65

تذلیل انسانی کا سلسلہ کب رکے گا؟

تذلیل انسانی کا سلسلہ کب رکے گا؟

تذلیل انسانی کا سلسلہ کب رکے گا؟

تحریر :ڈاکٹر ایم ایچ بابر
میل :[email protected]

رب کائنات نے رحمت کائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ یہ ارض پاک عطاء فرما کر ہم پر احسان عظیم فرمایا اور ہم اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ یہ وطن اسلامی ریاست کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور جہاں تک میرا خیال ہے رب کی اس پوری کائنات میں اسلام واحد دین ہے جس کے اسباق ہی انسانی سلامتی و بقاہیں انسانیت کی بقا کے لئے اس سے بڑی اور کیا مثال پیش کروں کہ یہ وہ دین ہے کہ جب دو انسان آپس میں ملیں تو اولین کلمہ جو زبان سے جاری کرنے کا حکم ہے کہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ یعنی دونوں ملنے والے اک دوجے کے لئے سلامتی اور رب کی رحمت و برکات چاہتے ہیں اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ اسلام سلامتی چاہنے اور انسانی تکریم کا سبق دیتا ہے پھر کیا وجہ ہے

کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک اور اسلام پر عمل پیرا لوگوں کے اس دیس میں سلامتی چاہنا اور انسانی تکریم ہونا قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے جو انسانوں کی جتنی تذلیل زیادہ کرے اس کو ہی معتبر اور اشراف میں سے گنا جاتا ہے مجھے 24 اگست 2024 بروز ہفتہ بوقت 10 بجے صبح ڈی ایچ کیو اسپتال شیخوپورہ شہباز شریف مدر اینڈ چلڈرن میڈیکل کمپلیکس میں جانے کا اتفاق ہوا کیونکہ بڑے بھائی سیف اللہ کے نواسہ اور نواسی سخت علیل تھے انکے چیک اپ کی غرض سے جب چلڈرن پہنچے تو پرچی کے حصول کے لئے مردوزن کی ایک کثیر تعداد شدید حبس کے ماحول میں لائنیں بنائے کھڑے ہوئے تھے

جن میں کچھ مستورات نے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اٹھا رکھے تھے حبس اور گھٹن نے سانس لینا محال کر رکھا تھا کیبن میں جہاں سے رجسٹریشن ٹوکن جاری کئے جاتے ہیں ایک نوجوان بچی بیٹھی ہوئی تھی مگر پرچی کسی کی بھی نہیں بن رہی تھی میں نے ہمت کرکے آگے جاکر اس بچی سے پوچھا کہ بیٹی اتنی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں آپ پرچی کیوں نہیں بنا کے دے رہی کسی کو؟ وہ بیٹی میرے سوال کے جواب میں نہائت احترام اور بے بسی سے بولی انکل جی پرچیاں ختم ہوگئی ہیں ایک ملازم ڈی ایم ایس کے دفتر سے لینے گیا ہوا ہے

جونہی آتا ہے میں پرچی دینا شروع کردوں گی یقین جانیں کوئی 35 یا چالیس منٹ بعد ایک لڑکا پرنٹڈڈ پرچیوں کے بنڈل اٹھائے نمودار ہوا اس بچی نے پوچھا اتنی دیر کیوں لگائی تو وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس کر کہنے لگا بس ایویں ای وہ لڑکی کہنے لگی کہ لوگ شدید گرمی میں کھڑے ہیں تم کہہ رہے او بس ایویں ای یہ کیا بات ہوئی؟ تو وہ کہنے لگا کہ پھر کیا کروں جو انتظار کر رہے تھے یہ انسانی تذلیل کا پہلا سین تھا کہ لوگ سر تا پا پسینے میں شرابور کھڑے انتظار کرتے ہیں تو کرتے رہیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ماؤں نے ننھے منے پھول جیسے بیمار بچوں کو اٹھا رکھا ہے بچے حبس اور گھٹن سے بے حال ہیں

اور کسی کو کوئی غرض نہیں کہ جو بھی برا حال ہورہا ہے لوگوں کا ہوتا رہے افسران اور ملازمین ان انسانوں کے غلام تھوڑی ہیں جو ان کا احساس کریں؟ خدا خدا کرکے پرچیاں لیں اب ہم عازم سفر ہوئے او پی ڈی کی طرف شیخوپورہ کے اس چلڈرن اسپتال میں آؤٹ ڈور مریضوں کے چیک اپ کے لئے چار کمرے بنے ہوئے ہیں کمرہ نمبر ایک تا چار آؤٹ ڈور ڈیپارٹمنٹ کے حال میں تل دھرنے کو جگہ نا تھی کمرہ نمبر چار کے دروازے پر عورتوں اور مردوں کی لمبی چار قطاریں لگی ہوئی تھیں باقی تینوں کمروں کے دروازوں پر ایک بھی لائن نہیں تھی میں نے سوچا کہ چار نمبر پر بہت رش ہے

چلو جو ڈاکٹرز 3 نمبر میں ان کو بچے چیک کروا لیتے ہیں وہاں گیا تو دروازے کو کھول کر دیکھا ائر کنڈیشن چل رہا تھا مگر یخ بستہ کمرے میں کوئی ذی روح موجود نہ تھا ڈاکٹروں کی خالی کرسیاں میرا منہ چڑا رہی تھی خالی کمرہ فریج کی مانند ٹھنڈا ٹھار ہورہا تھا مگر اسی کمرے کے دروازے کے باہر انسانوں کا ایک جم غفیر گرمی سے گھٹے گھٹے سانس لینے پر مجبور تھا پھر میں نے پیش قدمی کی کمرہ نمبر دو کی طرف وہاں بھی وہی عالم تھا کہ خالی میزوں اور کرسیوں کی خدمت پر مامور ائر کنڈیشن اپنے فرائض انجام دے رہا تھا اب میں بڑھا کمرہ نمبر ایک کی طرف وہاں بھی وہی عالم تھا اے سی چل رہا تھا کمرہ ٹھنڈک سے پر مگر ڈاکٹروں سے خالی بالکل غریب کی جیب کی طرح چاروناچار مجھے واپس کمرہ نمبر چار کی طرف پلٹنا پڑا میں نے آگے بڑھ کر صرف یہ دیکھنا چاہا کہ کمرے میں کون کون سے ڈاکٹرز چیک اپ کر رہے ہیں تو ایک دراز قد نوجوان جو ادب و احترام کی دولت سے یکسر تہی دست تھا

مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا اوئے چاچا توں کدھر منہ چک کے ٹریا جانا ایں چل جا تے جاکے پچھے لین اچ لگ جا، میں نے اس سے کہا کہ بیٹا میں صرف یہ دیکھنے آگے جارہا تھا کہ اندر کون سے ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہیں وہ کہنے لگا کہ واری آوی گی تے ویکھ لویں چل پچھے جا کے کھلوجا (جب تمہاری باری آئے گی تو دیکھ لینا چلو پیچھے جاکے کھڑے ہوجاؤ) میں چونکہ لائن میں کھڑا ہی نہیں تھا اس میں سیف بھائی نواسی کو اٹھائے ہوئے اور انکی بیٹی اپنے بیٹے کو اٹھائے کھڑے تھے پہلے ہی لہذا میں ایک سائیڈ پہ ہوکے کھڑا ہوگیا اور بغور اس دراز قد مگر ادب و احترام کے حساب سے انتہائی پستہ قد نوجوان کے لوگوں کیساتھ سلوک کو پڑھنے لگ گیا کبھی وہ کسی خاتون کو جھڑک رہا تھا

تو کبھی کسی مرد کو جھنجھوڑ رہا تھا ساتھ ساتھ جو اس کے منہ میں آرہا تھا لوگوں کو سنائے چلا جارہا جیسے یہ عوام انسان نہیں بلکہ بھیڑ بکریاں ہوں اور وہ اس ریوڑ کو ہانکنے والا کوئی چرواہا انتہائی ہتک آمیز رویہ دیکھنے کو مل رہا تھا انسانوں کیساتھ بعد میں پتہ چلا کہ اس کمرے میں ایک ہی ڈاکٹر بیٹھا ہوا ہے جو سینکڑوں مریضوں کو چیک کرنے کی ذمہ داری نبھا رہا ہے وہ بھی جلدی جلدی میں بس گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق ایک نظر دیکھ کر ادویات لکھے چلا جارہا تھا بغور چیک کرنا اس کے لئے تھا بھی انتہائی مشکل امر باہر لوگ حبس گھٹن اور ہتک یا تذلیل سے عاجز آئے ہوئے تھے

یہ دوسری اسٹیج تھی تذلیل انسانی کی اندر اکیلا ڈاکٹر وسیم بس چیک کرنے کی ڈیوٹی کرنے کی سعی کررہا تھا ساڑھے 12 بجے کے قریب ڈاکٹر پیر شاہ آگئے ان سے جب میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ڈی ایچ کیو گئے ہوئے تھے ابھی سیدھا یہاں پہنچا ہوں اب کمرے میں ڈاکٹروں کی تعداد دو ہوگئی کچھ لمبی لگی ہوئی لائنیں چلنے لگیں مگر رش تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا بہرحال ہماروں بچوں کا چیک اپ مکمل ہوا بچی کو ادویات لکھ کر دے دی گئیں اور بچے کو داخل کرلیا گیا جب ایمرجنسی وارڈ میں جاکر بچے کی فائل بنوائی اندر داخل ہوگئے ٹریٹمنٹ کونٹر پر چار نرسیں بیٹھی ان بچوں کو برینولاز لگارہی تھیں

رش یہاں بھی اتنا تھا کہ الحفیظ و الامان اس کونٹر پر بیٹھی نرسز کی بھی الگ ہی سائنس دیکھنے کو ملی اپنی وارڈ سے بوجھ ہٹانے کے لئے وہ بچے کا چارٹ اور فائل اک نظر دیکھتیں اور اس سے ایمرجنسی وارڈ کے الفاظ کو اپنی قلم سے کاٹ کر اس پر چپکے سے آئی سی یو لکھ کر بچوں کی ماؤں سے کہتیں کہ یہ ادھر کیوں لائی ہو یہ بچہ سامنے آئی سی یو میں لے کر جاؤ بیمار بچے کو آدھے سے پون گھنٹا کھڑا رکھ کر اسے جھڑکیاں سے نوازتے ہوئے کمال جابرانہ شفقت سے آئی سی یو کی طرف احترام سے دھکیل دینا کتنی عظیم خدمت ہے انسانیت کی قارئین کرام یہ تیسری اسٹیج رقم کی ہے تذلیل انسانی کی. ہمارے بچے کو بھی ادھر سے آئی سی یو بھیج دیا گیا اب وہاں متعین نرسوں نے حاکمانہ رویہ اپناتے ہوئے

پوچھا یہ آئی سی یو کس نے لکھا ہے سب ادھر ہی منہ اٹھائے چلے آرہے ہیں اس پر میں نے نرس سے مخاطب ہوکے کہا کہ بیٹا اب مریض بچے یا ان کی مائیں تو کچھ کاٹ کر لکھنے کی مجاز نہیں آپ کا عملہ یا ڈاکٹرز ہی صاحب اختیار ہیں آپ براہ کرم ان مریضوں کے چارٹ دیکھیں اور ان پر درج ٹریٹمنٹ شروع کریں تب کہیں جاکر وہ نرس کہنے لگی کہ اسٹور سے ملازم انجیکشن اور ڈرپس وغیرہ لینے گیا ہوا ہے

وہ لے کر آئے گا پھر کچھ ادویات کی ڈیلیوشن کرکے آپ لوگوں کو بلا لیتے ہیں لہٰذا اتنی دیر آپ لوگ مریض بچوں کو لے کر باہر بیٹھیں اب ہم تکالیف سے بلکتے اور بخار کی شدت سے تپتے بچوں کو لے کر ایمرجنسی کے گیٹ کے باہر لے آئے یہاں پر میں نے بیان کی ہے تذلیل انسانی کی چوتھی اسٹیج کوئی گھنٹہ سوا گھنٹہ گزرنے کے بعد اللہ اللہ کر کے ایک تین پہیوں والی ریڑھی پر ادویات کے ڈبے رکھے دو ملازمین آئے جنہوں نے ادویات آئی سی یو میں پہنچائیں پندرہ بیس منٹ بعد مائیں مریض ننھے بچوں اور شیر خواروں کو لے کر اندر گئیں جن کے بچوں کو انتہائی حقارت آمیز رویئے سے انجیکشن اور ڈرپس لگائی گئیں یہ تھا

اس ایک ہی اسپتال میں انسانی تذلیل کا پانچواں مرحلہ یعنی شہباز شریف مدر اینڈ چلڈرن کمپلیکس شیخوپورہ میں انتہائی مخدوش حالت میں بچوں کو لیکر جاؤ تو صبح کے دس بجے سے اس بچے کو پہلی خوراک دوائی یا ٹیکے کی اڑھائی سےتین بجے سہ پہر تک ملے گی ہاں البتہ تضحیک کا عمل فوری شروع ہوجائے گا دھکے اور جھڑکیاں بطور بونس مہیا کی جائیں گی تین بجے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ اپنا تعارف کروا دیتے تو پندرہ بیس منٹ کے اندر اندر بچوں کا ٹریٹمنٹ شروع ہوجاتا جس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے یہ کیسے معلوم ہوتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام پر کاربند مسیحا اہلیان دھرتی سے کیسا سلوک روا رکھتے ہیں یہاں عہدے اور تعارف ہی کو کب تک پیش نظر رکھا جاتا رہے گا کیا

عام عوام انسانیت کے زمرے میں نہیں آتے یا اولاد آدم میں سے عام سا اسٹیٹس رکھنے والونکو آدم کی صاحب حیثیت اولاد نے عاق کر رکھا ہے جن کے ووٹس کی امداد سے اقتدار ملے اس کی تضحیک کیا آئین کا حصہ ہے؟ جن کے ٹیکسسز سے یہ سرکاری اداروں کے اہلکاران و افسران پل رہے ہیں کیا انکے لئے اپنے کفیلوں کو تذلیل کا نشانہ بنانا ان کے فرائض میں شامل ہے؟ قارئین کرام شہباز شریف مدر اینڈ چلڈرن کمپلیکس میں ڈی ایچ کیو کی طرز پر پرچی کی جگہ آن لائن ٹوکن کا سلسلہ اگر شروع کردیا جائے تو پرچیاں ختم ہونے کا عذر تو نہ تراشا جاسکے گا. اگر یہاں او پی ڈی میں چار کمرے ہیں

ہر کمرے میں دو بھی ڈاکٹر موجود ہوں تو مریض بانٹے جاسکیں گے اور بیچارے ایک ڈاکٹر کو اتنے رش کے ہاتھوں ذہنی مریض بننے سے بھی بچایا جاسکتا ہے معصوم بچوں کے لئے بنائے گے اس اسپتال کے وارڈز میں میڈیسن ہمہ وقت موجود ہوں ناکہ دو گھنٹے ادویات کا انتظار کرتے کرتے اگر کسی ننھی جان کی سانسیں اکھڑ جائیں تو اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے ایسا ماحول بننے سے پہلے ہی ادویات کی وافر مقدار وارڈز میں موجود ہونی چاہئیں بدتمیز اور بد تہذیب ملازمین کی اخلاقی تربیت بہت ضروری ہے اور ہاں جب او پی ڈی میں نو سے دس ڈاکٹرز تعینات ہیں تو اپنی ڈیوٹی کے وقت وہ غائب کہاں ہوتے ہیں اس پر بھی اک نظر ارباب اختیار کو لازمی کرنا چاہیئے کیونکہ واقفان حال کا کہنا ہے

کہ بیشتر ڈاکٹر سرکار سے تنخواہیں ضرور لیتے ہیں مگر وقت اپنے پرائیویٹ اسپتالوں کو دیتے ہیں وزیر صحت پنجاب، سیکریٹری ہیلتھ پنجاب، کمشنر لاہور ڈویژن، ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ، اے سی شیخوپورہ، سی ای او ہیلتھ شیخوپورہ، اور ایم ایس ڈی ایچ کیو اسپتال شیخوپورہ اگر ضلع کی عوام کو اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں تو ان کو عزت و احترام بھی دلائیں پروٹوکول صرف آپ لوگوں کا حق نہیں بلکہ آپ ان کو پروٹوکول دلائیں جن کی وجہ سے آپکے پروٹوکول قائم ہیں
میرے وطن میں آخر تذلیل انسانی کا سلسلہ کب رکے گا؟ کبھی رکے گا بھی کہ نہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں