اسلام و یہود و نصاری کے بیچ پل کا رول نبھانے والا داعی اسلام
نقاش نائطی
۔ +966562677707
مغرب و مشرق درمیان پل کا رول نبھانے والے داعی اسلام لیوپولڈ ویس، المعروف محمد أسد،تاریخ پیدائش 2 جولائی 1900 آسٹرو ہنگری میں پیدا ہونے والے یہودی تھے
13 سال کی عمر میں، ویس نے اپنی مقامی جرمن اور پولش زبانوں کے ساتھ ہی ساتھ، عبرانی اور آرامی زبان میں عبور حاصل کر لیا تھا۔اپنی عمر کےبیسویں سال پہنچنے تک وہ انگریزی، فرانسیسی، فارسی اور عربی میں پڑھ اور لکھ سکتے تھے۔
خلافت عثمانیہ کے خلاف یہود و نصاری سازش کے حصہ کے طور انہیں جرنلسٹ کی حیثیت عرب علاقے فلسطین سعودی عرب میں بھیجا گیا تھا جہاں انہیں عرب قبائل میں گھل مل کر رہتے ہوئے، عربی زبان پر عبورئیت حاصل کی۔فلسطین میں ویس نے صہیونی تحریک کے بعض پہلوؤں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے، چیم ویزمین جیسے صہیونی رہنماؤں کے ساتھ بحث کی تھی۔ ایک صحافی کے طور پر عرب دنیا کے سفر کے دوران، عرب قبائل کے حسن اخلاق نے اسلام مذہب کی تعلیم حاصل کرنے پر انہئں ابھارا اور یوں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوئے،انہوں نے 1926 میں سنی اسلام قبول کیا اور “محمد اسد” نام اپنایا – اسد اس کے اصل نام لیو (شیر) کا عربی ترجمہ تھا۔ ایک مسافر، صحافی، مصنف، ماہر لسانیات، سیاسی تھیورسٹ، سفارت کار کی حیثیت اپنا مقام حاصل کیا
سعودی عرب میں قیام کے دوران اس نے بدویوں کے ساتھ وقت گزارا اور مملکت کے بانی ابن سعود کی قریبی صحبت کا لطف اٹھایا۔ اس نے ابن سعود کے،اخوان بغاوت کے لئے فنڈنگ کے ذرائع کا پتہ لگانے کے ایک خفیہ مشن کو بھی انجام دیا تھا۔ انکی انہی سرگرمیوں کی وجہ سے، اسے ہارٹز کے ایک مضمون میں “لیوپولڈ آف عریبیہ” کے نام سے موسوم کیا گیا، جو کہ لارنس آف عریبیہ سے اس کی سرگرمیوں کی مماثلت کا اشارہ کرتا ہے۔ ہندوستان کے دورے پر، اسد کی دوستی مسلم شاعر مشرق،فلسفی علامہ اقبال سے ہو گئی تھی، علامہ اقبال نے انھیں مشرق کی جانب سفر ترک کرنے اور “مستقبل کی اسلامی ریاست کے فکری احاطے کو واضح کرنے میں مدد” کرنے پر آمادہ کیا۔ اس لئے وہ سری نگر کشمیر میں آکر بس گئے تھے
دوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر اس نے پانچ سال برطانوی حکومت کی نظر بندی میں بھی گزارے۔ 14 اگست 1947 کو، بھارت پاکستان آزاد ہونے کے بعد اسد نے پاکستان منتقل ہوتے ہوئے، پاکستانی شہریت حاصل کی اور یوں انہیں آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اولین پاسپورٹ ہولڈر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔بعد میں کئی،سفارتی اور بیوروکریٹک عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں اسلامی تعمیر نؤ کے شعبہ کے ڈائریکٹر، پاکستان کی وزارت خارجہ میں ڈپٹی سیکرٹری (مشرق وسطیٰ ڈویژن) اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے ایلچی شامل ہیں۔
انگریزی میں انکے ترجمہ کئے قرآن مجید، “The Message of The Quran” ان کی تصانیف میں سب سے زیادہ قابل ذکر ہے۔ “قرآن کا پیغام” میں اسد کے الفاظ میں: “جو کام میں اب عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں وہ زندگی بھر کے مطالعے اور عرب میں گزرے کئی سالوں پر مبنی ہے۔ یہ ایک کوشش ہے – ایک یورپی زبان میں قرآنی پیغام کی واقعی محاوراتی، وضاحتی پیشکش۔”
مغرب میں، اسد اپنی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی سوانح عمری، دی روڈ ٹو مکہ کے ساتھ ایک مصنف کے طور پر مقبولیت حاصل کر گئے۔ بعد ازاں، سترہ سال کی علمی تحقیق کے بعد، انہوں نے اپنی عظیم الشان تصنیف:
The Message of Quran-
قرآن کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر شائع کیا۔
پکتھل اور یوسف علی کے تراجم کے ساتھ اس کتاب کو جدید دور کے سب سے زیادہ بااثر تراجم میں شمار کیا جاتا ہے۔ مذہبی متون کی تشریح میں اجتہاد اور عقلیت کے پرجوش حامی، انہوں نے اپنی تخلیقات “سوچنے والے لوگوں کے لیے” وقف کیں۔
اسد کو ان کے سوانح نگاروں نے “اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ” اور “اسلام اور مغرب کے درمیان ثالث” قرار دیا ہے۔ اسی لئے شاید2008 میں، ویانا میں اقوام متحدہ کے دفتر کے داخلی راستے کا نام “محمد اسد پلاٹز” “مذہبی پل بنانے والے” کے کام کی یاد میں رکھا گیا تھا۔