61

ٹیکسز۔ٹیکسز اور ٹیکسز

ٹیکسز۔ٹیکسز اور ٹیکسز

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

لگتاہے پاکستانی شہریوں کے کٹھن دن پھر آنے والے ہیں کیونکہ ہر آنے والے لمحات کے ساتھ عوام پر نئے ٹیکسز لگانے کا تانا بانا بنا جارہاہے حکومت کا ایک ہی ایجنڈہ ہے ٹیکسز۔۔ ٹیکسز اور ٹیکسز اسی لئے ابتدائی طور پرفیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR)نے ڈیلرز، ریٹیلرز، مینوفیکچرر، امپورٹر کم ری ٹیلرز کی لازمی رجسٹریشن اسکیم کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے یکم اپریل سے ابتدائی طور پر 6 بڑے شہروں میں رجسٹریشن کی جائے گی،

عمل نہ کرنے والے کی نیشنل بزنس رجسٹری میں زبردستی رجسٹریشن کی جائے گی ملک کے 6 بڑے شہروں میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور شامل ہیں۔FBR کی تاجر دوست ایپ کے ذریعے تاجروں اور دکانداروں کا سینٹرل ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، لازمی رجسٹریشن اسکیم پر اسٹیک ہولڈرز سے بھی رائے طلب کرلی گئی تاجروں سے ٹیکس دکان کی سالانہ رینٹل ویلیو کے حساب سے وصول کیا جائے گا،

اسکیم کے تحت ہر دکاندار کو سالانہ کم از کم 1200 روپے انکم ٹیکس دینا ہوگا، پہلی ٹیکس وصولی 15 جولائی سے ہوگی۔ہر ماہ کی مقررہ 15 تاریخ سے پہلے ٹیکس دینے کی صورت میں 25 فیصد رعایت ملے گی جبکہ حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے انتہائی دریا دلی سے اعلان کیاہے کہ 2023 ء کا انکم ٹیکس گوشوارہ جمع کروانے والے تاجروں کو رعایت ملے گی لازمی رجسٹریشن اسکیم کی زدمیں50 لاکھ چھوٹے بڑے دکاندار آنے والے ہیں۔ملک میں ٹیکس وصولی کے سلسلہ میں ہوشربافرق سامنے آیا ہے جس کا تخمینہ 58 کھرب روپے ہے جو کہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بنتا ہے،

اس میں صرف پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا فرق تقریباً 10کھرب روپے ہے۔ یہ انکشاف وزیر اعظم شہباز شریف اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کردہ پریزنٹیشن میں کیا گیا مالی سال 2022-23 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر سالانہ بنیادوں پر جمع کئے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق جی ڈی پی کے تقریباً 6.9 فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا

جو 58 کھرب روپے کے برابر ہے اسمگلنگ‘ ٹیکس چوری اور دیگر ذرائع سے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا فرق سالانہ بنیادوں پر 996 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا تخمینہ ہے۔ ریٹیل سیکٹر کے ٹیکس فرق کا تخمینہ 888 ارب روپے، ٹرانسپورٹ سیکٹر کا 562ارب روپے، انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) 498 ارب روپے، اسمگل شدہ اشیاء 355 ارب روپے، برآمدات 342 ارب روپے اور رئیل اسٹیٹ کا 148 ارب روپے سالانہ بنیادوں پر لگایا گیا ہے۔ دیگر زمروں میںFBR نے سالانہ بنیادوں پر آمدن کے فرق کا تخمینہ 16 کھرب روپے لگایا ہے۔ سیلز ٹیکس میں ریونیو کا سب سے زیادہ فرق موجود ہے

اور کچھ اندازے یہ بتاتے ہیں کہ یہ سالانہ بنیادوں پر 29 کھرب روپے تک جا سکتا ہے۔ انڈر انوائسنگ اور اسمگلنگ سمیت سالانہ بنیادوں پر کسٹمز میں فرق کا تخمینہ تقریباً 600 ارب روپے ہے ایک اور اہم بات جس پر حکومتی ذرائع پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٹیکسزکے اہداف میں ناکامی پر بجلی،گیس،رئیل سٹیٹ انڈسٹری اور پٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی کرنے لئے جو تجاویز دی جارہی ہیں اس کو فی الحال چھپایا جارہاہے کیونکہ آئی ایم ایف نے اپنی تشخیصی رپورٹ میں تجزیہ کیا ہے کہ پالیسی کی سطح پر ٹیکس کا فرق بہت زیادہ نہیں اور یہ جی ڈی پی کے زیادہ سے زیادہ 12.9فیصد تک جا سکتا ہے۔ پی ایم اور ایس آئی ایف سی کو دی گئی اس پریزنٹیشن میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا ہے

کہ ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جمع کیے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان واضح فرق یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجموعی قومی محصولات اور جی ڈی پی کے حساب سے اخراجات کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔ وفاقی ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا 9.1 فیصد رہا جبکہ وفاقی نان ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا 1.2فیصد رہا۔ جی ڈی پی میں صوبائی ٹیکسوں کا حصہ جی ڈی پی کے 1فیصد کے قریب ہے۔ کل آمدنی جی ڈی پی کا 11.4فیصد رہی۔ اخراجات کے محاذ پر وفاقی اخراجات جی ڈی پی کا تناسب 12.9فیصد رہا جبکہ جی ڈی پی کے صوبائی اخراجات 6.1 فیصد کے قریب رہے،

اس طرح جی ڈی پی کے کل اخراجات جی ڈی پی کے 19فیصد تک پہنچ گئے۔ ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جی ڈی پی کا 7.6 فیصد کا فرق ہے۔ جمع کئے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق کے خلا کو اگر رساؤ کو ختم کر کے پورا کیا جائے تو سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کے 5.8فیصد تک قومی خزانے کو پْر کیا جا سکتا ہے۔ اس مالیاتی فرق کو مالیاتی خسارہ کہا جاتا ہے اور اس کی مالی اعانت ملکی اور بیرونی راستوں سے قرضے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ماہر ین ِمعاشیات کا کہناکہ ملک قرضوں کے جال میں ڈوبا ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی شہریوںکا بال بال قرضوں میں جکڑا ہواہے

۔ نازک مالیاتی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت فیڈرل پالیسی بورڈ، ٹیکس پالیسی آفس کی علیحدگی، جوائنٹ ویلیوایشن، کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کی علیحدگی، نادرا کے ساتھ تعاون پی آر اے ایل کی تنظیم نو، ڈیجیٹل انوائسنگ، ایس ڈبلیو اے پی ایس، تاجر دوست ریٹیلرز اسکیم، دستاویزی قانون اور جدید گورننس کا ڈھانچہ اور نگرانی بورڈ کے ذریعے FBR کی تنظیم نو کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس ضمن میں ہماری تجویز یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوںکی ادائیگی کے لئے تمام اشرافیہ بیوروکریسی ، ارکان ِ اسمبلی ،وزیر و مشیروںسے یہ رقم وصول کی جائے عوام یر ٹیکسز کیوں لگائے جارہے ہیں

عوام نے تو یہ قرض نہیں لیا وہ تو ہر چیز پر ٹیکسز پہلے ہی ادا کررہے ہیں یہ تجویز طبع ِ نازک پر گراں گذری ہے تو حکومت کے لئے ہمارا مفت مشورہ یہ ہے کہ ٹیکسزکے اہداف پورے نہیں ہوتے تو لازمی رجسٹریشن اسکیم کے تحت ہر وہ شخص جس کا شناختی کارڈ بناہواہے اس پر فکس ٹیکس لگادیا جائے یقینا اس سے حکومتی اخراجات، وزیروں ،مشیروں اورپروٹوکول مافیا کیلئے آسانیاں پیداہوں گی اور احسن طریقے سے معاملات چلائے جاسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں