کرناپڑ سکتاہے کیونکہایف بی آر ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 9415ارب روپے پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے دوسرا دوست ممالک نے مزید قرض دینے سے صاف انکارکردیا ہے تیسرا IMF نے مزید قرض دینے کے لئے اپنی شرائط پہلے سے زیادہ سخت کردی ہیں اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ کڑے دن آنے والے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ قوم مزید قربانی دے
خود رہبران ِ قوم ہیں الائشوں میں گم
ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے
نئے وزیر خزانہ کا کہنا ہے اپنے کوٹے کے حساب سے ہم IMF سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل مدت کا پروگرام لینا چاہتے ہیںIMF پروگرام میں تسلسل رہیں گے تو معاشی نظم و ضبط رہے گا۔ معیشت کی بہتری ہماری حکومت کا ہدف ہے، وزیراعظم شہباز شریف معیشت کی بہتری کیلئے کلیئر وڑن رکھتے ہیں ماضی کے مقابلے میں جی ڈی پی بہتر ہے دوست ممالک نے واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ امداد نہیں بذریعہ سرمایہ کاری مدد کرنا چاہتے ہیں‘ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ پرائیویٹ انویسٹمنٹ بھی ایس آئی ایف سی کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے رابطہ کریں گے
تو ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہو جائے گی سی پیک کے دوسرے مرحلے کو فاسٹ ٹریک کرنا ہے۔ سی پیک سے آنے والی بہتری کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ توانائی کے مسائل حل ہونے تک صنعتوں کی مسابقتی ترقی نہیں ہو سکتی ہمارے پاس ایساکوئی سوئچ نہیں ہے جو دبائیں تو میکرو استحکام کے ثمرات ملنا شروع ہو جائیں گے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے درست سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو پرائیویٹ سیکٹر کی طرف لے جائیں گے۔ ٹیکس بیس بڑھانے پر توجہ دیں گے
حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی لانا ہو گی حکومت کو سب سے پہلے اپنے گھر کو درست کرنا ہو گا۔ نئے وزیر ِ خزانہ کے خیالات لگتاہے زیادہ تر خواہشات پر مبنی ہیں اور گا گے گی کا نیا چورن ہے جو وہ بیچنا چاہتے ہیں حالانکہ ان کی اولین ترجیحات میں حکومتی اخراجات میں واضح کمی ہونا چاہیے اس کے بغیر کوئی تدبیر کارگرنہیں ہوسکتی اس کی طرف آج تک کسی حکومت نے توجہ ہی نہیں دی کیونکہ سب کو پروٹوکول اچھا لگتاہے
ویسے تو نئے وزیر ِ خزانہ محمد اورنگ زیب نے مزید لچھے دار باتیں کرکے قوم کو لبھانے کی کوشش کی ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ اقدامات‘ اعلانات سے زیادہ نظر آئیں گے شرح سود میں کمی اورٹیکس نظام میں شفافیت حکومت کی اولین ترجیح ہے اور ہم قومی آمدنی میں ٹیکسوں کا حصہ 10 فیصد تک پہنچانا چاہتے ہیںIMF نے موجودہ قرض پروگرام کی آخری قسط میں 1.1 ارب ڈالر دینے ہیں جبکہ نئے قرض پروگرام کا ابتدائی خاکہ تیار کیا جارہا ہے جس کے لئے مذاکرات شروع کئے جارہے ہیں ۔ بہرحال مزے کی بات یہ ہے کہ سے مذاکرات شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا تھا
کہ پاکستان نے دوسرے جائزے کے اہداف کو کامیابی سے حاصل کرلیا ہے اس کے نتیجے میں IMF پروگرام اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی تیسری قسط کے اجرا کی توقع ہے یہ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کا حتمی جائزہ ہوگاIMF آئندہ مذاکرات کے دوران کچھ تشویش کے معاملات ہوں گے کیونکہ اسٹینڈ بائی پروگرام نے پہلے چھ ماہ کے دوران 974 ارب روپے کے قریب منافع دیا ہے جبکہ اس کا ہدف 1074ارب روپے تھا۔ جنوری سے جون 2024 تک کے دوسرے نصف کے دوران غیر محصولاتی آمدن کے بھی ہدف کے مطابق ہونے کے زیادہ امکانا ت نہیں ہیں کیونکہ FBRکا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 9415ارب روپے تھا
جوپورا نہیں کیا جاسکا اس طرح فروری 2024 تک اس میں 33 ارب روپے کا خسارہ تھا۔ نئے وزیر ِ خزانہ قوم کو صاف صاف کیوں نہیں بتاتے کہ FBR مارچ 2024تک 879 ارب روپے اہداف حاصل کرناچاہتاہے خدانخواستہ یہ ہدف بھی پورا نہ ہوا تو پھر عوام پر نئے ٹیکسز لگانے کی نئی منصوبہ بندی کی جائے گی موصوف یہ تو کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا، دوست ملکوں سے قرض لے کر رول اوور کروانے کا فارمولا اب نہیں چلے گا جناب یہ بھی اس لئے کہاجارہاہے
کہ اب کہ دوست ممالک نے ہاتھ کھڑے کرکے واضح طورپر کہہ دیا کہ مدد کرنا چاہتے ہیں امداد یاقرض نہیں انوسٹمنٹ نہیںکرنا چاہتے ہیں اس گھمبیر صورت ِ حال سے نکلنے کیلئے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرناہوں گے معیشت کی بحالی،سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں دعوے کرنا سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا کیونکہ اب عوام میں مزید قربانیاں دینے کی سکت نہیں ہے۔