83

“تمام پیشوں کا سردار پیشہ تجارت” قول رسولﷺ

“تمام پیشوں کا سردار پیشہ تجارت” قول رسولﷺ

نقاش نائطی
+966562677707

یہود وہنود و نصاری ہم مسلمانوں کو مختلف فروعی مسائل میں الجھائے آپس میں ہی دست گریبان جینے کا عادی بنائے ہوئے ہیں،عرب اقوام کا ایک دوسرے کے خلاف حربی کیفیات میں ہمہ وقت پایا جانا ، کسی نہ کسی بہانے صدام و قذافی جیسے زیرک مسلم لیڈران کا ہماری مدد و نصرت سے اغیار کے ہاتھوں خاتمہ اور سابقہ پچیس تیس سال دوران حوتیوں کے کندھوں پر بندوق رکھ شیعہ ایران کا حرمین شریفین پر قبضہ کی ناپاک سازش پر عمل پیرا،عرب سنی ریاستوں پر زبردستی شیعہ سنی حرب جاری رکھنا،اس پس منظر میں قوم مسلم کو ایک مخصوص راہ پر گامزن کرنے، وہی بات مکرر دہراتے ہوئے، انہیں بتانی پڑتی ہے کہ کاش ہم مسلم قوم کو، عالمی سطح پر پیشہ تجارت سے منسلک کروانے میں کامیاب ہوتے!

تجارت کی راہ پر گامزن وی آر ایل لاجیسٹک کمپنی جب گھر میں بچہ روتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کوئی کھلونا یا جھنجنا دیتے ہوئے، اسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ گھر کے اور لوگ دیگر کام سے نپٹ سکیں۔ بعض بچے ایک کھلونے سے جب اوب یا تھک جاتے ہیں تو وہ کھلونا بار بار دئیے جانے کے باوجود، پھینک دیا کرتے ہیں ایسے بچوں کو چپ کرانے،ایک نئےکھلونے کا انتظام کرنا پڑتا ہے

بلکل ایسے ہی ہم مسلم امہ کو، ایسے نماز پڑھتے روبوٹ یا فضائل اعمال سے، اپنی آخرت سنوارنے والے، اس اقسام کے ذہن بھٹکانے والے متعدد کھلونے ہمہ وقت، ہمارے سامنے رکھے جاتے رہے ہیں۔ کبھی جائے نماز پر غیر اسلامی کلمات و تصاویز طبع کروا کر یا چپل جوتے پر نام رسول ﷺ یا نام خالق کائینات کنندہ کروا کر، ہم مسلمانوں کو اسےمتواتر فارورڈ کرتے، اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے، انہی کفار و مشرکین کے ایجنڈے پر عمل پیرا رہتے، اسلام کے خلاف مغلظات کو دنیا کے ہر کونے تک فارورڈ کرنے میں منہمک رکھا جاتا ہے۔ کوئی بتائے؟ ہم آپ کے کپڑے پر کسی دشمن اسلام کافر نے غلاظت لگادی تو کیا

ہم دنیا بھر کو؟ اس غلاظت کو دکھاتے ہوئے، اپنے لئے ہمدردی استوار کرتے اور دشمنان اسلام کے لئے غیض و غضب پیداکرنے کی راہ ہموار کرتے ہی پائے جائیں گے؟ یا سب سے پہلے،اپنے بدن کی غلاظت پاک و صاف کریں گے؟ اسی لئے عقل مندی کا تقاضہ ہے کہ جب بھی ایسےاسلام کی تضحیک کرتی کسی پوسٹ کو دیکھیں تو، اسے وہیں پر ڈیلیٹ کرتے ہوئے، دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام کرنے کی سعی کریں نہ کہ، اسے ہم خود دشمنان اسلام کےایجنٹ بن کر، انکے مشن کواپنے طور پورا کرتے پائے جائیں
سابقہ مسلم ادوار کے خلافت راشدہ ہوں کہ خلافت عثمانیہ، انکے تابناک اسلامی ادوار کو دیکھنے اور پڑھنے کے بعد، دراصل یہود و نصاری ہم مسلمین کو، اپنے آباء و اجداد کے اسلامی اعلی اقدار کے مطابق کامیاب تاجر قوم یا دین حنیف سلف و صالحین پر عمل ہیرا ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے ہیں اس لئے ہم میں سے بعض کو اپنے ایجنٹ کی طرح ہمارے درمیان رکھتے ہوئے، ہم میں شب کے آخری پہر تک لہو لعب میں وقت گزارتے، دن ڈھلے تک سوتے، دین کے معاملے کے ایسے خرافاتی مشغلوں میں توضیع وقت کرتے وصف کو، ہم میں جاگزین کرتے ہوئے، دن ڈھلنے کے بعد، مختصر وقت میں آسان دولت کے حصول میں سرگرداں ہمیں رکھنے کی کوشش میں وہ کامیاب لگتے ہیں

اللہ رب العزت کے نبی آخرالزماں محمد مصطفی ﷺ پر اتاری گئی دوسری آیت کریمہ “خلق الانسان من علق” ، “ہم نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا” ارض و سماء، بر و بحر کے رموز واسرار کو، قرآنی علوم کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے، انسانی صلاح و فلاح کے لئے، نت نئی ایجادات ظہور پذیر کرنے کے حکم خداوندی کو تو، ہم مسلمانوں نے،اپنے لئے لائق عمل نہ مانا،بلکہ الٹا حکم خداوندی کے عین خلاف، علم عصر حاضر حاصل کرنےوالوں کو، ابن الحرام اور بنت الحرام کہنے والوں کی عزت و توقیریت کو ہم نے, اپنے اوپر لازم ملزوم کرلیا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ کےحرب اول،اسیران بدر کو،

ان میں موجود علم و ہنر، مسلمین مدینہ میں منتقل کرتے ہوئے، رہائی پانے والے معرکہ الآرا فیصلہ کو، اور علم حاصل کرنے اس دور جہالت میں، چین تک کا سفر کرنے کے آپﷺ کےحکم کو، نظر انداز کر، علوم دین ہی کو ہم مسلمین کے لئے ضروری قرار دیتے، ہمیں علوم عصر حاضر سے ماورا، مسجد و مدارس کی دیواروں میں مقید کر، الی اللہ کی ضربیں لگاتے، اوصول و ضوابط عالم بیان کرتے احکام قرآنی کو سمجھنے کے بجائے، طوطوں کی طرح رٹہ مار حفاظ قرآن کی ایک لامتناہی کھیپ تیارکرنے ہی کو دین اسلام سمجھنے اور سمجھانے لگے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی اہل علم یہ بتا سکتاہے؟ مسلمین مدینہ کوکونسے علم سکھانے کے بدلے اسیران بدر کو، رہائی کا پروانہ ملا تھا؟ کیا تجوید قرآن،رتل و ترتیل قرآن یا افہام و تفہیم قرآن اسیران بدر سے سیکھنا مقصودتھا؟ یا ان میں موجود ہنر حرب یا دنیوی علوم عصر وقت کو مسلمین مدینہ میں منتقل کروانا اصل مقصود تھا؟ ان ایام پیدل و گھڑ سوار سفر کے دور میں،

مدینے سے چایئنا،کم و بیش ساڑھے سات ہزار کلو میٹر دور،وہ کونسا علم حاصل کرنے، خاتم الانبیاء سرور کونیں رسول محمد مجتبی ﷺ نے،ہم مسلمین کو ہدایت کی تھی؟ کیا اس وقت چین کے پاس کوئی آسمانی علم دین تھا؟ یا ان چینیوں میں، علوم عصر حاضر حاصل کرنے کی تڑپ تھی؟ جو آج بھی ان کی دریافت شدہ مقناطیسی شعاؤں سے، دشمن امریکہ کے آلات عصر جدید، آگ اگلتے بمبار طیاروں، خود کار ڈرون سسٹم، ہزاروں میل دور اھداف کو تباہ کرتے میزائل سسٹم اور طیارہ بردار جنگی بحری بیڑوں کو، اپنے مستقر صاحب امریکہ کے مکتب رئیسی پینٹاگون سے ربط ختم کر،اسے مفلوج کر رکھنے والی چینی صلاحیت، ایک طرف سربراہ عالم پر متمکن صاحب امریکہ کو متحیر العقل، ہواس باختہ کئے ہوئے ہے،تو وہیں پر چائینا کے، اگلے سربراہ عالم کی دعویداری میں، سب سے آگے ہونے کی دلیل کے طور بھی انکے تحقیق و تدبر جستجو کو دیکھا جارہا ہے

چودہ سو سال قبل اونٹوں پر مال برداری کر ان کی نکیل پکڑ پیدل چلتے، علم و عرفان سے نابلد زمانہ جاہلیت میں، آپ ﷺ اپنے پاس مال و دولت کے فقدان باوجود، عملی محنت، شراکت داری (ورکنگ پارٹنر) وصول کے تحت، مکہ کی تاجر رئیسہ حضرت خدیجہ الکبری رض کے مال تجارت کو، شام و مصر تجارتی سفر پر لیجاتے ہوئے، اور پیشہ تجارت کو،تمام پیشوں کا سردار پیشہ کہتے، پیشہ تجارت کی افادیت و اہمیت کو ہم مسلمین پر اجاگر کرنے کے باوجود، ہم کتنے فیصد عاشقین محمد مصطفی ﷺ پیشہ تجارت سے جڑے ہوئے ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے یونہی ہم مسلمانوں کو علم حاصل کرنے چین تک کا سفر کرنے کو نہیں کہا تھا؟ آپﷺ کے عملی طور، کر دکھائے پیشہ تجارت کو،من حیث القوم اگر دنیا کی کسی قوم نے،اجمالی طور اپنایا ہے تو وہ ہے قوم چین۔ آج دنیا چائینا کے اس اوصول تجارت کی معترف ہے

کہ ان کے لئے دوستی دشمنی سے اوپر باہمی تجارت ہی ہے جس کی بنیاد ہی پر، آج وہ اپنے سب سے بڑے حربی دشمن، صاحب امریکہ کو مختلف اشیاء، خصوصا آلات حرب عصر حاضر تیار کرنے والے، میزائل و بمبار طیارے کی صنعت میں استعمال ہونے والا، دو تہائی خام مال برآمد کیا کرتی ہے۔اور صاحب امریکہ چائینا کو اپنے وجود کے لئے،خطرہ ماننے کے باوجود، اور ساوتھ چائینا سمندر میں ایک دوسرے کے خلاف آلات عصر حاضر کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے حالت جنگ میں کھڑے رہنے کے باوجود، چائینا سے اپنی تجارت جاری رکھنے پر صاحب امریکہ مجبور ہے۔
اب ہمارے بھارت ہی کو لے لیجئے، گذشتہ ستر سال دوران تین جنگ آپس میں لڑچکے پاکستان کے خلاف، ہمہ وقت ہرزاسرائی کرنے والا بھارت،

اور ہمہ وقت پڑوسی دشمن ملک پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی امنگ رکھنے والے یہ سنگھی حکمران، پاکستان سے ہزاروں کروڑ کی تجارت غیر قانونی طور ہی جاری رکھے ہوئے ہیں، پاکستان کے راستے افغانستان و سابق روسی آزاد ریاستوں کو سڑک کے راستے بھیجے جانے والے شپمنٹ کے نام سے، غیر قانون بند پاک تجارت جاری ہی رکھے ہوئے ہیں

آزادی ھندکےوقت غالباً پنجاب بھارت کے ھندو مسلم تجارتی کمپنی مہیندرا اینڈ محی الدین (ایم & ایم)، بعد آزادی ھندو پاک، اس وقت کے بڑے سرمایہ دار شریک محی الدین کے،اپنا سرمایہ لئے پاکستان چلے جانے کے بعد، صد فی صد آزادانہ مسلم ماحول میں تجارتی ترقی پزیری کے کے مواقع باوجود، مہندرا کے بڑے سرمایہ دار شریک محی الدین کا تجارتی سفری جہاز، کس اونچائی تک پہنچا یا سمندر برد ہوا یہ دنیا نہیں جانتی،لیکن اس وقت اسی مہندرا اینڈ محی الدین کے کمزور پارٹنر،اپنی شراکت خاتمہ بعد ملے سرمائے سے، ان کے ہاتھ لگے، اس وقت کے اسٹامپ ایم & ایم کو، فنڈ کی کمی باعث ضائع کرنے کے بجائے، مہندرا اینڈ مہندرا ہی کا حصہ، متصور کئے،اسی “ایم & ایم” سے اپنا تجارتی سفر ایسے تیسے جاری رکھا۔

“رزاق دو جہاں کے اوصول ترسیل رزق،مذہب و ذات برادری سے اوپر اٹھ کر،انسانیت میں سے کسی کے بھی، تدبر و جفاکشی سے محنت و مشقت تحقیق تدبر و تفکر کرنے والوں ہی کے حصہ میں آیا کرتی ہے”۔ایم & ایم” کا اسٹامپ تک فنڈ کی کمی باعث، ضیاء رقم تک کا خیال کرنے والے، مہندرا اینڈ محی الدین “ایم & ایم” کے کمزور شریک،مہندرانے،اپنے سفر تجارت و صنعت دوران، اپنے مہندرا مہندرا اوپن جیپ سے،ایسی ترقی پیری پائی کہ سال روان مارچ 2024 تک،مہندرا اینڈ مہندرا کے تجارتی اثاث 8۔42 بلین ڈالر، پاکستانی روپئیے تقابل حیثیت سے 11 ہزار 914 ارب روپئیے بنتے ہیں۔
آزادی ہند و پاک کے دو سال بعد 1949 میں کیمیونسٹ آزاد ملک کی حیثیت عالم کے نقشہ پر ابھرنے والا ملک چین شروعات دور میں ھند و پاک کے عوام ہی کی طرح سست مزاج، بے ایمان قوم ہوا کرتی تھی چینی سیاسی لیڈران نے چین کی ہر بڑی کمپنیوں کو نیشنلائز کرتے ہوئے سرکاری تحویل میں لیتے، ہر چینی باشندے کو سرکار کے لئے کام کرنے والا بناتے ہوئے، ان میں، ایمان و ارکان اسلام کے علاوہ اسلام کے وہ شعار رگ رگ میں پیوست کئے کہ آج پوری چائینیز قوم سورج کی کرنوں کے ساتھ، اٹھتی ہے اور غروب سورج کے تھوڑے وقفہ بعد، وقت العشاء، اپنے آپ کو حوالہ بستر کرنے کی عادی سی ہوگئی ہے۔

شعائر اسلام کا انہیں اتنا پاس ولحاظ،اللہ کے رسول ﷺ کےعمل کر دکھائے، دوپہر کھانے بعد، کروڑوں چائینیز اپنے آفس و فیکٹری مقام شغل ہی پر بیٹھے بیٹھے ٹیبل پر سر ٹکائے، کچھ وقتی اونگھ ہی سے، قبل ظہر کام کی تھکاوٹ سے ماورائیت حاصل کرنے،سر شام ڈیوٹی کے لئے تازہ دم ہوئے پائے جاتے ہیں۔محنت ایمانت داری، وقت کا پاس ولحاظ وعدہ وفائی کا جذبہ اگر کوئی سیکھے تو عملا چائینیز سے یا یورپی بعض ممالک ان گوروں سے سیکھے۔ یہ اس لئے کہ پورےعالم کے ہم مسلمان،اجمالی طور، دیر رات گئے تک جاگنے اور دن ڈھلے تک بستر کی سلوٹوں کو مسلنے ہی میں مست پائے جاتے ہیں

۔الا ماشاء اللہ، کچھ ذاتی عمل پیرا مسلمانوں کو چھوڑ کر، من حیث القوم وعدہ وفا کرنے کے معاملے میں کوتاہ تر، اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں، گیا گزرا، یا محنت و مشقت کے مقابلے، آسان دولت کے حصول میں،ہم مسلمانوں کا ٹانی کوئی بڑی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ اسی لئے تواسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے عالم کے پہلے ملک جمہوریہ اسلامیہ پاکستان کے،25 کروڑ افراد میں زیادہ تر، اپنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے،ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے،آپنی اولاد کے لئےحصول رزق میں مصروف، پائے جاتے ہیں۔ عالم یہود ونصاری نے، اپنی سازشانہ ذہنیت عملی سے،اسلام کے نام پر بنی، مملکت اسلامیہ پاکستان کے سربراہان، آشرافیہ زرداران اور محافظان پاکستان کو، اپنے قابو میں کئے،

انہیں لوٹنے اور ٹھگنے کی راہ پر ڈالے، خود انہیں خوب تر لوٹے،کشکول لئے،اپنے ایک حد تک تابعدار، عرب امراء کے پاس،انہیں بھیک منگوائے،اور اسی بھیک سے سرکاری امداد من وسلوی کے مراعات و سہولیات عوامی استفادے سے، اپنے آخری نبی محمد ﷺ، کسی نہ کسی بہانے،25 کروڑ عوام کی اکثریت کو،طایک دوسرے سے بھیک مانگنے کی عادت ڈالے، یا ڈلوائے، انہی پاکستانیوں کو حرمین شریفین کے ساتھ ساتھ، عرب ممالک و یورپی ممالک کی پرتعئش مارکیٹ و مالز میں، پوری سازشانہ عالمی بھیک مافیہ تحت، ان سے بھیک منگوائے، پورے عالم کے سامنے پاکستان کو بھیک مانگنے والا ملک جو مشہور کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
اللہ کےرسول ﷺ ہمارے بزرگان دین کے ہمیں مکرر یہ بتانے کے باوجود، کہ طلوع شمس کےکچھ وقفہ بعداشراق کی نماز کے وقت آسمان سے فرشتہ زمین سے قریب تر اونچائی پر آکر آواز دیتا ہے کہ کوئی ہے جو رزاق کائینات کی طرف سے بٹنے والی رزق میں،اپنے لئے حصہ پالے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دن بھر محنت مشقت سے، رزق کے دروازے کو اپنے لئے وا کرالے اور انہی اوقات، عالم بھر کے ہم مسلمانوں میں سے زیادہ تر، اپنے بستر پر پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں یورپ و امریکہ جاپان و چین میں شب کے پہلے پہر بعد نوے فیصد رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں مفقود کراتے ہوئے

،یہاں تک کے رہائشی علاقوں گاڑی میں گاڑی کے ہارن بجانے تک کو ممنوع قرار دیتے ہوئے،شب کو آرام و سونے کا وقت نہ صرف بتلایا اور جتلایا جاتا ہے بلکہ ان رہایشی علاقوں میں ہارن بجانے یا شور شرابہ کرنے پر قانونی شکنجہ بھی کسا جاتا ہے۔ جو قوم شب کی تاریکیوں میں آرام کرنے کی اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ معاش کی تلاش میں سرگرداں رہتی پائی جاتی ہے رزاق و مالک دوجہاں، ان پر رزق کبھی تنک نہیں کیا کرتے ہیں۔ انہی اسلامی اوصاف کو من حیث القوم، جب چائینیز و بعض یورپی ممالک نے اجمالی طور اپنایا اور اللہ کے رسولﷺ کے عملا کر دکھائے سب سے بابرکت پیشہ تجارت کو اپنے لئے متعین کیا تو،آج دو تین دہوں کی محنت بعد کل عالم یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتا ہے

کہ، کس طرح سے چائینیز قوم نے، پورے عالم کے اکثر ملکوں کی دو تہائی تجارتی و صنعتی ضروریات، تجارت طرز برآمد کرتےہوئے، خود عالم کا معشیتی سربراہ تو بن چکا ہے بلکہ حربی طور، بعد امریکہ، عالم کی سربراھی کرنے قابل رہتے ہوئے بھی،اپنے دیرینہ حربی و تجارتی دوست پاکستان کو عالم کی سربراہی کی دوڑ میں آگے کرتے ہوئے، خود عالمی تجارت ہی میں مسرور و مسحور رہنے کو ترجیح دیتے پایا جاتا ہے۔
ہم اہل نائط ہزاروں سال سے عرب و بھارت تجارت کرتے، جنوبی بھارت میں ہزار بارہ سو سال مستقلا سکونت اختیار کر بھارت ہی کو اپنا مستقل وطن قرار دینے والے، ابھی سالوں قبل تک برما سیلون تجارت کرتے کرتے بھارت کے اکثر شہروں میں اپنی کامیاب تجارت کے جھنڈے گاڑنے والے ، اسی کے دیے بعد پیٹرو ڈالر سے مالا مال مختلف عرب ریاستوں میں بھی اپنے فن تجارت سے عرب کے بازاروں پر چھا جانے والے، خلیج کی آسان دولت حصول کے دروازے، ہم خارجی تارکین وطن اقوام پر بند ہوتے پس منظر میں،آج ہم،اپنے میں سے اکثر بھائیوں کو، کڑی محنت و مشقت سے جان چراتے، آسان دولت کے حصول کے منتظر ہم انہیں پاتے ہیں۔ جب کہ عالم اس بات کا گواہ ہے کہ آج بھی محنت و مشقت سے اگر اپنے آبائی پیشہ تجارت کو صحیح معنوں اپنایا جائے تو بھارت و پاکستان کے مختلف شہر گاؤں میں، بے شمار تجارت کے مواقع اب بھی موجود ہیں۔ قبل از وقت اگر اور مگر کا راگ الاپنے والے یا اتنی کثیر رقم کے بغیر شہروں میں تجارت ممکن نہیں سوچنے والے، سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اپنے لئے مواقع تیار کرنے والے،اپنی محنت سے آگے بہت آگے نکل بھی جاتے ہیں۔

یہاں ہم کیرالہ کے ایک کامیاب مسلم تاجر کا واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی اعلی ڈگری حاصل کرتے ہوئے ایک کامیاب تاجر بننے کا خواب ہمہ وقت دیکھنے والا نوجوان بارویں میں فیل ہونے پر، اس کے سرپرست اس کی مرضی کے خلاف اسے کھیت جوتنے پر مجبور کرتے ہیں تو اپنے والدین کو کچھ کر دکھانے کے وعدے سے، بنگلور اپنے دوست کے پاس چلا آتا ہے۔اسکا دوست تو صبح سویرے اپنی ڈیوٹی پر چلا جاتا ہے۔ وہ رہائشی کمرے کے پاس چھوٹے سے ہوٹل میں ناشتہ کھاتے وقت دو ایک دنوں بعد، ناشتہ میں کیرالہ والوں کامشہور ناشتہ “آپم”، (مصالحہ دوسہ جیسا) میں کھٹاس محسوس ہوتے

،جرح کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ دوسے کا آٹا بنانے والا کاریگر لڑکا اچانک ایمرجنسی چھٹی پرجانے کی وجہ سے، کسی دوسرے کے ہاتھ پسا آٹا کچھ کھٹاس محسوس کرارہا ہے۔ چونکہ وہ گھر میں، امی جان کی مدد کرتے، دوسے کا آٹا پیسنے کے فن سے آشنا تھا۔ دن بھر سوچ کر، خالی رہنے کے بجائے اپنے کمرے ہی میں دوسے کا آٹا پیس،اس ہوٹل والے کے پاس جا پہنچتا ہے اور اس آٹے کو دیتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ، اس آٹے سے دوسہ بنا کر آج بیچ لیں، اگر میرا پیسا آٹا آپکے گراہکوں کو پسند آجائے تو میں روزانہ صبح سویرے ایسا آٹا پیس کر لادیا کرونگا۔
وہاں اس شروعاتی محنت پہل سے، اس کی قسمت کے دروازے وا ہوتے ہیں۔وہ چھوٹے سے ہوٹل والا اس سے روزانہ کی بنیاد پر اتنے کلو پسا ہوا دوسہ آٹا لینے لگتا ہے۔ وہ نوجوان اپنے لئے مزید گراہک ڈھونڈتے،آس پاس کے کئی چھوٹے ہوٹل والوں سے رابطہ قائم کر، کافی مقدار میں،ریڈی میڈ دوسہ آٹے کا آرڈر لانے میں کامیاب رہتے، اپنے اسی کمرے میں شروعاتی دنوں میں، ایک الکڑیکل گرائینڈر لاتے ہوئے،

اپنی دوسہ آٹا سپلائی کرنے کا کاروبار شروع کرتا ہے اور جیسے جیسے اس کا دوسا آٹا سپلائی کام بڑھنے لگتا ہے تو ایک پورا رہائشی گھر کرائے پر لیتے ہوئے، دوسہ آٹا سپلائی فیکٹری بناتے ہوئے، کئی ملازمین کو اپنے ماتحت رکھ کر، پورے بنگلور شہر کو ریڈی میڈ دوسہ آٹا سپلائی کرنے لگتا ہے۔ اور یوں ایک وقت بعد کئی شہروں میں اس کی تجارتی صنعت کی شاخیں کھلتے ہوئے، ہائیجینک پیکنک میں مختلف دوسہ اٹلی ریڈی میڈ آٹا ایکسپورٹ کرنے والی اپنی تجارتی فرم کو،6 ہزار کروڑ کی کمپنی میں تبدیل کرتے ہوئے، بعد کے دنوں میں ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کر، بیسٹ اینٹرپرنر آف دی ائر کا ایوارڈ تک حاصل کرنے میں کامیاب وہ رہتا ہے
کیرالہ بزنس اینٹرپرنر کی تفصیل
زمانہ اس بات کا شاھد ہے جب بھی حضرت انسان محنت و مشقت ایمانت داری سے کوئی بھی رزق حلال کے طریقے پر توکل علی اللہ اپنی تجارت شروع کرتا ہے تو یقینا رزاق دو جہاں اس کی تجارت میں اس کے لئے برکت ڈالتے ہوئے، اس کی تجارت کوترقی پذیری کی راہ پر گامزن کردیا کرتے ہیں اس لئے آج کے کورونا قہر کرام والے، بڑھتی بے روزگروان کی ایک لامتناہی فوج کے ہر گاؤں شہر میں موجود رہتے پس منظر میں بھی، اگر اللہ کا کوئی بندہ، رزاق دو جہاں پر تو کل کرتے ہوئے،چھوٹے سے چھوٹے رزق حلال کے طریقہ کو اپنے لئے اپناتے ہوئے، مستقل مزاجی اور محنت و مشقت کے ساتھ اس تجارت کو شروع کرے تو یقیناً رزاق دو جہاں اس کے لئے اسی تجارت میں بے پناہ برکت عطا کرتے ہوئے کامیاب تاجر بنا سکتے ہیں۔
اسی کے دہے میں ایک لاکھ بیس ہزار روپیوں سے ایک لاری خرید کر اپنی لاری سے ایک شہر سے دوسرے شہر دوسروں کا مال تجارت منتقل کرنے والی،اپنی ٹرانسپورٹ تجارت شروع کرنے والےوجئے سنکیشور، اپنی ٹرانپسورٹ کمپنی وجئے ٹرانسپوڑٹ لمیٹیڈ (وی آر ایل) کی بنیاد جو اس نے ایک لاری سے شروع کی تھی۔ آج 2024 اپنے 3ہزار نو سو لاری اور 400 بسوں کے ساتھ 6 ہزار 300 کروڑ کی بھارت کی بڑی لاجیسٹک کمپنی بن چکی ہے۔
آج بھی عالم کے ہم مسلمان، (ماسٹر آف ون بٹ، ایون جیک آف نتنھک) کسی بھی ایک علم کے ماہر اعلی تعلیم یافتہ بنے لیکن باقی تمام علم و فن میں کورے رہے عملی میدان معاشرت معشیت سے نابلد رہنے کے بجائے،انسانی ومسلمانی زندگانی کے لئے ضروری علم دین و دنیا حاصل کرتے ہوئے،ہم اپنے اللہ کے آخری نبی خاتم الانبیاء رحمت للعالمین محمد مصطفی رسول مجتبی ﷺ کے، اپنی زندگی کی شروعات میں کامیابی سے عمل کردکھائے، اسے خود اپنے تجربہ کی بنیاد پر، تمام پیشوں کا سردار پیشہ قرار دئیے، پیشہ تجارت کو، اپنائیں گے تو یقیناً ہم آج کے اس دور یہود و نصاری کے معتوب و نالاں و پریشان مسلمانان عالم بھی، آج کے درپردہ امریکہ عالم پر حکمرانی کررہے عالم یہود کی طرح اگلے صد عالم کے تاجر و حکمران ہم مسلمان بن سکتے ہیں،وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں