56

”انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف کادفاع وطن میں پاکستانی افواج کے موثرکردار کااعتراف“اور

”انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف کادفاع وطن میں پاکستانی افواج کے موثرکردار کااعتراف“اور 

آغا سفیرحسین کاظمی،شہدائے وطن میڈیا سیل

قارئن! ہمارے داخلی حالات جیسے بھی ہوں مگر یہ حقیقت ہے ۔سرحدوں پرہویا ہماری صفوں میں جہاں بھی قومی سلامتی کے تصور کودھچکا لگنے کا احتمال ہو، وہاں قوم کے بہادر سپوت (انٹیلی جنس ادارے،فوج،پولیس،ایف سی،رینجرز) اپنے مینڈیٹ کے مطابق جانیں ہتھیلی پہ رکھے جذبہ حب الوطنی سے سرشار کردارکیساتھ نمایاں نظر آ تے ہیں۔پاکستان کا امن و استحکام اِنھی سرفروشوں کی جہد مسلسل اور قربانیوں کامرہون منت ہے۔۔۔۔۔۔اب توانڈین چیف اف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان نے بھی ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے

پاک فوج کے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کااعتراف کیا ہے۔اورقراردیا ہے کہ پاکستان شدید معاشی بحران کے باوجودانڈیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ انیل چوہان کا کہنا ہے پاکستان کے معاشی بحران اور دیگر خرابیوں سے فوج کی صلاحیت و مہارت پر کوئی منفی اثر نہیں ہوا وہ اج بھی مضبوط اور انڈیا کے لیے خطرہ ہے انڈین چیف اف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان نے چین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دو پڑوسی ایسے جو ہمارے خلاف ہیں دونوں کا دعوی ہے کہ ان کی دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری ہے

اور دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھی ہیں۔اس لیے ہمیں ہتھیاروں کے نئے نظام اور نئی نئی ٹیکنالوجیز اپنانے کے ساتھ ساتھ حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔۔۔۔۔۔قارئن! ایک طرف جب کہ ہمارے ملک میں سیاسی قوتوں میں سرد و گرم جنگ کا ماحول چلتا رہتا ہے اور اس حوالے سے یہ قوتیں ایک عمومی پالیسی رکھتی ہیں کہ ہمہ وقت کسی نہ کسی سیاسی قوت نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنی ہوتی ہے۔ بدگمانیاں اور شکوک و شبہات پیدا کر کے عوام میں تشویش پھیلانی ہوتی ہے۔تاکہ فوج کو دباؤ میں رکھ کر ملک و قوم کے مفادات کے حوالے سے من مانی کرتے ہوئے اپنی سیاسی ترجیحات پر کام جاری رکھ سکیں

۔ کوئی نظریہ ضرورت کے تحت پاک فوج کی نہایت حمایت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ساتھ کھڑے رہنے کے دعوے کرتی ہے لیکن جونہی حکومت اور اپوزیشن کا کردار بدلتا ہے جو اپوزیشن میں ہوتا ہے حکومت میں انے کے بعد پاک فوج کی تعریف کرنے لگتا ہے جو اپوزیشن میں چلا جاتا ہے وہ کھل کے بات کرے تب بھی اور اگر کھل کے نہ بات کرے تب بھی اشاروں کنائیوں سے وہ پاک فوج کے حوالے سے منفی پروپگنڈے کو ایندھن فراہم کرتا رہتا ہے پچھلے چند سال سے ایک جماعت کی طرف سے تمام حدود کو پھلانگ دیا گیا اور شخصیت پرستی اور انا پرستی پر ملک کی سلامتی پر ضرب لگانے کی حماقت بھی کی گئی

مادر وطن کے محافظوں کے مرکز پر حملہ شہیدوں کے یادگاروں پر توڑ پھوڑ جیسے مجرمانہ فعل بھی انجام پائے اور بعض عناصر یوں تاثر دیتے ہیں جیسے کہ اب فوج کے خلاف منفی پروپگنڈے کی وجہ سے وہ کامیاب ہو جائیں گے لیکن پاکستان میں رائج انتخابی سیاست کی ضرورتوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور پتہ ہی نہیں چلتا کب کون کس کا حامی ہے اور کس کا ناقد ہے ایسے میں پاکستان کے ازلی دشمن انڈیا کے چیف اف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل ایل چوہان نے نئی دلی میں ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعتراف محب وطن پاکستانیوں کیلئے حوصلہ افزاء ہے۔۔
سپاہیانہ کردارکیساتھ سرگرم جانباز،کسی محاذ پر جب فرائض ادا کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرتے ہیں۔ وہ تن تنہا اپنی جان مادر وطن کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے قربان نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ ُان ماں باپ کی خوشیاں بھی قربان ہو جاتی ہیں کہ جن کے بڑھاپے کی لاٹھی انھیں بننا تھا۔تب اُس اہلیہ کی خوشیاں بھی قربان ہو جاتی ہیں جس کا سہاگ قربان ہوتاہے۔ اُن بچوں کی خوشیاں بھی قربان ہو جاتی ہیں

جن کے سر کا سایہ اٹھ جائے۔۔۔اس لئے جب دفاع وطن کیلئے خدمات انجام دینے والے متذکرہ بالا اداروں کے سپوت سرگرم رہتے ہوئے شہید ہوتے ہیں تو بظاہروہ ہی ملک و قوم کیلئے قربان ہوئے ہوتے ہیں۔جبکہ حقیقت میں اُنکے پیارے تب تک قربان ہوتے رہتے ہیں جب تک اس دُنیا میں سانسیں باقی رہیں۔اور پھرملک کے قریہ قریہ سے تعلق رکھنے والوں پرمشتمل ہماری سکیورٹی فورسز ہی تو ہیں جو موجودہ وقت میں پاکستان کے وجود کا احساس باقی رکھے ہوئے ہیں۔قارئن!ہم گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہیں ہمارے احساسات ہیں ہمارے جذبات ہیں ہم بھی چاہتے ہیں بھرپور زندگی گزاریں، خوشیاں حاصل ہوں

اور کسی قسم کی کوئی تکلیف پریشانی بھی نہ اُٹھانی پڑے۔ ہم بھی چاہتے ہیں، بہت لمبا عرصہ جئیں،اللہ کے عطاکردہ سارے رشتوں کے ساتھ زندگی گزاریں۔ والدین کی خدمت کریں جنہوں نے گود سے لے کے کڑیل جوان بننے تک پتہ نہیں کس قدرمشکلات و مسائل کے باوجود شفقت محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پروان چڑھایا۔ وہ بہن بھائی جن کے ساتھ بچپن کے کھیلے کودے،ان کا ساتھ زندگی بھر جینے کی خواہش بھی فطری ہے۔ یقینی طور پہ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے تمام رشتوں اور تعلقات کے ساتھ بھرپور زندگی گزارے۔۔۔۔تصورمیں دیکھیں کہ جب والدین چھوٹے سے بچے کو انگلی پکڑ کے سکول لے جاتے ہیں

اور اس کو پڑھاتے ہیں اس کے تمام اخراجات پورے کرتے ہیں غرض یہ کہ اپنے خون پسینے کو اپنے خون جگر کو بچوں کے اوپر خرچ کرتے ہیں اور جب وہی بچے جوانی کی دہلیز پر پہنچتے ہیں تو والدین انہیں مادر وطن کی محافظ مسلح افواج پاکستان میں بھیجنے پر رضامند ہوتے ہیں بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے لخت جگر فوج میں جائیں جہاں ایک باوقار ذریعہ معاش ہی نہیں بلکہ مادر وطن کے لیے خدمات کی انجام دہی کا موقع میسر اتا ہے۔۔۔۔۔مائیں اپنے بچوں کو ہمیشہ آرام و سکون میں دیکھنا چاہتی ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچوں کو کہیں کوئی کانٹا بھی نہ چُبے۔ باپ کی کوشش ہوتی ہے

کہ ان کے بچے زندگی میں ہر قسم کے مسائل و مصائب سے بچے رہیں۔۔۔۔ ایک جوان جب فوج میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اُسے ایسا سپاہییانہ کردار ملتا ہے، جس پر یہاں زندگی میں فخر کیا جاتا ہے اور اگر کسی موقع پر مادر وطن اور اہل وطن کی سلامتی اور امن و سکون پر قربان ہونا پڑے تو وہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ آمادہ و تیار ہوتا ہے اور جان سے بھی گزر جاتا ہے۔۔۔۔ایسے سپاہیوں کو قوم دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتی ہے۔ جیسے گھر میں ایک سربراہ ہوتا ہے جس کے پاس گھر کے معاملات میں فیصلے کرنے کا اختیار ہوتا ہے اسی طرح قوم کے محافظوں کی تنظیم ایسی ہے

،جہاں کہاں کہاں کس کا کیا کردار ہوگا؟یہ سب کچھ تحریری طور پر طے ہے۔ فوج نہایت احسن انداز میں اپنے نظم و ضبط کو قائم و دائم رکھے ہوئے دفاع وطن کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ دو روز پہلے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشت گردوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر حملہ کیا گیا ہے،جہاں فورسز کے کمانڈنگ آفیسر کرنل سید کاشف علی نے اپنے جانبازوں سمیت دہشت گردوں کی در اندازی کی کوشش ناکام بنا دی لیکن امن دشمنوں نے بارود سے بھری ایک گاڑی چوکی کے عمارت کے ساتھ ٹکرا دی۔جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف علی جن کی عمر 39 سال تھی کراچی سے تعلق تھا،

اُنہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کیپٹن احمد بدر جن کی عمر 23 سال اور تعلق غازیوں کی سرزمین تلہ گنگ سے تھا، حوالدار صابر ساکنہ ضلع خیبر، نائیک خورشید لکی مروت، سپاہی ناصر تعلق پشاور سے، سپاہی راجہ کوہاٹ سے اور سپاہی سجاد ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے ہیں،انہوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ جبکہ پاک فوج کی شاندار روایات کے مطابق معرکہ میں شہید ہونے والے تمام جانبازوں کی نماز جنازہ بنوں کینٹ میں ادا کی گئی جہاں جنرل افیسر کمانڈنگ میجر جنرل انجم ریاض سمیت سول و عسکری حکام شریک ہوئے۔

دوسری جانب میر علی میں دہشت گردی کی لعنت کے خلاف سینہ سپر رہ کر جام شہادت نوش کرنے والے ان شہداء کی نماز جنازہ چکلالہ گریژن میں بھی ادا کی گئی۔جہاں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، چیف اف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر سمیت اعلی فوجی افسران سول حکام اور دیگر نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔مادر وطن کے دفاع کیلئے برسرپیکارجانبازوں کی تعظیم و تکریم کااظہارکرتے ہوئے

شہدا ئے وطن کے تابوتوں کوصدر مملکت، چیئرمین جوائنٹس چیف آف چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل شمشاد مرزا،آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اپنے کندھوں پہ اٹھا کر رخصت کیا۔اور قابل فخر روایات کے مطابق شہداء کے لواحقین کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہوئے اُنکی دلجوئی بھی کی گئی۔ صدر مملکت آصف علی زرداری، آرمی چیف،چیئرمین جوائنٹ چیف نے شہیدوں کے بزرگ والدین بچوں اور ان کی عفت مآب خواتین کو دلاسہ دیا اور ان کے پیاروں کی مادر وطن کے لیے قربانی پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے مبارک باد دی۔
قارئن کرام!وقت و حالات بدلتے رہیں گے۔مگردفاع وطن کی جہد مسلسل جاری ہے،اور جاری رہیگی۔۔۔بامقصد زندگیاں،کبھی موت سے خوف نہیں کھاتیں۔۔۔۔ملکی سلامتی کے تحفظ کی خاطرکسی بھی محاذ پرکرداراہمیت رکھتا ہے۔اور پھرقومی وحدت کاعلم ہماری مسلح افواج نے بلند رکھا ہوا ہے۔ جنہیں مملکت میں بسنے والے سبھی کیلئے یکساں کردارادا کرناہوتا ہے۔اپنے پیاروں پر اہل وطن کو ترجیح دے کر کسی بھی آزمائش میں جانیں قربان کرنے کا حوصلہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ محض روزگار کے لیے کوئی بھی اپنی جان داؤ پر ہرگز نہیں لگا سکتا، ایسا تب ہی ہوگا جب ماں کی گود سے لیکر فوج کی پیشہ ورانہ زندگی سے ملنے والی تربیت اور جذبے،شخصیت پر اثر انداز ہوں۔ بلا شبہ ماں کی گود سے جو سیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے

وہی آگے چل کر انسان کو کسی جانب بھی بڑھنے میں بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ لہذا یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ دفاعی ادارے کا مینڈیٹ صاف واضح ہے اس کی تنظیمی ترتیب وہ بھی واضح ہے کس نے کہا ں سے رول کرنا ہے؟ وہ بھی واضح ہے لہذا جس کی جہاں کوئی ذمہ داری بنتی ہے وہ اپنی ذمہ داری بطریق احسن ادا کرتا ہے۔
چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس میں جہاں مثبت چیزیں اُجاگر کرنا آسان ہو گئی ہیں، وہیں کسی بھی جھوٹ و پروپگنڈے کو پھیلانے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے موجودہ وقت میں ہمیں دنیا میں ہونے والی مختلف تبدیلیوں حالات و واقعات سے آگاہی کو سطحی طور پر لینے کے بجائے اسے گہرائی تک سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔۔۔کیونکہ جن ممالک کا دفاع کمزور ہو یا برائے نام ہو، اُن کی آبرو تک بِک جاتی ہے۔ دشمن کے سامنے کوئی مضبوط رکاوٹ موجود نہ ہو تو پھر حشر وہی ہوتا ہے

جیسا کہ اس وقت فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ موجود ازلی دشمن انڈیا اپنے تمام تر مکروہ گناہوں نے عزائم کے باوجود وہ ہمیں ترنوالہ نہیں بنا سکا، مقبوضہ جموں و کشمیر میں اُس نے جبر وبربریت کے بہت سے ہتھکنڈے آزمائے مگر ایسا پھر بھی نہیں کر سکا جو کہ کئی ممالک میں عوام کے ساتھ کسی جارہ قوت نے کیا۔لہذا یہ کریڈٹ ہماری بہادر مسلح افواج کو جاتا ہے کہ جن کی پیشاورانہ صلاحیتوں مہارت اور جذبوں کی بدولت دشمن ایک حد سے آگے جانے سے گریزاں رہتا ہے۔دیکھا جا سکتا ہے

مقبوضہ کشمیر میں کبھی بھی کسی ایک دو چند لوگوں کے خلاف قابض افواج کی جانب سے کوئی ایکشن کیا گیا تو اس کے خلاف پاکستان کی طرف سے اخلاقی طور پر ایک رد عمل آیا عوامی سطح پر رد عمل آیا جبکہ انڈیا بھی جانتا ہے کہ وہ اگر اسرائیلی طرز پر جبر اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کرے گا تو پاکستان کبھی بھی چپ نہیں بیٹھے گا۔دشمن کا یہ خوف یقینی طور پہ ہر حقیقت پسند سنجیدہ اور محب وطن انسان کو محسوس ہوتا ہے۔
جہاں یہ بھی کہنا ہے کہ منفی رویے کبھی بھی طاقت نہیں رکھتے، منفی روزانہ کبھی بھی دیر پا نہیں ہوتے۔بلکل درست سہی۔ مگر اِن پروپگنڈؤں کا جس قدر اثر پڑتا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ مثبت رویے مثبت رجحانات میں کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے،جس سے منفی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ مثبت رویے پروان چڑھیں، جہاں تک کسی کمی کوتاہی کا معاملہ آ جائے تو وہاں مثبت انداز میں توجہ دلائی جا سکتی ہے۔ چاہے وہ ہماری قومی زندگی کے کسی بھی پہلو سے متعلق کوئی چیز اصلاح طلب باور ہو،

لیکن یہ کوئی بات نہیں کہ عدم توازن کے شکار ہو کر یا تو سراسر جھوٹ اور بہتان تراشی سے قوم کی اجتماعی زندگی کو متاثر کیا جائے، اداروں کی ساکھ اور وقار کو خراب کرنے کی کوشش کی جائے یا پھر کسی ضرورت کے تحت کچھ زیادہ ہی تعریفوں کے ڈونگرے برسانے شروع کر دئیے جائیں۔۔۔ یہ دونوں چیزیں غلط ہوں گی، مناسب یہ ہوگا کہ جب بھی جہاں کسی پہلو سے کوئی بات کہنی ہو تو اس کا انداز مناسب ہو جو کہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہو کہ اصلاح کی ضرورت کی جانب توجہ دلانی مقصود ہے

نہ کہ طنز و تنقید کے راستے کھول کردشمنوں کو موقع دیدیاجائے۔قارئن!یہ مارچ کا مہینہ ہے اور چند دن کے بعد پوری قوم 1940 کی قرارداد لاہور کے تناظر میں پاکستان حاصل کیا گیا۔ جدوجہد کی گئی۔قراردادکے محض سات سال بعدمیں جو منزل ملی،اُس آزادی کے تحفظ کی جہد مسلسل جاری ہے۔ چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والی مسلح افواج پاکستان نے ملکی جغرافیائی سرحدوں کیساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کو بھی ہمیشہ اولیت دی ہے۔کیونکہ پاکستان بنا ہی نظریاتی بنیادپرہے۔
آئیے ہم سب اپنے عمل سے دنیا کو دکھا دیں کہ داخلی سطح پر جس قدر مسائل اور پیچیدگیاں ہوں مگر ہم اپنی قومی زندگی کو ہرگز متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ نہ ہی وطن عزیز پاکستان کو کسی پریشر گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہونے دینگے۔ کیونکہ اس ملک کے لیے جنہوں نے خون دیا۔ اورجنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کی اور کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے وطن عزیز کے دفاع ترقی اور استحکام کے لیے کردار ادا کیاہے۔اور کررہے ہیں۔ ہم اُن سب اپنوں کی قربانیوں کو ایثار کو فراموش نہیں کرسکتے کہ ایک غیرتمند قوم کایہی چلن ہوتا ہے۔ اور ہم نے ”پاکستان کی آزادی“کا تحفظ یقینی بنائے رکھے ہوئے اپنے محافظوں کیساتھ کھڑے رہتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔جیسا کہ اس بار یوم پاکستان کی مناسبت سے آئی ایس پی ار کی جانب سے ریلیز کیے گئے ملی نغمہ کے الفاظ
”پوچھے جو نام کوئی تو پاکستان بتانا“کی عملی تفسیرپیش کرتے رہنا ہے۔آئیے ہم گروہی لسانی علاقائی مذہبی تاثبات تنگ نظری کو رد کرتے ہوئے خود کو پاکستانی بنائیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں