بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 96

عوام کو مفت بجلی نہیں تو کسی کو بھی نہیں ملے گی !

عوام کو مفت بجلی نہیں تو کسی کو بھی نہیں ملے گی !

اس ملک میں ہر دور حکومت میں اپنے اخراجات بڑھائے جاتے رہے اور اس کا سارا بوجھ عام آدمی پر ہی ڈالا جاتا رہا ہے ، اس حکومت نے بھی رویت بر قرار رکھتے ہوئے جاری اخراجات میں چو بیس فیصد اضافہ کیا ہے ،لیکن جب سے آئی پی پیز کے خلاف عوامی مہم چلی ہے تو حکومت پر دبائو بڑھ رہا ہے

کہ حکمران اشرافیہ کی مرعات بند ہو نی چاہئے ،اس عوامی و سیاسی دباوکے بعد ہی حکومت نے تمام سرکاری ونیم سرکاری اداروں اور سرکاری افسران کو ملنے والی مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اگر حکومت اپنے فیصلے پرفوری عمل کرلے تو اس سبسڈی کا رخ غریبوں کی طرف موڑ کر ان کو بھی سکھ کاسانس دیا جا سکتا ہے۔
اتحادی حکومت ایسے ہی کچھ وعدئوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ حکمران اشرافیہ کی مر عات کا خاتمہ کر کے عام آدمی کو رلیف دیے گی ، لیکن اس نے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف اپنے اخراجات میں اضافہ کیا ،بلکہ حکمران اشرافیہ کو بھی نوازنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کا سارا بوجھ عام لوگوں پر ہی ڈالا ہے ، اس حکومت کے عوام مخالف بجٹ کے بعد تو عوام کی بر داشت ہی جواب دیے گئی ہے، عوام سراپہ احتجاج ہو کرسڑکوں پر نکل آئے ہیں ، اس صورتحال کیلئے اپوزیشن جماعتیں پہلے سے ہی منتظر تھیں،

اس میںجماعت اسلامی نے عوام کی آواز بنتے ہوئے پہل کر دی ہے اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی عوامی احتجاج آگے بڑھانے کیلئے میدا ن میں آرہی ہیں ،حکومت کے پاس بچائو کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے تو عوامی دبائو کی شدت کم کرنے کیلئے مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور مفت پیٹرول کی سہولت ختم کر نے پر غور کیا جارہا ہے،لیکن اس پر عمل در آمد کب ہو گا ، اس بارے کچھ کہنابہت ہی مشکل ہے۔
یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے ، اس سے قبل بھی ایسا ہی کچھ ہو تا رہا ہے ، گزشتہ برس مارچ میں پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اعلیٰ سرکاری افسران کو مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی ہدایت کی تھی ،جبکہ 2022ء میں بھی ایسی ہی تجویز زیرِ غور آئی تھی، مگر اس معاملے کو ہر بار ہی موخر کیا جاتا رہا اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ہدایات پر بھی عمل نہیں ہوتارہا ہے،کیو نکہ اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہی پر چلنے لگتے ہیں ،اپنے ہی مفادات آڑے آنے لگتے ہیں ، اس لیے ہی حکمران اشرافیہ سے مرعات واپس لینے کی بجائے مزید دی جاتی رہی ہیں ،

مارچ 2023ء میں پارلیمان میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین 33 کروڑ یونٹ ماہانہ، جبکہ گریڈ 17 سے 21 کے ملازم 70 لاکھ یونٹس ماہانہ مفت بجلی استعمال کررہے ہیں، یعنی سرکاری ملازمین سالانہ 34 کروڑ یونٹس سے زائد مفت بجلی استعمال کررہے ہیں، اس کی مالیت نو ارب روپے سے بھی زیادہ ہے، جبکہ مفت پٹرول کی مالیت کہین زیادہ ہے ، اس معاشی بد حالی میں بھی اشر افیہ کو لگاتار نواز نے والے کو پو چھنے والا ہے نہ ہی اس کا کوئی احتساب کرنے والا ہے؟
اس شدید مالی بحران میں‘ جب کہ حکومت آٹے‘ گھی اور بچوں کے دودھ پر بھی ٹیکس وصول کر رہی ہے‘ سرکاری اداروں اور افسروں کو مفت بجلی اور پٹرول فراہم کرنے پر اربوں روپے خرچ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے، اس کے باوجود افسر شاہی کو ہی مر عات دی جاتی رہی ہیں ، کیو نکہ ان سے کام لینے کی آڑ میں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کروایا جاتا رہاہے ،کچھ لو اور سب کچھ دو کی بنیاد پر ہی اپنا کام نکلوایا جاتا رہا ہے تو پھر ان کی مرعات کا خاتمہ کیسے ہو گا؟ اگر حکومت نے دبائو میں آکر ہی کچھ کر نا تھاتو دو برس قبل ہی کر لیتی تو اب تک اربوں روپے کی بچت ہو سکتی تھی،

لیکن اس حکومت کے ایجنڈے پر عوام کو رلیف دینا ہے نہ ہی اس کی تر جیحات میں کہیں عوام دکھائی دیتے ہیں ، یہ ایسے نمائشی اعلات اور فیصلے پہلے بھی کرتے رہے ہیںاوراس بار بھی کررہے ہیں ، یہ اپنے اعلانات اور وعدئوں سے وقت گزرتے ہی مکر بھی جاتے ہیں ۔
اس بار بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیے رہا ہے ، لیکن اس بار کسی سیاسی جماعت یا کسی فرواحد کا نہیں ،پچیس کروڑ عوام کا مطالبہ ہے

کہ حکمران اشرافیہ کی مرعات بند کر کے غریب عوام کو رلیف دیا جائے ، اس میں مشکل ہی کیا ہے، حکومت بھی اشرافیہ سے مر عات لے کر غریب عوام کو رلیف دینے کی ہی دعوئیدار رہی ہے تو پھر عوام کو ریلیف دیے ، ورنہ اقتدار چھوڑ کر گھر چلی جائے ، کیو نکہ اب زوزبر دستی چلے گی نہ کسی دوسرے کی مرضی چلے گی نہ ہی ایسے حکومت چلے گی ، اگرعوام کو مفت بجلی نہیں تو کسی کو بھی نہیں ملے گی !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں