63

سیاسی فتح

سیاسی فتح

تحریر: عرفان مصطفی صحرائی

مضبوط اور مستحکم جمہوری نظام ہی سیاسی قوتوں کی فتح ہوتی ہے،لیکن اس کے لئے سیاسی قوتوں کو نہ صرف تدبر سے کام لینا ،بلکہ اپنے اندر جمہوری رویوں کو بھی مظبوط کرنا ہوتا ہے۔مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات اور سیاسی لڑائیاں جمہوری اصولوں کے دائرے میںرہ کر ہونی چاہیں،اگر سیاسی جماعتیں اس دائرے سے نکلتی ہیں تو کمزور ہو جاتی ہیں،کیوں کہ اس رسہ کشی میں صرف ملکی سیاسی قوتیں اور اسٹیبلشمنٹ ہی شامل نہیں ہوتی بلکہ اس میں بین الاقوامی طاقتیں بھی ملوث ہوجاتی ہیں ۔

قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ واحد سیاسی پارٹی تھی ،مگر اس کے پاس کوئی سیاسی پروگرام نہیں تھا،مسلم لیگ اندرونی سازشوں اور دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئی،ہر دھڑا اقتدار کی خاطر سول اور ملٹری بیوروکریسی کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہو گیا ،یہاں سیاسی پارٹی کمزور اور اسٹیبلشمنٹ کی گرفت ریاست پر مضبوط ہو گئی ۔
آج بھی سیاسی پارٹیوں کا یہی حال ہے ،ان کے پاس کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ،صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہی مقصد ہے۔موجودہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں بھر پور حصہ لیتی ہیں،کروڑوں روپے کی انتخابی مہم چلاتی ہیں ،تاکہ اقتدار ان کی ملکیت بن جائے اور یہ اقتدار میں آ کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کے بجائے، ذاتی مفادات اور سیاسی انتقام کی سیاست کو ترجیح دینے کی روایت کو قائم رکھ سکیں ۔
آج ملک معاشی سیاسی اور عدالتی بحران کا شکار ہے ، مگر ملک کی تمام تر جماعتیں چاہے وہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف سب نے ملک کو سنگین بحران میں ڈالنے کی قسم اٹھائی رکھی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ گزشتہ عام انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کے شدید تحفظات ہیں،عوامی ووٹ کی تضحیک ہوئی ہے ،لیکن ملک میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ماضی میں ہر الیکشن کے نتائج تقریباًاسی نویت کے ہوئے ،صرف1970ء کے عام انتخابات کے نتائج اسٹیبلشمنٹ کی توقعات کے برخلاف تھے ،جس کا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں نکلا ،اس کے بعد ہی اسٹیبلشمنٹ نے سیاست کا سیاست سے توڑ نکالا اور سیاسی اتحاد بنانا شروع کیے،یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ملک گمبھیر مسائل کا شکار ہے،مگر اس بوسیدہ نظام کو درست کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی۔
ملک میں ایک نئی حکومت برسرِ اقتدار آ چکی،مگر حزب اختلاف کی بڑی جماعت دھاندلی کا شور وغَوغا مچا رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے،لیکن اس میں ان کی اپنی غلطیوں کا بڑا ہاتھ ہے،انہیں اپنی سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔تحریک انصاف نے انصاف کا نعرہ بلند کیا تھا،مگر عملی طور پر انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر سیاست کی۔میاں نواز شریف کی جلاوطنی ،ان کی بیماری،یہاں تک کہ ان کی بیوی کی وفات پر بھی سیاست کی ،با اثر اداروں کوسیاسی مفادات کے لئے بے دریغ استعمال کیا،حزب اختلاف کو دیوار سے لگانے کی بھر پور کوششیں کی۔ہر دور میں تمام تر سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکائی ہیں۔یہی وجہ بنی کہ ملک کو کبھی سیاسی ،معاشی استحکام نصیب نہیں ہو سکا،ملک کے تمام ادارے کمزور ہو چکے ہیں ،جہاں آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔کرپشن ،میس مینجمنٹ، غیر سنجدیدہ سیاست کا نتیجہ ملک میں سنگین بحرانوں کی صورت میں نکلا ہے۔
اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ملک میں غیر جانبدار ،صاف شفاف انتخابات نہیں ہوئے ،کل کوئی اور تھا،آج دوسرا لاڈلا ہے،کل کوئی اور کرپٹ ،نا اہل،چور،ڈاکواور غدار تھا ،آج وقت کی کروٹ نے سب کچھ بدل دیا،مگر اس کی تمام تر ذمے داری تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔دراصل ہمیں دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے کی عادت سی ہو چکی ہے،سیاسی جماعتوں میں عوامی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ہمیں سوچنا ہو گاکہ کیا ہم نے آج بھی ماضی سے کچھ سیکھا ہیِ؟کیا ہم ملک و قوم کی خدمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ؟کیا ملک کو ایک مضبوط،مؤثر مداخلت سے پاک نظام دینے کی ضرورت نہیں ؟
یہی وہ سوالات ہیں جس کے جواب قوم مانگتی ہے،عوام اپنے سیاسی نمائندوں سے امید رکھتی ہے کہ ملک کے تمام تر اداروں میں اصلاحات کا عمل شروع ہو،ہر ایک قانون اور آئین کی پاسداری کا پابند ہو،کسی کو کسی کے فرائض میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے،ملک کے با اثر ادارے سیاست سے دور رہیں۔
ملک ابھی بھی ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا ہوا ہے ،مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت حال نے ملک کو خانہ جنگی کے خطرے کا شکار کر دیا ہے،دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے،اندرونی و بیرونی دفاعی خطرات اپنی جگہ موجودہیں۔چناں چہ اب پسند نا پسند کے خول سے نکل کر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور اداروں کو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا سوچنا ہوگا،اگر اب بھی ہم سیاسی انتقام کی ضد میں ایک دوسرے کی تضحیک کا سبب بنے رہے تو وہ دن دور نہیں، جب پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا باب بند کر دیا جائے گا۔یہ موقع ہے کہ تمام سیاسی اور با اثر ادارے مل بیٹھ کر ایسی اصلاحات کریں،جس سے ملک ترقی و خوش حالی کی جانب گامزن ہو اور اگلی بار قوم کو غیر جانب دار شفاف انتخابات نصیب ہو سکیں ،یہی سیاست دانوں کی سیاسی فتح ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں