نقاش نائطی 164

کھانا اتنا ہی لیاجائے تھالی میں، جتنا پھینکا نہ جائے کچرے دانی میں

کھانا اتنا ہی لیاجائے تھالی میں، جتنا پھینکا نہ جائے کچرے دانی میں

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

ملکی ریسوسز پر،سب کا برابر کا حق ہوتا ہے۔ ہم آپ کو، اپنی صلاحیتوں سے، زیادہ سےزیادہ اشیاء خرد و نوش خرید و فروخت کا اختیار تو حاصل ہوسکتا ہےلیکن، ملکی ریسورسز اشیائے خرد و نوش کو برباد کرنے کا حق،کسی کو بھی نہیں ہونا چاہئیے۔اسی لئے تو اسلام نے، 14 سو سال قبل، کسی بھی شئی کے اصراف پر، بعد الموت جواب دہی سے متنبہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ وضو یا غسل کرتےہوئے بھی، پانی کے، بے جا اصراف پر، جواب دہی کے لئے تیار رہنے کا کہا گیا ہے۔

انسان کا برتاؤ، سوبھاؤ ایک جیسا ہی ہوتا ہے،بس اسکی عادتیں اسے اچھا یا برا جدا جدا بناتی ہیں

ہم اپنے بچوں کو، بچپن ہی سے، اصراف پر، مالک دوجہاں کی جباریت و قہاریت کا خوف بٹھائیں تو، یقیناً آج کے بچے کل کے صالح معاشرے کے معمار بن سکتے ہیں۔ اسی اسلامی اصول و اقدار کو جہاں ہم مسلمانوں نے چھوڑا ہوا ہے، مغربی ممالک کے گوروں نے، اپنے ملکی قوانین کا، اسے حصہ بنائے، ملکی ریسورسز کو،چند فیصد تونگروں کے ہاتھوں ضیاع سے محفوظ رکھتے ہوئے، انکے ملکی غرباء کے لئے انہیں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ جرمنی کے ایک ریسٹورنٹ کا یہ واقعہ سائبر میڈیا، واٹس آپ، فیس بک پر خوب گردش کرچکا ہے، جہاں ایک پاکستانی نے، کسی معیاری مہنگے ترین جرمنی کے ہوٹل میں، اپنے مہمان دوست کو مرعوب کرنے کے لئے،بہت ہی زیادہ آنواع اقسام کے کھانے آڈر کئے تھے

جو یقیناً وہ پورا نہیں کھاسکتے تھے۔پاس والی ٹیبل پر ناشتہ کررہی دو معمر نساء، یہ سب دیکھ رہی تھیں، جب وہ پاکستانی کھانے سے فارغ ہوئے،اور بل ادا کر، ڈھیر سارا کھانا ٹیبل ہی پر چھوڑ، جانے لگے تو، ان معمر نساء نے، ان سے مخاطب ہوکر،متانت سے کہا کہ، آپ کو اپنے کھانے کی استعداد مطابق ہی آرڈر کرنا چاہئیے تھا،اتنا کھانا ضیاع تو نہ ہوتا۔ اس پر اس پاکستانی نوجوان نے،اظہار تاسف کرنے کے بجائے،

جب یہ کہا کہ “ہم کھانے کا بل ادا کرچکے ہیں، کھانا ضیاع ہوتا ہے تو ہونے دو” تو اس معمر نساء نے،انہیں روک کر، پولیس ہی کے ایک خاص شعبہ کو فون کیا۔ کچھ ہی لمحوں میں اس شعبہ کے آفیسر ہوٹل میں وارد ہوئے،اور پوری آگہی معلوم کرنے کے بعد، ان پاکستانیوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگےکہ” جرمن قانون اشیاء خرد و نوش فلاں دفعات کی رؤ سے، کسی بھی جرمن شہری یا جرمنی میں وقتی ائےکسی بھی مہمان کو، اپنے قوت خرید کے بل بوتے پر،ملکی ریسورسز کے ضیاع کا حق نہیں پہنچتا ہے اور چونکہ آپ نے،عوامی جگہ، ریسٹورنٹ میں،ملکی قانون کو پامال کیا ہے،اسلئے جتنا ضیاع خرد و نوش ہوا ہے،اسکے لئے،متعین مقدار، جرمانہ آپ کو ادا کرنا پڑیگا” اور مجبوراً ان پاکستانیوں کو،اس ضیاع شدہ اشیاء خرد و نوش کے لئے، جرمانہ ادا کئے، اپنے آپ کو بچانا پڑا۔

ضیاع اشیاءخرد و نوش کا قانون؛ مالک ارض و سماوات کی طرف سے تو ہے ہی، جو اختتام عالم، محشر کے روز، ہر کسی کو بھگتنا پڑیگا، لیکن اشیاء خرد ونوش ضیاع جرمانے کا قانون آرضی بھی، اقوام متحدہ کے تمام اراکین ممالک پر لاگو کیا جائے، تو فالوقت عالمی سطح پر بیکار ضیاع ہونے والا 20فئصد اشیاء خرد و نوش، بچائے جاتے ہوئے، عالم انسانیت کے درمیان لقمہ بھر کھانے کے لئے تڑپتی سسکتی غریب و مفلس انسانیت کو پیٹ بھر کھانا دستیاب کروایا جاسکتا ہے۔
فی زمانہ اکثر گاؤں شہروں میں، کھانا کپڑا بنک یا روٹی بنک یا اس اقسام کے بہت سارے این جی اوز سرگرم عمل ہیں،

جو ہوٹلوں، شادی خانوں میں، خود کو متعارف کرائے، انکے یہاں تقاریب میں بچے کھانے کو، رکھے رکھے خراب ہونے سے پہلے، ان سے ان کھانون کو اپنی تحویل میں لئے، ہائی جینک انداز فردی یا عائلی پیکنگ کئے، اسے غرباء و مساکین کے گھروں تک پہنچائے پائے جاتے ہیں۔ اکثر شہر ملکوں میں صحت عامہ کے خیال پیش نظر، بچے کھانے کو دوسرے دن استعمال پر روک لگائی گئی ہے۔ ایسے پس منظر میں، ایسے بچے کھانے کو، ایسی این جی اوز سے رابطہ قائم کئے، بر وقت مساکین و محتاجوں تک ترسیل کرتے ہوئے،ضیاء اشیاء خرد و نوش کے ساتھ بھوکوں کو کھانا کھلانے والے نیک عمل، کثیر الجہتی ثواب دارین کا حقدار بنا جاسکتا ہے

چونکہ ہم مسلمان اس سمت بے فکرے سے ہوگئے ہیں اسی لئے عالمی ضیاء آشیاءخرد و نوش پیمائش درجہ بندی میں، مسلم عرب ممالک سب سے آگے، رزق کو کچرے دانوں میں پھینکنے والوں میں، سر فہرست پائے جاتے ہیں۔جس مساوات انسانیت کا پیغام لئے، دین اسلام نے، پورے عالم پر، اپنی حکمرانی کا دائرہ وسیع ترکیا تھا،آج اسی اسلامی اقدار و یکسانیت کے خلاف، پونجی واد کیپیٹلسٹ، جاگیرادارانہ، تونگرانہ، شاہانہ نظام حیوانیت نے،ہم مسلمانوں، خصوصاً عرب مسلم مملکتوں کو اپنی جکڑ میں لیا ہوا ہے، ملکی سطح پر انقلاب یا بدلاؤ لانا،مالک دوجہاں کی ذمہ داری ہے لیکن ہم اپنے حد تک اپنی ذمہ داری بھی نبھائیں تو،ایک حد تک اس غربت و افلاس کے جن کو قابو میں کیا جا سکتا ہے

۔ ایک طرف ہم اپنے آس پاس اپنے کفالتی حدود میں، ضیاع اشیاء خرد و نوش پر قابو پانے کی پورے اخلاص و دلجمعی کے ساتھ کوشش کریں تو، دوسری طرف اللہ نے ہمیں معشیتی طور جتنابھی خوش حال رکھا ہے، اپنی استعداد مطابق اپنے گھر آنگن پچھواڑے، گلی محلے،یا بستی کے باہر آباد، غرباء و مساکین فقراء کی آبادیوں میں سے، کچھ گھرانوں میں، ماہانہ راشن پانی،پہنچانے یا پہنچوانے کا بندوبست کریں ،اور عام و متوسط طبقہ، جہاں اپنے گھر کے مکینوں کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کھانا پکایا،پکوایا کرتا ہے،

اس میں روزانہ کی بنیاد پر،ایک دو زاید لوگوں کو کھانا پکانے یا پکوانے کا انتظام کرتے ہوئے اور ازخود یا کسی ایسی این جی اوز کی معرفت، ایک دو بھوکے مسکین کو تازہ تازہ، ہم آپ کے گھر،اپنے ہاتھوں کا بنا معیاری کھانا کھلوانے کا بندوبست کریں یا کروائیں پھر دیکھیں ہمارے محدود معشیتی وسائل سے، ہمارے گھرانوں میں کیسی برکت آتی ہے۔وما لتوفیق الا باللہ

کھانا اتنا ہی لیاجائے تھالی میں، جتنا پھینکا نہ جائے کچرے میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں