کسان فصل کی اُجرت سے محرروم رہے گا ! 101

قرض سے خوشحالی نہیں آئے گی !

قرض سے خوشحالی نہیں آئے گی !

اتحادی حکومت ایک بار پھر سیاست نہیں ریاست بچانے آئی ہے ، قرض نہیں ، کشکول توڑنے آئی ہے ، اپنے دوستوں سے امداد نہیں ،کام لینے آئی ہے ، لیکن اس کے بر عکس قر ض پر قرض لیا جارہا ہے ، ایک طرف آئی ایم ایف سے ایک کے بعد ایک معاہدہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب بنکوں سے قرض لینے کے سارے ریکارڈ توڑے جارہے ہیں ، اس حکومت نے بینکوں سے ساٹھ کھرب روپے قرضہ لے کر تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، اس کے باوجود د حکمران عوئیدار ہیں کہ ملک میں خو شحالی اور عوام کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے ، جبکہ ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلا اور عوام کی زندگی کوعذاب بنایا جارہا ہے۔
یہ حکومت جب سے آئی ہے ،ماسوائے اپنی تشہیر اور نمائشی اقدامات کے کچھ بھی نہیں کررہی ہے،ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے نہ ہی سیاسی استحکام لانے کی سنجیدہ کوشش کی جارہی ہے،سیاسی استحکام کے بغیر معاشی بحالی کسی صورت ممکن نہیں ہے ،یہ جانتے اور مانتے ہوئے بھی ملک میں سیاسی بحران کے خاتمے کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں نہ ہی معاشی استحکام کی کوئی امید دکھائی دیے رہی ہے،

جبکہ بڑھتی مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اس نے غریب اور متوسط طبقے کے لیے زندگی کے دن گزارنا ہی مشکل بنادیے ہیں، اس معاشی بحران کی اصل جڑ قرضوں کی معیشت ہے کہ جس نے قوم سے اس کی آزادی بھی چھین لی ہے۔
اس ملک کے آزمائے حکمروانوںنے اپنی نااہلیوں کے باعث قوم کو اغیار کی غلامی میں دیے دیا ہے ، اس کے باوجود ان سے ہی اُمید لگائی جارہی ہے کہ اس غلامی سے نجات دلائیں گے اور ملک میں خو شحالی لائیں گے ،جبکہ یہ حکومت اپنے وفاقی بجٹ کی تیاری تک کے لیے آئی ایم ایف کی محتاج ہے، اس لیے ہی بجٹ دستاویزات اور حکمت عملی کی تجاویز کابینہ کے بجائے آئی ایم ایف منظوری کے لیے بھیجی جارہی ہیں،اس ملک کے وزارت خزانہ کا صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ ایف بی آر کے لیے اہداف متعین کرے اور عوام سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرے،قوم کو دیوالیہ ہوجانے سے ڈرا کر آئی ایم ایف سے قرض کے معاہدے اور بنکوں سے ریکارڈقر ض کے حصول کو ہی اپنی کامیابی سمجھا جارہا ہے۔
عوام کو اتنا بے شعور سمجھا جارہا ہے کہ جیسے کچھ جانتے ہی نہیں ہیں ، عوام سب کچھ جانتے ہیں اور بغور دیکھ رہے ہیں کہ آزمائے حکمران ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں ،ایک طرف آئی ایم ایف اور بینکوں سے قرض لینے کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں تو دوسری جانب ان سارے قرضوں کا بوجھ عوام کے ناتواں کندھوں پر ہی ڈالے جارہے ہیں ، عوام کو تنا دباجارہا ہے کہ اس کی مزاحمت کی اہلیت ہی ختم کرکے رکھ دی گئی ہے، ایک زمانہ تھا کہ مرد آہن کہلانے والے جابر حکمراں بھی عوام کے ردعمل سے گھبراتے تھے، لیکن ان حکمرانوں نے معاشی تباہی کو جس مقام تک پہنچادیا ہے ،

اس کو بیاں کر تے ہوئے تو الفاظ اپنے معانی ہی کھو نے لگے ہیں۔اس تحادی حکومت کے تسلسل سے توقع کی جارہی تھی کہ مشکل حالات میں آسانی فراہم کرنے کے لیے کام کریں گے، لیکن روزانہ کی بنیاد پر ایسے قدم اٹھائے جارہے ہیں کہ جن سے عوام پر بوجھ کم ہو نے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے،عوام اپنی زندگی میں تبدیلی چاہتے ہیں ، جبکہ انہیں کبھی سستے آٹے کے تھلے دیے کر تو کبھی لپ ٹاپ سکیم ، موٹر سائیکل سکیم اور مفت ادویات کے نمائشی اعلانات سے بہلایا جارہا ہے ،عوام اب کسی بہلائوئے اور بہکائوئے میں آنے والے نہیں ہیں ، عوام جانتے ہیں کہ اس لالی پاپ سے ان کا منہ بند کر نے کی کوشش کی جارہی ہے

، عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ، عوام کی مزحمت روکنے کی کوشش کی جارہی ہے ، حکومت جتنی مرضی کوشش کر لے ، جتنے مرضی قوانین بنالے ، جتنے مرضی نمائشی اقدامات کر لے ،عوام کی اُٹھتی آواز کو دیا جاسکے گا نہ ہی عوامی مزحمت کو روکا جاسکے گا ۔اس وقت بدلتے حالات تو بہت کچھ بتا رہے ہیںاور بہت کچھ سمجھا بھی رہے ہیں ، اس کے باوجود آزمائے کو ہی آزمائے نے کی ضد بتارہی ہے

کہ کوئی بڑا نقصان کرکے ہی مانیں گے ، ہم مسلسل محتاط رویہ اختیار کئے درخواست کرتے چلے آ رہے ہیں کہ اس ملک کے مسائل قرض پر قر ض لینے یا عوام کی آزادی گروی رکھنے سے نہیں ،بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے اور قومی اتفاق رائے سے ہی حل ہوں گے، لیکن افسوس کوئی سنتا ہی نہیں، کوئی مانتا ہی نہیں ہے ، اس کا انجام ویسا ہی ہوگاکہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ،سارے خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، ایک دوسرے کو ہی مود لزام ٹہراتے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں