112

شہدائے فلسطین اور خاموش حکمران

شہدائے فلسطین اور خاموش حکمران

تحریم راؤ بنت افضل ( کمالیہ)

زخمی دل، اشکبار آنکھیں لیے اک عنوان جو میری روح کے صفحات پر درج ہے پر تحریر کرنے کے لیے بیٹھی ہوں تو ہمت نہیں ہو رہی کہ کن الفاظ میں پکاروں امت مسلمہ اور حکمرانوں کو جو اس دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ اپنے حقیقی مقاصد کو بھول چکے ہیں ۔

یہ رونق ، بے فکرِی ، لذَّتوں کا سُرور۔۔!!

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ۔۔!!

سات اکتوبر وہ دن ہے جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تا کہ سر زمین انبیاء کو نجس انسانوں سے بلکل ایسے ہی پاک کر دیا جائے جیسے بارش کے ذریعے پتوں کی دھول کو صاف کر دیا جاتا ہے۔
غزہ کی پٹی سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ انتہائی اذیت ناک ہیں۔ غزہ اور رفح لہو لہو ہو چکا ہے۔ بچوں کو پیروں تلے روند کر ان کے مستقبل کو برباد کیا جا رہا ہے۔ ان معصوم پھولوں کو کھلنے سے پہلے ہی کچل دیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں انہیں گھروں سے بے گھر کر دیا گیا ہے۔

ان پر تشدد کا بازار گرم ہے ہر لمحہ بم گرائے جا رہے ہیں ان کے گھر ، خاندان یہاں تک کہ ہسپتال بھی تباہ کر دیے گئے ہیں ۔ شہید فلسطینیوں کی تعداد 36000 سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ ان پر نہ صرف زمین تنگ کر دی گئی ہے بلکہ خوراک کی رسائی بھی بند کر دی گئی ہے ۔ فلسطینی بھوک سے مر رہے ہیں مگر امت مسلمہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
لوگ حیران ہر کر پوچھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی اولاد کربلا میں تکلیف میں تھی تو کوفہ والے کیسے خاموش تھے بلکل ایسے ہی جیسے اب مسلمان ممالک مسئلہ فلسطین پر خاموش ہیں۔
ایک سیب گرنے پر نیوٹن نے گریویٹی ایجاد کر لی تھی مگر افسوس ہزاروں لاشیں
گرنے پر انسانیت ایجاد نہیں ہوئی
اے مسلمانوں!
کیا فلسطینیوں کی چیخوں نے تمھاری روحوں کو نہیں چھوا؟ کیا تمھارا دل فلسطین کے لیے نہیں تڑپتا ؟ کیا تمھاری آنکھیں ان مظلوموں پر ہونے والے تشدد کو دیکھنے کی سکت رکھتی ہیں ؟ ارے وہ تو اپنا حق ادا کر رہے ہیں القدس کے لیے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کر رہے ہیں۔ خدا کی قسم وہ کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ ابدی جنت کے وارث بن گئے ہیں۔
امام ابن تیمیۃ فرماتے ہے

“ہر انسان زندگی کی راہ پر چل کر موت پالیتا ہے سوائے مجاہد کے جو موت کی راہ پر چل کر زندگی پالیتا ہے”

امتحان تو ہمارا ہے کہ ہم فلسطین کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم اسرائیلی پروڈکٹس سے بائیکاٹ کر رہے ہیں ؟ کیا ہم فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں ؟ نہیں ہم تو صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ جمیع مسلمانوں کی بے وفائی کو تاریخ اپنے اوراق میں قلم بند کرے گی
کہ جب غزہ کے بعد رفح پر ظلم ڈھایا جا رہا تھا
تو مسلمان خواب غفلت کی نیند سو رہے تھے۔
تاریخ لکھی جائے گی کہ
مسلمانوں کے پاس 50 لاکھ سے زیادہ فوجی تھے بھاری اسلحہ میزائل جنگی جہاز ایٹم بم تک موجود تھا لیکن غزہ کیلۓ کوئی امداد کو نہ جا سکا

افسوس تو اس بات کا ہی کہ 57 اسلامی ممالک کے حکمران خاموش ہیں۔دل چاہتا ہے کچھ ایسا لکھوں لفظوں کی آہیں نکلیں قلم سے خون ٹپکے کاغذ پر درد بکھرے
اور غفلت میں پڑے حکمرانوں کی خاموشی ٹوٹے ۔

بینائی رکھ کے دیکھو میری ، اپنی آنکھوں میں
شاید حکمرانوں تمہیں بھی درد کی دنیا دکھائی دے…!!
‏کاش کوئی “قمیض یوسف” ہوتی میرے پاس جس کے ڈالنے سے بیناٸی لوٹ آتی تو،
میں اس قمیص کو مسلمان “حُکمرانوں” کی آنکھوں پہ ڈالتی تاکہ انکی روحانی بینائی لوٹ آۓ !
اور ان کو القدس دکھائی دے!
کہ کب سے القدس،
فاتح سیدنا حضرت عمرکا منتظر ہے!
کسی ایوبی کا منتظر ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں