114

ہم نے سنت رسول ﷺ چھوڑا،بیماریوں نے ہمیں آدبوچا

ہم نے سنت رسول ﷺ چھوڑا،بیماریوں نے ہمیں آدبوچا

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

ہزاروان سال سے ہم۔انسانون میں نسل در نسل چلے آرہے،موسمی امراض جیسے نزلا زکام بخار ویسے تو معمولی سقم ہوتے ہیں احتیاط برتیں کچھ بھی جڑی بوٹی دوائی، نانی اماں کے نسخے کھائیں ایک دو دن میں ٹھیک ہوجایا کرتے ہیں لیکن بد احتیاطی تین سے سات دن تک ہم آپ کو یہ معمولی بیماریاں بھی تنگ کردیتی ہیں۔ بیماری تو بیماری ہوتی ہے اپنے اثرات تو وہ چھوڑنی ہی ہے۔ جسم میں نقاہت کمزوری بستر پر پڑے رہنے کا رجحان ہمیں ادموا چھوڑتا ہے۔ اتنے مضبوط دکھنے والے حضرت انسان کا یہ حال تو، اندرونی انسانی اعذاء کا کیا حال ہوگا؟ نتیجہ ہماری لاپرواہی ہمیں اندر سے کمزور چھوڑتے ہوئے،

زمانے کی تغیر پسندی کے ساتھ پروان چڑھنے والی، نت نئی دوسری بڑی بیماریوں کے لئے لقمہ تر بنا ہمیں چھوڑ دیتی ہے۔ انگریزی ادویات ڈاکٹر تو موسمی امراض نجات کے لئے جہاں ‘مہلک انسانی جسم’ انتہائی زود اثر، اینٹی بائیوٹک ادویات دیتے ہیں وہیں جسمانی نقاہت دور کرنے کے لئے، ملٹی وٹامن گولیاں بھی لکھ دیتے ہیں جس سے حضرت انسان کو لگتا ہے ڈاکٹری علاج سے بندہ مکمل صحت یاب ہوجاتا ہے لیکن نانی اماں کے نسخوں سے نقاہت کمزوری سے پیچھا نہیں چھوٹتا ہے۔ جبکہ ایسے مواقع کے لئے ہم سیرت نبیﷺ پڑھیں تو ہمیں آپ ﷺ کی صریح ہدایت ملتی ہے کہ جب کوئی بیماری سے شفایاب ہوتا ہے

تو اسے جؤ کا ہریرہ جؤ کا دلیہ بناکر پلایا کھلایا جاتا تھا۔تاکہ اسے کمزوری پر قابو حاصل ہوسکے۔ ویسے تو یہ جؤ کا دلیہ معمولی لگتا ہے اور آج کل کے جدت پسند گھرانوں کے کچن میں نایاب شئی ہوتی ہے لیکن انتہائی کم قیمت زود اثر تریاق ہے۔ موجودہ جدت پسند ڈاکٹر و سائینس اس بات پر متفق ہے کہ جؤ جہاں انسانی صحت کے لئے انتہائی مفید غذا ہے وہیں بعد سقم نقاہت کمزوری دور کرنے تریاق یا لاثانی شئی ہے

۔اور سب سے اہم، ہدایت رسول ﷺ ہونے کی وجہ سنت رسول ﷺ بھی ہے اور مومن مسلمان کا عقیدہ ہے کہ کوئی بھی دنیوی عمل، دنیوی افادیت کے لئے بھی کیا جائے، لیکن اگر وہی عمل آپﷺ کیا ہوا یا کہا ہواسنت عمل ہے اور ہم مسلمان سنت سمجھ کر، اس عمل کو بھلے ہی دنیوی فوائد کے لئے کرتے ہیں تو،دنیوی فوائد کے ساتھ ہی ساتھ، ہمیں سنت پر عمل آوری کا ثواب بھی ملے گا اور جس معاشرے میں سنت ناپید ہوچکی ہے اس معاشرے میں اس سنت کو زندہ کرنے والے ثواب کے بھی ہم حقدار رہیں گے
طب نبوی ﷺ سے جو کے فائدے

جؤ خوردنی اجناس میں ایک عام سی شئی ہے یہ گندم کے کھیتوں میں پائے جاتے ہیں اور گندم سے پہلے پک جاتے ہیں عربی اور فارسی زبان میں شعیر کہتے ہیں سنسکرت میں باوا اور انگریزی میں بارلی کہتے ہیں

جَؤ کے بارے میں نبی اکرم سرکار دو عالم ﷺ کے کافی ارشادات ہیں

“جؤ” کے فوائد کیا ہیں؟

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’جؤ‘‘ کا دلیہ بطور روٹی اور بطور ’’ستو‘‘ استعمال فرماتے تھے۔ نبی کریمﷺ کے دور میں لوگ ’’جؤ‘‘ کی روٹی کھاتے تھے یا گندم اور ’’جؤ‘‘ ملاکر روٹی پکائی جاتی تھی۔

’’جؤ‘‘ کھانے والی ایک عام سی جنس ہے۔ ’’جؤ‘‘ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ گو کہ یہ گندم کے کھیتوں میں خود رؤ پائے جاتے ہیں۔ یہ گندم سے پہلے پک کر تیار بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ باقاعدہ کاشت بھی کئے جاتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے دور میں لوگ ’’جؤ‘‘ کی روٹی کھاتے تھے یا گندم اور ’’جؤ‘‘ ملا کر روٹی پکائی جاتی تھی۔ خالص گندم کی روٹی صرف تقریبات پر پکائی جاتی تھی۔ مسجد نبوی کے دروازے پر ایک عورت چقندر کی جڑیں اور ثابت ’’جؤ‘‘ ملاکر ان کی ھنڈیہ پکا کر نماز جمعہ کے بعد، بیچنے آیا کرتی تھی۔ صحابہ کرام کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ پکوان بہت ھی پسند تھی.

یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ’’جؤ‘‘ کی روٹی کا ٹکڑالیا اور اس کے اوپر کھجور رکھی اور فرمایا کہ یہ اس کا سالن ہے اور کھالیا ’’جؤ‘‘ کو، کُوٹ کر دودھ میں پکانے کے بعد مٹھاس کے لئے اس میں شہد ڈالا جاتا ہے، اسے ’’جؤ‘‘ کا دلیہ کہتے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اہلخانہ میں جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا تھا کہ اس کے لئے ’’جؤ‘‘ کا دلیہ تیار کیا جائے، پھر فرماتے تھے کہ یہ بیمارکے دل سے غم کو اُتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو یوں اُتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھوکر اس سے غلاظت کو اتار دیتا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیمار کے لئے دلیہ تیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں

اور کہتی تھیں اگرچہ بیمار اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن وہ اس کے لئے ازحد مفید ہے۔ پریشانی اور تھکن کے لئے بھی دلیہ کا ارشاد ملتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو ’’جؤ‘‘ سے بنے ہوئے ’’ستو‘‘ پسند تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کھولنے میں اکثر ’’ستو‘‘ کا شربت نوش فرمایا۔ ’’جؤ‘‘ کھانے سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ ’’جؤ‘‘ جسمانی کمزوری کے علاوہ کھانسی اور حلق کی سوزش کے لئے مفید ہے۔ معدہ کی سوزش کو ختم کرتا ہے۔ جسم سے غلاظتوں کا اخراج کرتے ہیں۔

ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے ’’جؤ‘‘ کے پانی کا جو نسخہ بیان کیا ہے اس کے مطابق ’’جؤ‘‘ لے کر ان سے پانچ گنا پانی ان میں ڈالا جائے پھر انہیں اتنا پکایا جائے کہ پانی دودھیا ہوجائے اور اس میں ایک چوتھائی کمی آجائے۔ پکنے کے بعد ’’جؤ‘‘کا پانی فوری اثر کرکے طبیعت کو ہشاش بشاش بناتا ہے۔ جسم کو کمزوری کا مقابلہ کرنے کے لئے غذا مہیا کرتا ہے۔ اگر اسے گرم گرم پیا جائے تو اس کا اثرفوری ہوکر جسم کو حرارت دیتا ہے اور مریض کے چہرے پر شگفتگی لاتا ہے.

بوعلی سینا رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ’’جؤ‘‘ کھانے سے جو خون پیدا ہوتا ہے وہ معتدل، صالح اور پتلا ہوتا ہے۔ بھاری پن کو کم کرنے والا،چہرے کو نکھارنے والا، چونکہ یہ جلد ہضم ہوجاتا ہے۔ یہ کمزوری اور بدہضمی کے مریضوں کے لئے غذا اور دوا ہے۔ سر کی پھپھوندی کو دور کرتا ہے۔ پیشاب میں خون اور پیپ کے مریضوں کو اگر ’’جؤ‘‘ کا پانی شہد میں ملا کر دیا جائے تو تکلیف چند دنوں میں ختم ہوجاتی ہے

۔ پرانے قبض کے مریضوں کے لئے ’’جؤ‘‘ کے دلئے سے بہتر کوئی دوا نہیں۔ خون میں کولیسٹرول کو کم کرنے کے لئے ’’جؤ‘‘ کا دلیہ نہایت اعلیٰ چیز ہے۔پہلی وحی کے نزول کے وقت غار حرا میں نبی کریمﷺ کے ہمراہ ایک تو حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے اور دوسری کوئی چیز تھی تو وہ ستو کی صورت جؤ کی غذا موجود تھی، گویا جؤ کی غذا کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اسے نبی کریمﷺ کا نہ صرف لمس مبارک حاصل ہے

بلکہ یہ پسندیدہ غذاؤں میں بھی شامل رہی ہے۔۔ اور یہی ایک نکتہ جؤ کی غذائی اہمیت کو قیامت تک اجاگر کرتا رہے گا، لیکن مقام تفکر ہے کہ آج جؤ کی غذا کو وہ مقام مرتبہ حاصل نہیں رہا جس کی یہ غذا متقاضی ہے، وجہ صرف اور صرف ہماری اپنی لاعلمی ہے کیونکہ، جن لوگوں کو جؤ کی فصل سے بننے والی اشیاء کا علم ہوجاتا ہے اور اس کی افادیت محسوس ہوجاتی ہے تو وہ اس سے مستفید ہونے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جؤ کی غذا کوئی 8ہزار سال سے متقی اور پرہیز گار لوگوں کی من پسند اور مرغوب خوراک کے طور پر چلی آرہی ہے،

قارئین کی دل چسپی کے لیے یہ بات رقم کرنا ضروری ہے کہ تحقیقاتی ادارہ برائے گندم،فیصل آباد میں جؤ کی تحقیق پر باقاعدہ آغاز 1980کی دہائی میں ہوا۔ پہلے پہل تو اسے میکسیکو اور شام سے جؤ کا مٹیریل پاکستان دارومدار کیا تھا اور اس مٹیریل سے جؤ پودا پاکستانی ماحول اور موسم کے مطابق کسی قسم کی کوئی قوت مدافعت دکھاتا اس کا انتخاب کر لیا جاتا، اسی طرح قوت مدافعت کے حامل پودے اکٹھے ہوتے گئے

بعد ازآں 2 متنوع پودوں کے اختلاط سے پاکستانی آب و ہوا اور ماحول کے عین مطابق جؤ کی چند اقسام تیار کرلی گئیں۔جن میں “جؤ 83” ، “جؤ 87’، “حیدر 93” اور اب حال ہی میں تیار کی جانے والی “جؤ17″، “سلطانی جؤ 17″، “جؤ 21″، “پرل جؤ21 اور جؤتلبینہ21” کئی اقسام کی جؤ شامل ہیں، قارئین کے لیے یہ بات بھی یقیناً دل چسپی کی حامل ہے کہ عہد رسالت ﷺ میں گیہوں کی روٹی کو امارت یا دولت مندی کی نشانی سے تعبیر کیا جاتا تھا اور یہ روٹی عام لوگوں کی دسترس سے دور بھی تھی، مگر ارزاں ہونے کے ناتے جؤ کی روٹی فقط غریبوں اور ناداروں کی غذا تک محدود تھی، نبی کریمﷺ کو چونکہ غرباء سے محبت تھی اور غربا میں ہی رہنا پسند فرماتے تھے۔اس لیے غرباء کی خوراک کو پسند فرماتے۔

ان حالات میں غریبوں کے والیﷺ، یتیموں کے ماویٰ ﷺ اور بے سہاروں کے سہارے ﷺ نے جؤ کی غذا کو غریبوں کی بھوک مٹاتے دیکھ کر جؤ کے دانوں کو کچھ اس انداز سے،اپنے دست مبارک میں لیا کہ قدرت کو اپنے محبوب معصوم ﷺ پر پیار آگیا، چنانچہ غریبوں کی خوراک جؤکی جنس کے ساتھ اپنے محبوب اعظم ﷺ کا انہماک اور ادائے دلربا دیکھ کر رحمتِ حق جوش میں آئی اور اللہ عزوجل نے جؤ کی غذا کو نہ صرف اپنے سوہنے محبوب ﷺ کی پسندیدہ خوراک بنادی بلکہ اپنی مخلوق کے لئے دنیا جہاں کی شفاء بھی جؤ کے ان دانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ودیعت کردی ۔۔۔یہ بات بھی محیرالعقول ہے

کہ جؤ کے پودوں پر آنے والی صبح کی شبنم اور اس فصل کی توڑی یا بھوسے کے طبی فوائد بھی بے شما ر دیکھے گئے ہیں، چناںچہ جؤ کی فصل پر آنے والی شبنم کو اکٹھا کرکے اگر اس میں شریں کے پتے شامل کر لیں تو اس سے بننے والا پانی آنکھوں کے کالے اور سفید موتیے کے لئے بہترین ٹانک قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح جؤ کی غذا کا انسانی بیماریوں کا خاتمہ کرنے کے ساتھ بھی بڑا گہرا تعلق دیکھا گیا ہے۔
نبیٔ رحمتﷺ کے اہل خانہ میں سے جب کبھی بھی کوئی اگر تندرست نہ رہتا تو حکم دیا جاتا کہ جؤ کے دلیہ سے اسے ضرور تواضع کروائیں ۔۔۔ ایک بار کیا ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی نقاہت اور کم زوری سے ابھی تازہ تازہ شفایاب ہوئے ہی تھے اور وہ نبیٔ رحمت ﷺ کے ہمراہ بیٹھے کھجوریں کھا رہے تھے کہ جب دو چار کھجوریں کچھ زیادہ کھالیں تو نبیٔ رحمتﷺ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ تم ابھی ابھی بیماری سے اٹھے ہو لہذا انہیں زیادہ مت کھاؤ ۔۔۔ کچھ توقف کے بعد انہیں ایک ڈش پیش کی گئی جو چقندر اور جؤ کی غذا پر مشتمل تھی ، نبی ٔ رحمتﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے کھاؤ یہ تمھارے لئے اور تمھاری صحت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔

جؤ کی غذا کھانا سنت تو ہے ہی مگر اس کی فصل کو جس زمین پر کاشت کیا جاتا ہے یہ حیران کن امر ہے کہ وہ زمین بھی صحت یاب ہوئے بغیر نہیں رہتی، یعنی تندرست ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ زمین مزید کھیت کھلیان اگانے کے لئے تازہ دم ہوجاتی ہے۔
زرعی سائنس داں یا ڈرعی محکموں یا پیشوں سے جڑے احباب ، جب کوئی اس کی غذائی اہمیت افادئیت کی طرف توجہ کریں گے تو اسے توانائی کا ایک انمول خزانہ اس کے اندر پنہاں نظر آئیگا یہ غذا اگر کوئی بزرگ کھاتا ہے یا کوئی بیمار مریض کھاتا ہے تو توانائی کا یہ خزانہ جسم کے اندر جاکر انتڑیوں، شریانوں، وریدوں اور دل کی نالیوں کو صاف ستھرا کر کے ایسے کشادہ کر دیتا ہے کہ جس کے اندر سے جو خون بنتا ہے وہ ایسا ہوجاتا ہے کہ جیسے 20/22سال کے بچے کا تازہ خون ہوتا ہے۔

اسی طرح 21 احادیث مبارکہ کا حوالہ جؤ کی غذا سے منسلک ہے ایک حدیث کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ 100 کے قریب بیماریوں کا علاج جؤ کی غذا میں پنہاں ہے۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ جؤ ہے کیا؟ جؤ کے دانہ میں کیا چیز شامل ہے کہ اسے گندم کے آٹے کے متبادل کے طور پر اور اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہماری صحت کےلئےاتنا اہم ترین سمجھا جا رہا ہے، تو اس پر عرض ہے کہ جؤ کے دانے میں پانی، نائٹروجنی مرکبات، گوندھ، چینی اور چربی کی معمولی مقدار کے علاوہ 59 فی صد اس میں اسٹارچ ہوتا ہے

جو بدن کے اندر کولیسٹرول کو کم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جؤ جسم کو فربہ یعنی موٹا نہیں ہونے دیتا اور جسم کو چست اور اسمارٹ رکھتا ہے۔جؤ کے دانے میں تانبا کی مقدار بھی شامل ہے جؤ بوڑھوں، بزرگوں اور کم زور لوگوں میں جوڑوں کے درد کو ختم کرتی ہے۔ پھر اس میں سیلینئم جیسا ایک ایسا دھاتی عنصر بھی شامل ہے جو انسان کو چھوٹی آنت کے سرطان سے تحفظ دیتا ہے جؤ کی غذا میں فاسفورس بھی ہوتا ہے جو اے ٹی پی یعنی اڈینوسین ٹرائی فاسفیٹ کی صورت جسم کو بھرپور توانائی بخشتا ہے۔
جؤ کی غذا کھانے سے خون کے اندر پلیستیلتش (Platelets) قسم کے جو خلئے بنتے ہیں۔ اس سے خون میں پھٹکڑیاں نہیں بنتیں جؤ کے دانے میں ایک عنصر ایسا بھی ہے جو ریشہ دار مادے کی طرح ہوتا ہے اور جسے فائبر بولتے ہیں۔اور تقریبا”
عصری تعلیم یافتہ ہر انسان اس کا ادراک رکھتا ہے کہ فائبر انسانی صحت متوازن رکھنے کے لئے کتنا مفید ہے،یہ آنتوں میں تیزی سے حرکت کرتا ہے جس سے خون، ہر وقت تازہ اور شفاف بنتا رہتا ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جس بندے میں بے شک وہ بندہ بوڑھا ہے یا کم زور، اگر اس کا خون ہر وقت تازہ اور شفاف بنتا رہے اور پھر اس کے اندر پھٹکڑیاں بھی نہ بنیں تو کیا وہ کبھی کسی مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے؟

فائبر یا ریشے دار مادے کا جسم کے اندر ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ جسم سے بائل ایسیڈ ( Bile acid) کا اخراج کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس سے پِتّے میں پتھری بننے کے امکانات خود بخود کم ہوجاتے ہیں جؤ کی غذا کھانے سے ام المرض یعنی قبض کا صفایا ہوجاتا ہے اور بندہ جسم میں فرحت و سکون محسوس کرتا ہے۔

جؤ کی غذا یعنی جؤ کے آٹے کی روٹی، جؤ کا دلیہ، جؤ کا پانی اور جؤ کے ستو وغیرہ کے متعلق میڈیکل سائنس مزید یہ کہتی ہے کہ بیٹا گلوکان اور حل پذیر ریشے (Soluble fiber) کے اعلیٰ ترین ذریعے کے ساتھ ساتھ 22 فیٹی ایسڈز (Faty acids) ، 18 امائنو ایسڈز (Amino acids) اور ضروری امائنو ایسڈز (Essential amino acids) کی دنیا میں جتنی بھی مقدار ہے یعنی تمام 8 کے 8 ضروری امائنو ایسڈز Essential amino acids اس انداز میں اور اس ترتیب میں جؤ کی غذا میں شامل ہیں کہ جس سے بھرپور توانائی پھوٹتی ہے۔

ایک لیسن(Lysine) نام والا امائنو ایسڈز ایسا بھی جؤ کی غذا میں شامل ہے جو قد بڑھانے میں پیش پیش رہتا ہے، یعنی بچوں کو کمسنی میں جؤ سے بنی غذا کھلائی جاتی رہے تو بچے تو درست صحت مند توانا اور دراز قد پروان ڑھتے ہیں،چھوٹے قد والے خواتین و حضرات بھی اگر جؤ کی غذا کو اپنے دسترخوان کا حصہ بنالیں تو ان کے قد میں بھی نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور حدیث شریف کے مطابق جؤ کی غذا کی حدت سے بندے کے اندر غلاظتیں، نجاستیں اور جو غلاظتیں ہوتی ہیں وہ ایسے بھاگتی ہیں جیسے شام کو تھکا ہارا بندہ گھر آکر منہ دھوئے تو منہ سے گرد و مٹی دور ہوتی ہے

تازہ ترین تحقیق کے مطابق بلڈ پریشر، شوگر، ذہنی تناؤ اور کولیسٹرول جیسی چار بیماریوں کی زد میں آنے والے افراد اگر گندم کے آٹے کی روٹی کھانا بند کر دیں تو ان کی آدھی بیماری ختم ہوجاتی ہے۔اکثر انگریزی ادویات ڈاکٹر عمر رسیدہ افراد کو نہ صرف میدے کیوٹی بلکہ گندم کی روٹی کھانے سے بھی منع کرتے پائے جاتے ہیں،کہتے ہی بڑھاپے میں زیادہ دوائیاں کھاتے ہوئے اور اقسام کو قریب بلا ے سے اچھا ہے گندم کے آٹے کی روٹی ترک کردے آدھی بیماری از خود جاتی رہے گی۔ چاول تو مضر صحت اسکاپتہ سبھی کو ہے میدے و گ دم کی روٹی بھی نہ کھائیں تو اور کیا کھایا جائے اس پر تحقیق کے مطابق یورپین ممالک نے دو طرح کے آٹے کی روٹیوں کے کھانے کی سفارش کی ہے

ان میں سے ایک مکئی کا آٹا ہے اور دوسرا جؤ کا، لیکن اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ تم کون سا آٹا کھانا پسند کرو گےتو ہم برملا نبی کریمﷺ کی نسبت والی جؤ روٹی کا نام لیں گے۔آجکل عموماً ماہ صیام میں گرمی اوپر سے درجہ حرارت آئے دن بڑھتے چلے جانے سے، جو غذائیت انتخاب کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جؤ کے آٹے سے بنی ایک ڈیڑھ روٹی سحری کے وقت کھالیں تو بندہ سارا دن بھوک پیاس سے ماوریٰ ہو جاتا ہے

اور اگر نیم ٹھنڈے جؤ ستو سے افطاری کرلیں تو سارے دن کی نقاہت، کم زوری دور ہوتے ہوئے جسم فوری طور پر ہشاش بشاش اور تازہ دم ہو جاتا ہے۔یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ جؤ کا دلیہ بچوں اور بزرگوں کی خوراک کے طور پر اس وقت بہترین تصور کیا جاتا ہے جب اسے نیم گرم کھایا جائے، فریج میں رکھا جانے والا دلیہ گرم کرتے ہوئے دوبارہ کھانے سے زیادہ فائدہ مند نہیں رہتا، اس لیے یاد رکھیں کہ دلیہ جتنا کھانا اتنا ہی پکانا ۔۔۔اسی طرح جؤ کا پانی یا “آب جؤ” یا بارلی واٹر یا جدت پسند زبان میں بیئر الکوحل نیز بغیر الکوحل کے بھی عام دکانوں سےجو مل جاتا ہے وہ کیمیکلز سے بھر ا ہوتا ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ بھی رہتا ہے مگر ہر کوئی گھر بیٹھے بھی “آب ِ جؤ” بیئر بنا سکتے ہیں۔

بغیر چھلکے کے جؤ ، جس کو پرل بارلے (Pearl barley) بھی کہتے ہیں ایک کپ پرل بارلے کو 15کپ پانی کسی برتن میں ڈال کر ہلکی آنچ پر گرم ہونے کے لئے رکھ دیں، جب پانی ابل ابل کر سفید سا مائع بن کے ایک تہائی رہ جائے تو اسے نتھار لیں، لیجیے اس طرح بغیر کیمیکلز کے بہترین “آب ِ جؤ” بارلی واٹر یا بیئر گھر بیٹھے تیار ہو جاتا ہے۔

المختصر جؤ کی اہمیت اسی ایک بات سے بھی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اگر ہم آج کل کی بیماریوں کے نام گننا شروع کریں یعنی تپ دق، ملیریا، ہیضہ، سرطان، یرقان، نمونیا، تو وہ کوئی 35 یا 40 بیماریوں کے نام گن پائیں گے لیکن حدیث شریف ﷺ کے مطابق 100 کے قریب بیماریوں کا علاج جؤ کی غذا میں شامل ہے، کے مصداق یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ قیامت تک کی آنے والی بیماریوں کا علاج بھی جؤ کی غذا میں موجود ہے۔ ہم نے بذات خود جؤ سے بنی اغذیہ سے فالج زدہ افراد ٹھیک ہوتے دیکھے ہیں۔ ہیپاٹائیٹس یعنی یرقان کے مریض شفا پاتے دیکھے گئے ہیں۔لوگوں کے پتّے(Bile) سے پتھری بھی نکلتی دیکھی ہے جؤ کے آٹے سے خواتین میں رنگ گورا بھی ہوتا دیکھا گیا ہے۔

اس سے مردانہ وجاہت بھی ابھرتی ہے۔ یعنی جؤ کی غذا سے نہ صرف طبی فوائد ملتے ہیں بلکہ روحانی طور پر بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے، کیوںکہ ذائقے میں شیریں، تاثیر میں سرد ہونے کے ساتھ ساتھ جؤ کی غذا بھوک مٹاتی اور پیاس بجھاتی ہے۔ جسم کے موٹے فضلات کو آسانی سے اخراج کراتی ہے۔ذہانت بڑھاتی اور غوروفکر کی سوچ کو تحریک دیتی ہے، آواز کو دل کش اور سریلا کرتی ہے، سماعت اور بصارت کو تقویت بخشتی ہے، زہریلی رطوبتوں کا اثر زائل کرتی ہے، موٹاپا دور کرتی ہے،

جسم کی چربی کو پگھلاتی ہے اور خون کو خالص تر رکھتی ہے۔ ایسی غذائیت سے بھرپور اور وہ خاتم الانبیاء سرور کائینات محمد مصطفی ﷺ کی سب سے پسندیدہ اغذیہ کو ہم نام نہاد مسلمان یکسر چھوڑے لاتعلق بنے بیٹھے ہیں اعلی تعلیم یافتہ دنیادار عام مسلمان تو کجا دین کے ٹھیکیدار، دینی خدمات سے ہی روزی روٹی کمانے والوں کے دستر خوان پر بھی شاذ و نادر ہی جؤ کی اغذیہ دستیاب پائی جاتی ہیں.کہنے کو تو چھاتی پیٹ پیٹ کر، اپنے آپ کو عاشق رسول ﷺ کہنے والے،اہل سنہ و الجماعہ کے دعویداروں کی اکثریت نے کبھی زندگی میں جؤکی کوئی بھی اغذیہ نوش بھی فرمائی ہو یہ تو اچھا ہوا مہاراشٹر مسلم اکثریتی علاقے مالیگاؤں آورنگ آباد میں بعض تجار جؤ سے کچھ اغذیہ بنا پیکنگ کر بیچتے پائے گئے ہیں

۔آجکل کی یہ دنیا تشہیری مارکیٹنگ معشیت پر مبنی دنیا ہے۔ امریکہ اپنے یہاں اگنے والے “ایک سیب روزانہ صحت کا ضامن” تشہیری جملوں سے عالم بھر میں بیچنے میں جہاں کامیاب ہوا ہے اسی اللہ کے رسولﷺ کے تعریف کردہ جؤ اغذیہ کو “آب جؤ” یا بیئر کے نام سے پورے عالم میں بیج بیج کر پیسے بنا رہا ہے۔

جنوبی ھند بھٹکل و اطراف ساحل کے ساتھ ٹاملناڈ کلیکیرےساحل، کیرالہ کوچین کالکٹ ساحل مہاراشٹر کونکن اور گجرات کھنبات احمد آباد ساحل سمندر پرسابقہ 1500 سو سال قبل سے آباد اہل عرب اہل نائطہ تجارتی قبائل اپنے علاقوں میں آباد لاکھوں کروڑوں ہم مسلمانوں ہی میں، جؤ کی مصنوعات متنوع اغذیہ بڑے پیمانے پر کارخانوں میں تیار کر پوری تشہیر کے ساتھ توزیع کریں تو خاتم الانبیاء رحمت للعالمین محمد مصطفی ﷺ والی جؤ اغذیہ، امت مسلمہ میں رائج کرنے ممد و مددگار ہوسکتی ہے۔ہم مسلمانوں میں عین سنت جؤاغذیہ کھانے کا رواج دوبارہ ڈالتے ہوئے، کم الماس جھکانے والی سنت کو تاقیامت زندہ رکھا جاسکے گا۔وما علینا الا البلاغ
تلبینہ پکانے کا صحیح طریقہ
تلبینہ کے فائیدے اور نقصانات
تلبینہ جیسی پروڈکٹ کو ممبر سے بیان کرنا یا اس کے فروخت کے لیے دو چار جملے کہہ دینا مناسب ہے یا نہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں