بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 88

موسمی تبدیلیاں اور حکومتی اقدامات!

موسمی تبدیلیاں اور حکومتی اقدامات!

دنیا بھر میں گزرتے وقت کے ساتھ موسمی تبدیلیاں آرہی ہیںاور اس کا مقابلہ کر نے کیلئے سارے ہی اپنے تائیں کائوشیں کررہے ہیں ، لیکن پا کستان میں ماسوائے حکومتی دعوئوں کے کچھ بھی نہیں ہورہاہے ، حکومت سنجیدگی کے ساتھ کچھ کررہی ہے نہ ہی ماحولیاتی ادارے کوئی حکمت عملی بنارہے ہیں ، اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی اور طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی رکھی ہے ،حکومتی عہدیدار کبھی پانی میں کھڑے ہو کر اور کبھی سڑک کے کنارے فوٹوشین کروارکر بتا نے میں لگے ہیں

کہ انہوں نے بہت کار کر دگی دکھائی ہے ، جبکہ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی سے 31 جولائی تک بارشوں اور ان کے سبب ہونے والے حادثات میں 99 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، عام غریب آدمی کبھی مہنگائی کے بوجھ تلے دب کرمررہا ہے تو کبھی بارش کے سیلاب کے ریلے میں بہہ رہا ہے ،لیکن حکو مت اور انتظامیہ نمائشی اعلانات و زبانی اقدامات کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پارہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ماہرینِ موسمیاتہ نے دو ماہ قبل ہی وارننگ جاری کر دی تھی کہ اس سال معمول سے 35 فیصد زیادہ بارشیں ہوں گی ،مگر اس کے باوجود صوبوں کی سطح پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس الرٹ کو بھی احکام نے معمول کی کارروائی ہی سمجھا ہے، اس لیے ہی کو جامع پا لیسی وضع کی گئی نہ کوئی انتظامی معاملات کو دیکھا گیا ہے،

جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے کی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ضرورت ہے، ہمیں اب ہر سال اور ہر مہینے بارشوں کے دہائیوں پرانے ریکارڈ ٹوٹنے کیلئے تیار رہنا ہو گا، بڑے ڈیموں کے ساتھ درمیانے اور چھوٹے ڈیموں‘ مصنوعی جھیلوں اور آبی ذخائر کی تعمیر پر متوجہ ہونا ہو گا،اگر چہ موسمی تغیرات کا فوری حل نکالنا ممکن نہیں ،مگر پیش بندی اور احتیاطی تدابیر سے کاروبارِ حیات چلانے کی گنجائش تو ضرور پیدا کی جا سکتی ہے۔
یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ بدلتے موسمی حالات کے پیش نظر اپنے اداروں کے ساتھ انتظامیہ کو بھی متحرک کر ے

اور اس کے منفی اثرات سے عوام کو محفوظ بنائے، مگر حکومت اپنے دوسرے کاموں میں ہی لگی ہوئی ہے ، حکومت ایک طرف خود محفوظ بنانے تو دوسری جانب اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے میں لگی ہے، اس کے پاس موسمی تبدیلیوں کے اثرات زائل کی کوئی منصوبہ بندی کر نے کا وقت ہے نہ ہی اس کی تر جیحات میں کہیں دکھائی دیے رہا ہے ، وزیر ماحولیات بھی ماحولیاتی تبدیلیوںپر غور خوض کر نے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کے نشتر چلاتی ہی دکھائی دیتی ہیں ، اس حکومت کی تر جیحات میں عوامی مسائل کا تدارک ہے نہ ہی اس کے وزراء عوام کی بھلائی کیلئے کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں

، عوام پر یشان حال ہیں اور حکومتی وزراء کوئی کار کر دگی دکھانے کے بجائے ڈنگ ٹپائو پروگرام پر ہی عمل پیراں دکھائی دیتے ہیں ، انہیں کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی ان کی کار گزاریاں کوئی دیکھ رہا ہے ، وزیر اعظم سے لے کر مر یم نواز تک کی کار کر دگی ،اپوزیشن قیادت کومود الزام ٹہرانے سے شروع ہو کر اپوزیشن قیادت کو ہی ہر چیز کا ذمہ دار ٹہرانے پر ختم ہورہی ہے ، اس کے علاوہ حکومت کے پاس کہنے اور دکھانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے ۔
اتحادی حکومت کے وزیراعظم کہتے ہیں کہ سارے ملک کے وزیراعظم ہیں اور مر یم نواز کہتی ہیں کہ سارے پنجاب کی وزیر اعلی ہیں ، لیکن وزیر اعظم اسلام آباد سے باہر نکل رہے ہیں نہ ہی وزیر اعلی لاہور سے باہر جارہی ہیں ، اس لیے سارا ملک ہی موسمی تبدیلیوں کے زیر اثر ہے اور وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کو چند بڑے شہروں سے آگے کچھ دکھائی ہی نہیں دیے رہاہے ، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ چند بڑے شہروں پر ہی سارے وسائل خرچ کر کے ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کی جائے

،بلکہ نئے شہر آباد کئے جاتے ہیں اور اُن شہروں میں بڑے شہروں والی تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، تاکہ بڑے شہروں پر سے آبادی کا بوجھ کم کر کے انتظامی طور پر بہتری لائی جاسکے ،لیکن یہاں پر ایسا کچھ کیا جارہا ہے نہ ہی ایسی کوئی سوچ پائی جاتی ہے ،ہمارے منصوبہ ساز اور فیصلہ ساز مکھی پر مکھی مارنے سے باز ہی نہیں آ رہے ہیں ۔
پاکستان پورے کا پورا ہی سہولیات سے محروم ہے ، لیکن وسائل کا رخ پسماندہ علاقوں کی طرف موڑا جارہا ہے نہ ہی وہاں کے لوگوں کو موسمی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کا کوئی انتظام کیا جارہا ہے ،پرانے موسمیاتی پلانوں میں ہی ترمیم کر کے عوام کے سامنے لایا جارہا ہے اور ان پر اپنے نام کا لیبل لگایا جارہا ہے ، اس کی تشہیر میں زمین آسمان ملایا جارہا ہے ،لیکن یہ سارے پلان قابل عمل ہیں نہ ہی اس سے عوام مستفید ہو پائے ہیں ، اس بر سات میں کراچی ، لاہور ، پشاور ،کوئٹہ سمیت سارے ہی چھوٹے بڑے شہر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس میں غریب بے موت مررہا ہے ،

لیکن حکومت کا کلائمنٹ ایکشن پلان ماسوائے اشتہاری مہم کے کہیں عملی طور پر نظر نہیں آرہا ہے ، اگر وزیر اعظم شہباز شریف اور مر یم نواز اپنی ذاتی تشہیر کے حصار سے باہر نکل کربارش زدہ علاقوں کے متاثرین سے بھی مل لیں تو شاید کوئی دادرسی ہو جائے،کوئی رلیف مل جائے ،کچھ محرومیوں کا آزالہ ہی ہو جائے، جوکہ ان کا حق ہے ، لیکن اس حق سے محروم رکھا جارہا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں