112

غمِ فلسطین

غمِ فلسطین

از قلم: تحریم راؤ بنت افضل ( کمالیہ)
فلسطین میں رقص کرتی موت ، بہتا ہوا خون ، لاش فرزند کو ماں کی بانہوں میں ، بچوں کو یتیم ہوتے ہوئے ، ان کے لہو کے بہتے ہوئے نالے اور مسلمانوں کی چیخوں کو سن کر روح تڑپ جاتی ہے ، دل خون کے آنسو روتا ہے اور جاں ہتھیلی پہ لانے کی تڑپ پیدا ہو جاتی ہے

میں کیوں نہ روؤ ، کیوں نہ آہ و بکا کروں ، کیوں نہ آواز اٹھاؤ جبکہ وہ القدس جس کی الفت میں بغیر کسی زنجیر کے قید ہوں ، جس کی محبت میری روح کے گوشوں میں سمائی ہوئی ہے پر کسی غیر کی حکومت ہو ۔ میں کیسے بلاد الانبیاء ( نبیوں کی سرزمین ) پر بلکتے تڑپتے بچے ، ماؤں کی چیخیں اور مسلمانوں کو جلتا دیکھ کر سکون کی نیند سو سکتی ہوں۔

” اور محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کہ غم میں غمگین رہا جائے”

کاش! فلسطین کو ملت اسلامیہ کی مدد میسر ہوتی ۔ کاش! خاموشی کا لبادہ اوڑھے حکمرانوں کی خاموشی ٹوٹتی۔
کاش! امت مسلمہ کی غیرت جاگ اٹھتی۔ کاش! کوئی ابو عبیدہ اور اسماعیل ھنیہ کی طرح جرءات کرتا ۔مگر افسوس ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ تڑپتے ہوئے بچوں کی چیخوں کو سننا اپنی عادت بنا چکے ہیں۔ ہم انسانیت کے درجہ سے اس قدر گر چکے ہیں کہ حیوان کہلانے کے حقدار بھی نہیں رہے کیونکہ جانور بھی ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔

؂اتریں گے آسمان سے فرشتے تیرے واسطے
“اے فلسطین “
غیرت مرچکی ہے زمین پر مسلمانوں کی.۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں