125

“دی گوٹ لائف،بکرا زندگی” قسط 2

“دی گوٹ لائف،بکرا زندگی” قسط 2

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

اچھی اور خوبصورت فلم، سچی کہانی کی آڑ میں، کب تک ہم نام نہاد صوم و صلاة پابند شرح مسلمان، دشمنوں کے اشاروں پر ناچتے، کسی سے فردی تو کسی مسلم ملک سے ذاتی دشمنی نکالتے ہی پائے جائیں گے؟
ہمارے ایک نام نہاد دیندار صاحب شرح سنت داڑھی اور نماز روزے کے پابند دوست نے ہمارے لکھے دی گوٹ یا بکرا زندگی ھندی فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے، نہ صرف اس فلم کے خود دیکھنے اور اچھی ہونے کی ضمانت دیتے ہوئے، ہمارے ساتھ اورمسلمانوں کو بھی، یہ فلم دیکھنے کی جو صلاح دی ہے۔تعجب ہوتا ہے سعودی میں کئی سال، حصول رزق معاش کرگئے صاحب شرح دیندار قسم کے مومن مسلمان کے، انداز تفکر کا یہ حال تو، دینی علوم و افکار و اقدار سے نابلد نام نہاد اہل سنہ والجماعہ کے نام نامی کے ساتھ،

قبر پرستی جیسی بدعاتانہ مشرکانہ رافضی شیعہ اعمال میں ملوث90 فیصد جمعہ جمعہ نماز، پڑھنے والے، ہم مسلمانوں کے تفکر کے بارے تو آسانی سے اندازہ لگاسکتا ہی ہے کہ وہ،اغیار، مشرک و لادین کے مقابلے،ایسے سینما گھروں میں کثرت سے کیوں اور کیسے واہیات افلام دیکھتے پائے جاتے ہیں؟میں اپنے محترم دوست سےپوچھنا چاہونگا کہ، اسلام دشمن سنگھی مودی جی دور حکومت میں، “دی کشمیر فائیلز”، “دی کیرالہ اسٹوری”، “72حوریں”، “ہم دو ہمارے بارہ”(بچے)، “فرحانہ”، جیسی مسلم مخالف نفرتی فلموں میں سے، دی کشمیر فائلز اور دی کیرالہ اسٹوری فلم نے بھی، اپنے بہترین عکس بندی،کہانی اورسیکوینس فلمائزیشن سے،بہت اچھی تجارت بھی کی تھیں،

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم مخالف نفرتی وہ فلمیں بھی،سچے واقعات پر مبنی، اچھی تھیں؟ یا جھوٹ افتراپروازی پر مبنی نفرتی فلمیں تھیں؟ اور صرف دیکھنے میں ایسی نفرتی فلمیں، جاذب نظر رہتے، کامیاب ہوتی ہیں تو کیا،ایسی نفرتی فلمیں بنتی رہنی چاہئیے؟ اور داد تحسین حاصل کرتے رہتے، ہزاروں سالہ مختلف المذہبی سیکیولر اثاث چمنستان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت، ہم 300 ملیں مسلمانوں کا بھارت میں عزت و وقار سے جینا دو بھر کیا جاتے رینا چاہئیے؟

*ایسی نفرتی فلموں نے، اپنے بھارتیہ ھندوؤں کے قلب و اذہان میں،ہم بھارتیہ امن پسند مسلمانوں کا، غلط امیج قائم کئے، اس نفرتی سوچ کے ساتھ ٹرینوں بسوں میں، اکیلے سفر کررہے بزرگ مسلمانوں یا عورتوں کے ہاتھوں، سنگھی ھندو نفرتی حملوں کے راستے کیا وا نہیں کئے ہیں؟ شیطانی نفرتی سوچ والے اعمال و چیزیں، ہمیشہ سے ارکان اسلام کے مقابلے، اچھی اور مرغوب تر پائی جاتی ہیں۔ اسی لئے تو مساجد میں کچھ فیصد ہی مسلمان نماز پڑھتے پائے جاتے ہیں اور خصوصاً صبح کی باجماعت نماز میں تو، بڑی مشکل سے ایک دو فیصد ہی مسلمان باجماعت نماز پڑھتے پائے جاتے ہیں،

جبکہ پورے رمضان کے مشقت آمیز روزوں کے بعد، یوم جزاء و انعام و اکرام بٹتے عید کے مبارک دن، مسلم شباب کی اکثریت، فلم گھروں میں، نئی فلم دیکھنے، جوق درجوق جاتے پائے جاتے ہیں۔ اور خاص کر ‘یوم العبد للمومنین’ کی حیثیت مشہور، یوم جمعہ میں، مسلم نوجوانوں کی اکثریت،مساجد کے مقابلے، فلم گھروں میں ہی پائی جاتی ہیں۔اب کوئی بتائے؟ لوگوں میں مقبولیت کے اعتبار سے، دنیوی لہو و لعب اچھے اور بہتر ہیں؟ یا ہم مسلمانوں ہی کے ایک حد تک ترک کئے،نماز واذکار سنن، بے وقعت سمجھے جانے چاہئیے؟*

*دوسری بات موجودہ دور حکومت میں، کسی اندھ بھگت سے، جب بھارت میں مودی حکومت کی معشیتی بدحالی کی بات، جب کی جاتی ہے تو، بھارتیہ معشیتی بدحالی سے نظر ہٹانے، ہر کوئی پڑوسی پاکستان کی، معشیتی بدحالی سے، بھارت کا تقابل کرنے لگتا ہے۔ یہاں “بکرا زندگی” کیرالہ فلم کو، اس ھندو کیرالہ والے کے ساتھ سعودی عرب میں ذاتی نوعیت کے کسی بدبخت سعودی کفیل کی طرف سے کئے گئے،

ظلم و جبر والے واقعہ کے کچھ فیصد حصہ کو، اس واقعہ سے متعلق بہت سارے حقائق و سچ کو چھپا کر، عالم کی سب سے بڑی طاقت ور ترین حرمین شریفین والی مسلم ریاست سعودی عربیہ کو، خصوصاً اس فلسطین و یہود، حرب تناظر میں، فلسطینی مجاہدین کو پوری حربی مدد و نصرت کرتے شیعہ مملکت ایران کی ایٹمی قوت و حیثیت کو تاراج کرنے، یہود و نصاری کا ساتھ نہ دینے کے سعودی حکومتی فیصلے سے پریشان، یہود و ہنود و نصاری عالمی مسلم دشمن قوتوں نے، عالمی سطح پر مملکت سعودی عرب کے خلاف، کئی محاذی یلغار کئے، اسے عالمی سطح یک و تنہا کرنے کی جو سازش رچی پے،

ہم نام نہاد مسلمان، دانستہ کہ غیر دانستہ، اپنی تنگ نظرانہ سوچ سے،سعودی حکومت کے خلاف، یہود و ہنود و نصاری کے، اسلام دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا، سعودی مملکت کو بدنام کرنے میں، انکے پالے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔**اگر اس کیرالہ مزدور کے ساتھ واقعتاً اس سعودی شہری سے، ظلم و جبر سہنا پڑا تھا اور اس زندگی کے پہلے پانچ سال بکریوں کے بیج ریگستان میں تو، بعد کے پانچ سال اپنے کفیل کو قتل کرتے الزام میں، سعودی جیل میں، پورے دس سال برباد ہوئے تھے تو، دس سالہ غلامی و قید و مشقت بعد، آزاد ہونے کے بعد اس کیرالہ مزدور کے ساتھ ایسا کیا ہوا؟ کہ وہ ایک پیدائشی ھندو،مسلم دھرم سے انتہائی بغض و عناد باوجود، مشرف بالاسلام ہوجاتا ہے؟ کیا اس طرف اس حقیقی کہانی والے “دی گوٹ لائف” سعودی عرب مخالف منافرتی فلم میں، کچھ بتایا گیا ہے؟ نہیں تو آخر کیوں؟

مقصد صاف ہے، حق و سچ بتانا نہیں، بلکہ آدھے سچ کو نمک مرچ لگا کر،لوگوں کے سامنے،اچھےانداز پیش کئے، مملکت حرمین شریفین کو بدنام و رسوا کرتے ہوئے، عرب مسلم و اسلام کو بدنام کرنا ہے۔اس کیرالہ مزدور کے ساتھ اسکے سعودی کفیل نے جو کیا، اس کی سزآ اس مزدور نے، اسے جان سے مار کر، دنیا میں ہی دے دیا ہے۔ لیکن ہماری نظر میں،اس سعودی کفیل کے اس جرم عظیم سے زیادہ، اس سعودی کے اپنے بھیڑ بکریوں کو چرانے ماہر فن چرواہے کو مملکت بھیجنے کے بجائے، صرف چند ہزار روپئوں کے لالچ میں، جس کسی ٹریول آفس مسلم کے غیر مسلم ذمہ داروں نے،اس پڑھے لکھے کیرالہ شخص کو،دھوکہ سے اسے چرواہے کی ویزہ پر بہترین خاندانی چرواہے کے جھوٹ سے جو بھیجا تھا،

اس “گوٹ فلم” میں اس کا کوئی تذکرہ تک نہیں ہے۔ جبکہ وہ کیرالہ مزدور،مکرر اپنے سعودی کو، نہ سمجھ آنے والی ھندی بھاشا میں،ٹرویل ایجنٹ کے اسکو دھوکہ دیتے، بولتے، چیختے فلم میں دکھایا گیا ہے۔ چند ہزار روپیوں کے لئے، کسی کو دھوکا دئیے، غلط ویزہ پر پردیس بھیجنے والوں کو کیا سزآ دینا ضروری نہیں ہے؟ کیا اس کیرالہ مزدور کی زندگی کے بہترین دس سال غلامانہ زندگی بسر کرنے کا ذمہ دار اس کفیل سعودی سے زیادہ وہ ٹریول ایجنٹ نہیں ہے؟ اس پر لب مہری کیوں؟ کیا

آج بھی بھارتیہ سنگھی حکومت 1991 میں اس کیرالہ مزدور کی زندگی خراب کرنے والے، اس ٹریول ایجنٹ کو گرفتار کر، اسے سزا نہیں دلوا سکتی ہے؟ یہاں ان تمام موضوعات سے پرے، ایسی منافرتی فلمیں سازشانہ انداز ریلیز کروانے کے گندے مقاصد کو کب تک نظر انداز کیا جاتا رہیگا اس پربتدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے وما علینا الا البلاغ

ایسی نفرتی فلم پر فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق،ٹیکس فری اور مفت ٹکٹس نیزجھوٹے دعوؤں کے ساتھ فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ اُن فلموں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں یہ خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں کہ بالی وُڈکلچرل پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے انتخابی میدان میں مدد کر نے کے لئے،ایسی منافری فلمیں دانستہ بنائی جاتی ہیں۔مسلمانوں کی مخالفت میں بنائی گئی اس فلم کو،باکس آفس پر کامیابی بھی ملی ہے اور اس کے ٹریلر میں دکھایا گیا

کہ ’معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر ذہن سازی کی گئی اور پھر دہشت گردی‘ کے لیے بھیجاگیا۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا میں فلم سنسرشپ کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن بی جے پی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انڈسٹری تیزی سے ایسی فلموں کو رد کر رہی ہے جو وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے نظریے کو فروغ دیتی ہیں۔صحافی اور مصنف نیلنجن مکوپادھیائے کے مطابق انڈیا میں سنیما اور فلمیں عوام تک، اپنے پیغام کو پہنچانے کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ ہیں۔ جسکا بی جے پی اپنے مذموم نفرتی ایجنڈے تکمیل کے لئے، غلط استعمال کررہی ہےانہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ مودی کے دور میں فلموں کو معاشرے میں تقسیم بڑھانے والے،ایسے پیغامات پھیلانے کے لیے، دانستہ استعمال کیا جاتا رہا ہے

جو سیاسی رہنماؤں کے تعصبات کی پیداوار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مذہبی اقلیتوں کے بارے میں تعصب پیدا کرنے اور نفرت کو عام لوگوں تک پہنچانے میں، اب فلمیں کردار ادا کر رہی ہیں۔‘ 2024اس الیکشن میں وزیراعظم مودی کی بی جے پی کو سخت مقابلے کا سامنا تھا اور اس دوران پڑوسی ریاست مہاراشٹر میں فسادات بھی ہوئے جہاں پتھراؤ کے ایک واقعے میں ایک شخص ہلاک بھی ہوا۔
وزیراعظم مودی نے ایک الیکشن ریلی کے دوران اس فلم کے حق میں بات کی اور الزام عائد کیا کہ مخالف سیاسی جماعت کانگرس ’دہشت گردی کے رُجحان کو فروغ‘ دے رہی ہے۔
فلم سازوں نے، عدلیہ اعتراض بعد،اس فلم میں دکھائے، اپنے اس دعویٰ کو واپس لے لیا تھا کہ “مسلمان نوجوانوں نے ریاست کیرالہ میں 32 ہزار ہندو اور مسیحی خواتین سے شادی کر کے اُن کو داعش کے جہادی گروپ کے پاس بھیجا”
*ہمارے دوست کی طرف سے اس فلم کے تشہیری کلمات*

*بہت کمال کی مووی ہے۔ میں نے بہت عرصہ بعد کوئی فلم دیکھی اور سچ میں آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مووی ڈائریکٹر کے مطابق یہ ایک سچی کہانی ہے مگر اس مووی نے، عرب ممالک خصوصا سعودی عربیہ میں بوال مچا دیا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس مووی میں کتنی صداقت ہے،مگر ایک بات سچ ہے کہ عرب کفیلوں کے بارے کبھی اچھا سُننے کو نہیں ملا۔ خیر اب نئی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے بھارتی فلم دی ګوٹ لائف میں کفیل کا کردار ادا کرنے والے، عمانی اداکار طالب البلوشی کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔
خیر ہمیں کیا لینا دینا،ان سب سے، اب عرب جانے اور انڈین فلم انڈسٹری۔ ویسے بھی سعودی عرب کے سکولوں میں اب رامائین بھی پڑھائی جائے گی تو جن کے پنگے وہ سُلجھائیں آپ لوگ مووی دیکھیں بہت اچھی ہے۔ پہلی بار عربوں کی دُم پر پاؤں پڑا ہے تھوڑا چیخیں نکلنا بنتا ہے۔ خاموشی سے انجوائے کریں۔ فاروق بھائی ہر پنگے میں ٹانگ نہیں اڑاتے کہیں پر خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے۔ اس مووی کو سعودی کے مبارک سنیما گھروں دیکھنے ک موقع شائد آپ کو نہ ملیں، جب آپ کا کفیل پورے کفالت ادا کرنے پر، پاسپورٹ آپ کے حوالے کرے تب ہند میں فلم دیکھنا😄
ویسے مووی اچھی ہے اور گرافکس تو کمال کے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں