64

کشکول توڑ کر ہی خوشحالی آئے گی !

کشکول توڑ کر ہی خوشحالی آئے گی !

اتحادی حکومت ایک بار پھر عوام کو رلیف دینے کے دعوئے کے ساتھ آئی ہے ،لیکن عوام کو رلیف دینا تو در کنار ،عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جارہا ہے ، حکومت ایک طرف قرض پر قر ض لینے کیلئے پورا زور لگارہی ہے تو دوسری جانب بجلی گیس ،پٹرول کی قیمتیں بڑھائے جارہی ہے،عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بدحال ہیں، اُوپر سے آئی ایم ایف کی شرائط مزید برا حال کر دیں گی،

لیکن عوام کی پریشانی سے زیادہ حکومت کو آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کی خوشی ہے ،ایک قرض ملنے کے بعد ایک اوربڑے قرض کا پلان تیار ہے،اس ملک میںقرض پر قرض لے کر قوم کو گروی رکھنے والوں نے قومی حمیت کا جنارہ تو برسوں پہلے ہی نکال دیا تھا ، رہی سہی کسرمعیشت کی بہتری کی آڑ میں اب پوری کی جارہی ہے، اس کے بعد بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم ہی ملک و عوام کو اغیار کی غلامی سے نجات دلائیں گے۔
اس ملک میں جو بھی آیا ہے ،اس نے اغیار کی غلامی سے نجات کا ہی نعرا نگا کر مزیدغلامی کی دلدل میں دھکیلا ہے ، اس میں سب سے زیادہ آزمائے حکمرانوں کا ہاتھ رہا ہے ، اس بار پھر وہی آزمائے حکمران ملک وعوام کو اغیار کی غلامی سے نجات دلانے کی باتیںکررہے ہیں ، یہ ایک طرف غلامی سے نجات کے دعوئے کررہے ہیں تو دوسری جانب بار بار اغیار کی غلانی میں مزید توسیع کیلئے سجدہ ریز ہیں ، یہ آمائے حکمرانوں کے قول فعل کا ہی تذاد ہے کہ ملک وعوام چاہتے ہوئے بھی اغیار کی غلامی سے نکل پارہے ہیں نہ ہی کبھی نکل پائیں گے ،جب تک کہ آزمائے حکمران ہی اِن پر مسلط کیے جاتے رہیں گے۔
اس انتخابات میں عوام نے بڑی بے دردی سے آزمائے کو مسترد کیا تھا، مگر عوام کے فیصلے کے خلاف فیصلہ سازوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ، عوام جائیں تو جائیں کہاں ، کس سے فر یاد کریں ، عوام کی فریاد سننے والے بھی انصاف مانگ رہے ہیں ، اس ملک کے عوام بہت بڑی آزمائشوں سے گزرے ہیں ،لیکن اس بار آنے والی آزمائش سب سے کڑی رہی ہے ، اس بار کہیں کوئی آئین و قانوں نظر آرہا ہے نہ ہی کوئی آئین و قانون کی پاسدداری کرتا دکھائی دیے رہاہے ، ادارے اپنے حدود سے تجاوز کررہے ہیں

اور کوئی روکنے والا نہیں ہے ، اگر کوئی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو کہیں سے دھمکی آمیز خط آجاتے ہیں توکہیں اُٹھا لیا جاتا ہے اور مار پیٹ کر سبق سکھا دیا جاتا ہے ،ہر ایک کو ڈریا جارہا ہے ،ہر ایک کو ہی مجبور کیا جارہا ہے کہ حق سچ کہنے کے بجائے اُن کی ہی آواز میں آواز ملائی جائے اور اُن کے ہی فیصلوں کو بلا چوں چراں مانا جائے ، لیکن یہ زور زبر دستی زیادہ دیر تک اب چلنے والی نہیں ہے ۔
اس جبرکے ماحول سے جہاں عوام بے زار ہو نے لگے ہیں، وہیںاداروں کے اندر سے بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں ،اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایک بار پھر ڈرا دھمکا کر اُٹھتی آوازوں کو دبالیا جائے گا اور سڑکوں پر ہونے والا احتجاج روک لیا جائے گا تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہو گی ، پشین میں اپوزیشن اتحاد کے پہلے ہی احتجاجی جلسے میں عوام کی بھر پور شر کت نے بتادیا ہے کہ عوام کا موڈ کیا ہے اور عوام کس طرف کھڑے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ عوام کی اکثریت آزمائے حکمرانوں سے نالاں ہے ،

اپوزیشن احتجاجی تحریک کے ذریعے جہاں عوام اپنے غم وغصے کا اظہار کریں گے ،وہیں فیصلہ سازوں کو بھی بتادیں گے کہ انہوں نے عوام کا فیصلہ مسترد کرکے کچھ اچھا نہیں کیا ہے ، ملک کے فیصلہ سازوں کو اپنے فیصلے کو دوبارہ رویو کرنا چاہئے اور عوام کے ہی فیصلے کوعزت دینی چاہئے ، کیو نکہ عوام کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔
یہ بات کوئی مانے نہ مانے ،مگر زمینی حقائق سے زیادہ دیر تک نظر یں چرائی نہیں جاسکتی ہیں ،اس اتحادی حکومت کا سولہ ماہ کادور اقتدار سب کے سامنے ہے اور اب بھی اقتدار میں تین ماہ ہورہے ہیں ، ملک میں سیاسی استحکام آیا نہ ہی معاشی استحکام دورتک آتا دکھائی دیے رہا ہے ، آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لینے سے معاشی استحکام آئے گا نہ ہی دوست ممالک کی سپورٹ سے کچھ بدلنے والا ہے ، یہ نمائشی اعلات و اقدامات کا ڈرامہ بہت بار ہو چکا ہے ،ایک بار پھر وہی پرانا ڈرامہ دہرایا جارہا ہے

، اس سارے کھیل تماشے سے معاشی بدحالی کی آکاس بیل کو ہٹا یا جاسکتا ہے نہ ہی معاشی بحالی کا کوئی نیا پودا لگا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کیلئے جو عملی اقدامات ہونے چاہئیں، وہ کیے جا رہے ہیں نہ ہی ان آزمائے حکمرانوں میں ایسا کچھ کر نے کی صلاحیت ہے ،یہ ماسوائے کاسہ گری کے کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں ، یہ کشکول لے کر کہیں نہ بھی جائیں ، اگلے پھر بھی کہتے ہیں کہ مانگنے آئے ہیں، اس بارے وزیر اعظم میاں شہباز شریف بار ہا بتا چکے ہیں ، مگر کشکول توڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں، یہ جب تک اپنی کشکول پا لیسی ترک نہیں کریں گے ، بد حالی سے نجات پا کر خوشحالی کی راہ پر کبھی گامزن نہیں ہو پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں